Thursday , May 2 2024
enhindiurdu

زبان اُردو سے گلزار کاعشق رنگ لایا

محمد اعظم شاہد
تقسیم سے پہلے متحدہ ہندوستان کے پنجاب میں 1934 کو جنم ہوا سمپورن سنگھ کالرا کا، جس نے گلزار بن کر اپنی صلاحیتوں سے ادب اور فلموں کو ثروت مند بنایا۔ ملک کی تقسیم کے دوران خونین فسادات نے حساس گلزار کو بے چین کردیا تھا۔ یہ درد و رنج گلزار کے تخلیقی وجود کا اٹوٹ حصہ بن گیا۔ اردو اس ہمہ جہت فنکار کے احساسات کے اظہار کی زبان بن گئی۔ اس شیریں زبان کی حلاوت اور اثر آفرینی نئے آہنگ میں اختراعی تمثیلات کے ساتھ نئی تشبیہات سے معمور کئی رنگوں میں ہر سمت پھیلتی گئی۔ گلزار کا لہجہ منفر دبن گیا۔ یوں کہنا چاہئے کہ اس کی پہچان بن گیا جو دوسروں سے الگ اپنی رنگینی، دلکشی اور منظر نگاری کا گویا جیتا جاگتا استعارہ بن گئی۔ اپنے فن میں عام روش سے الگ ایک نئی روش اختیار کرکے گلزار نے اپنی شاعری، نغموں، فلم اسکرپٹ رائٹنگ اور اپنی ہدایت میں پیش کردہ فلموں کے ذریعہ حساس دلوں اور ذہنوں کا محبوب بن گیا۔ حادثوں کا شکار موٹر کاروں کی مرمت کے بعد رنگوں سے پینٹ کرنے والے گلزار کے اندر چھپا ہوا شاعر تخلیقی بے تاب فنکار پر زندگی کے نشیب و فراز سے گزر کرنے کے بعد اس پر قسمت مہربان رہی۔ پھر سلسلہ اس اچھوتے فنکار کی کامرانیوں کا دراز ہوتا چلا گیا۔ گلزار ہمارے دور کا کامیاب شاعر، نغمہ نگار، افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، مکالمہ نویس، منظر نامہ نویس اور ہدایت کار ہے۔ گلزار کی لکھی کتابیں چاہے شاعری کی ہوں یا فلمی نغموں کی یا پھر ان کی کہانیوں کی نہ صرف اُردو میں مقبول ہیں، بلکہ یہ ساری کتابیں ہندی میں بھی ہاتھوں ہاتھ لی جاتی رہی ہیں۔ بشمول انگریزی کئی زبانوں میں گلزار کی کتابوں کے تراجم بھی ہوئے ہیں۔ تبھی تو یہ فنکار نہ صرف ملک گیر مقبولیت کاحامل ہے بلکہ پوری دنیا میں اس کے انوکھے شعری و تخلیقی سحر کا چرچہ ہے۔
گلزار ان معنوں میں بھی خوش نصیب ہیں کہ ان کی ادبی و فلمی خدمات کا بھرپور اعتراف ہوتا رہا ہے۔ کئی ایسے نام نہاد نقاد، ادباء و شعرا ہیں، جن کی نظر میں گلزار کی کوئی ادبی وقعت نہیں ہے، مگر چاہنے والوں نے گلزار کی شاعری میں اپنے احساسات اور اپنے دھڑکتے دلوں کی دھڑکنیں محسوس کی ہیں۔ جو شاعری کے ٹھیکیدار ہیں ان کی پابند ردیف و قافیہ کی شاعری نے روایتوں کی پاسداری پر توجہ مرکوز کی ہے، مگر گلزار نے ”ہم نے دیکھی ہے ان آنکھوں کی مہکتی خوشبو“ لکھ کر ایک نئے ڈکشن اور احساسات کی منفرد دنیا آباد کی ہے۔ اس شاعر کی کتابوں کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں، ان کے لکھے نغموں کے ریکارڈز، کیسٹس، سی ڈیز اور کتابیں مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کرچکے ہیں۔ گلزار کے افسانوں پر مرکزی ساہتیہ اکیڈمی کا ایوارڈ فلم فیئراورفلموں کے لیے پانچ نیشنل ایوارڈز کے علاوہ دادا صاحب پھالکے ایوارڈ، پدم بھوشن، جئے ہو، (فلم سلم ڈاگ ملیننئر) گیت کے لیے آسکر اور گرامی ایوارڈ، یہ سب کسی بھی فنکار کی ہمہ جہت صلاحیتوں کا بھرپور اعتراف ہے، اور اب آپ کو ملک کا اعلیٰ ادبی اعزاز، ان کی اردو زبان میں شعری خدمات کے ا عتراف میں ”گیان پیٹھ ایوارڈ“ سے نوازا گیا ہے۔ اس طرح آپ اردو زبان و ادب کے حوالے سے یہ اعزاز حاصل کرنے والے پانچویں ادیب و شاعر ہیں۔
اس مہان دیش میں جہاں اس مٹی اور یہاں کے ماحول سے جنمی زبان اردو کے ساتھ تنگ نظروں اور متعصب پسندوں نے ناروا سلوک بنائے رکھا ہے، وہیں گلزار جیسی شخصیات نے اردو کو اپنی پوری خوبصورتی اور وسعت کے ساتھ نہ صرف اپنی شاعری، نغموں اور اپنی تحریروں میں کامیابی کے ساتھ برتا ہے، اپنے ایک گیت میں گلزار نے لکھا ہے کہ …… وہ پیار ہے جو خوشبو کی طرح، ہے جس کی زباں اردو کی طرح …… میری شام رات میری کائنات …… وہ پیار میرا سیاں سیاں …… تعویز بنا کے پہنوں اسے …… آیت کی طرح مل جائے کہیں
اس شاعر نے اردو سے محبت کی ہے، وطن کی خوشبو، اخوت کا پیغام ان کی نظموں اور فلموں میں بھی ہر دم نظر آتا ہے، یہ کیسا عشق ہے’اردو زبان کا‘ اردو سے اپنے والہانہ عشق کی ترجمانی کرتی اپنی اس نظم کو گلزار نے اپنے شائقین اور مدا حوں کے اصرار پر لٹریری فیسٹیول میں سنایا ہے۔ چند سال قبل بنگلور میں ٹائمز لٹریری فیسٹیول میں میری فرمائش پر گلزار صاحب نے تالیوں کی گونج کے درمیان سامعین کے روبرو یہ نظم پیش کی تھی۔ یہ کیسا عشق ہے اردو زبان کا / مزہ گھلتا ہے لفظوں کا زباں پر / کہ جیسے پان میں مہنگا قوام گھلتاہے / بڑی ارسیٹو کریسی ہے زبان میں / فقیری میں نوابی کا مزہ دیتی ہے اردو / کہیں کچھ دور سے کانوں میں پڑتی ہے اگر اردو / تو لگتا ہے کہ دن جاڑوں کے ہیں، کھڑکی کھلی ہے / دھوپ اندر آرہی ہے / عجب ہے یہ زباں اردو / کبھی کہیں سفر کرتے اگر کوئی مسافر شعر پڑھ دے میر ؔ، غالبؔ کا / وہ چاہے اجنبی ہو، یہی لگتا ہے کہ وہ میرے وطن کا ہے / بڑے شائستہ لہجے میں کسی سے اردو سن کر / کیا نہیں لگتا کہ ایک تہذیب کی آواز ہے، اردو ……اس مقبول عام نظم کے علاوہ موجودہ مادیت سے شرابور دور میں Print word اور کتابوں کی افادیت پر آپ کی نظم ……کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشے سے / بڑی حسرت سے تکتی ہیں …… یہ بھی کتابوں کے شیدائیوں کے دل کی آواز معلوم ہوتی ہے۔
بمل رائے کی فلم ’بندنی‘ کے لیے گلزار کا پہلا گیت …… مورا گورا رنگ لئی لے، سے لے کر اپنی بیٹی میگھنا گلزار کی حالیہ فلم ”سیام بہادر“ کے گیت،؎ اتنی سی بات ان کہی کیوں بیان ہوگئی۔ اور سرحد پہ چلیں، سرحد پہ ہمیں آواز لگانی ہے، تک گیتوں کا سفر جاری ہے۔ ہر گیت میں الفاظ کا انوکھا اور جداگانہ استعمال کرکے گلزار نے احساس کی آمیزش کو جاودانی عطا کی ہے۔ اپنی پہلی فلم”میرے اپنے“ سے ”ہو تو تو“ اور درمیان میں ’آندھی‘، اور’ماچس‘ میں گلزار نے دوغلی اور مفاد پرست سیاست کو بھی آئینہ دکھایا ہے۔ ایک باشعور وطن پرست کی حیثیت سے اس فنکار نے زندگی کے ہر پہلو کو آشکار کرنے کی ممکنہ کامیاب کوشش کی ہے۔ گلزار صاحب کی شاعری اور ان کی فلموں میں حقیقت بیانی نے مجھے بے حد متاثر کیا ہے۔ آپ سے میری ملاقاتیں یادگار ہیں ہی اس کے علاوہ میری اپنی فرمائش پر انھوں نے ’امن کی آشا‘پروجیکٹ کے لیے لکھی ان کی دو نظمیں اپنے قلم سے تحریر کرکے مجھے بھجوائی تھیں۔ آنکھوں کو ویزا نہیں لگتا/سپنوں کی سرحد ہوتی نہیں اور دکھائی دیتے ہیں دور تک اب بھی سائے کوئی/مگر بلانے سے وقت لوٹ نہ آئے کوئی۔یہ سوغات محفوظ ہے میرے پاس۔ گلزار صاحب کو گیان پیٹھ ایوارڈ عنایت ہونے پر ہم سب شاداں ہیں۔
٭٭٭٭٭

About Gawah News Desk

Check Also

..چیالنجر انٹرنیشنل اسکول معین آباد کے طلبہ اورطالبات نے

چیالنجر انٹرنیشنل اسکول معین آباد کے طلبہ اورطالبات نے اس عزم کا اظہار کیا کہ …

اردو یونیورسٹی میں جزوقتی پی ایچ ڈی میں داخلے

مولانا آزاد نیشنل اْردو یونیورسٹی، میں جزوقتی (پارٹ ٹائم) اسپانسرڈ و سیلف فینانسنگ اسکیم کے …

Leave a Reply