’کارپوریٹ میڈیا ایک جائزہ‘ کی ہر بات ایک کہانی کی طرح دل و دماغ میں اترجاتی ہے

مصنف: اشرف بستوی تبصرہ: از ڈاکٹر مجیب اشرف
اشرف بستوی: 9891568632
جناب اشرف بستوی صاحب کی معرکۃ الآرا تصنیف ’کارپوریٹ میڈیا ایک جائزہ‘بے حد دلچسپ اور تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ یہ تین ابواب پر مشتمل ہے۔پہلے باب کے ۳۲ مضامین بستوی صاحب کی بے جھجک اور جرأت مندانہ تنقید کا مسلم ثبوت ہیں۔ دوسرا باب چند مختصر مکالمات پر مبنی ہے جس میں مشہور صحافیوں کا انٹرویو لیا گیا ہے۔ تیسرا باب چند مراسلات پر مشتمل ہے جس میں ملک کے معزز اور موقراردو صحافیوں کو اس مشکل دور میں جرأت مندانہ اور بے باک صحافت کے لیے خراج تحسین پیش کیا ہے۔ مختصراً بستوی صاحب کی زبان شستہ اور سلیس ہے اور انداز بیان اتنا دلچسپ ہے کہ ہر بات ایک کہانی کی طرح دل و دماغ میں اترجاتی ہے۔
یہ کتاب مشہور صحافی ڈاکٹر زین شمسی کی تقریظ بعنوان ’ایک ایلا پا صحافی‘ سے مرصع ہے۔ اُنھوں نے بستوی صاحب کی بے باک صحافت کو سراہاہے اور عموماً صحافیوں کی عدم توجہی کی شکایت بھی کی ہے۔
پہلے ہی مضمون میں بستوی صاحب کی بے باک صحافت کے ضمن میں ابلا غی غربت پر کف افسوس ملتے نظر آتے ہیں۔ دوسرے مضمون میں ماس میڈیا کی جانب دینی طبقے کی لاپروائی کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ قرآن شریف کی سورۃ الحجرات میں ابلاغی میڈیا پر زور دیا گیا ہے مگر افسوس کہ عالم اسلام قرآن شریف کی ہدایات کو بھی نظر انداز کئے ہوئے ہے۔ ”ادارہ ایک اور اداریے مختلف“ عنوان کے تحت اُردو اور اسلامی میڈیا کی سست رفتاری کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ ہندوتو اور کارپوریٹ میڈیا کے عنوان کے تحت قومی میڈیا کی یکطرفہ اور جانبدارانہ خبروں کی تشہیر پر زبردست چوٹ کی ہے۔ ایک دیگر معروف بعنوان ”انا ہزارے کے بدلتے موقف“کی بستوی صاحب نے سخت نکتہ چینی کی ہے۔
البتہ اس ضمن میں ایک اہم بات کا ذکر کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ اسی تحریک سے سیاست کا ایک مثبت پہلو بھی سامنے کر آیا جب اس تحریک کے ایک سرگرم کارکن کیجریوال نے انا ہزارے کی مرضی کے خلاف ایک نئی سیا سی جماعت کی بنیاد ڈالی اور اس طرح موجودہ قومی جماعتوں کے منفی رویے کو للکارا الیکشن میں ان کی شاندار فتح ہوئی اور اُنھوں نے دلی میں ایک ایماندار طرز حکومت قائم کرکے نمونہ پیش کیا۔ بستوی صاحب نے فرضی خبروں کے عنوان کے تحت قومی اور عالمی میڈیا کو اپنی سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ بقول ان کے آج کا میڈیا مسلم قوم کے خلاف من گھڑت خبریں تشہیر کرتا ہے۔ افسوس کہ مسلم قوم کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ پولیس اور میڈیا کے عنوان کے تحت پولیس نے مسلمانوں کے خلاف ظالمانہ رویہ اختیار کررکھا ہے مگر اس کی کوئی پر زور مذمت بھی نہیں کرتا۔ ”پیڈنیوز“ عنوان کے تحت مضمون میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ میڈیا چند سکوں کے عوض جھوٹی خبروں کی تشہیر کرتا ہے۔ مضامین تو ہم پرستی اور میڈیا، سنسنی خیز میڈیا، آزاد میڈیا کا تنگ ہوتا دائرہ،فحش ویب سائٹ، میڈیا کی انسان دشمنی، جنگی جنون بھڑکا تا میڈیا، میڈیا چکی کے دو پاٹوں کے بیچ پس رہا ہے، یہ تمام مضامین کے عنوانات بذات خودمیڈیا کی بدعنوانیوں اور بے شرمی کی داستان بیان کرتے ہیں۔
در اصل ان تمام مضامین کی شکل میں بستوی صاحب نے قومی اور عالمی میڈیا کے سامنے بڑے تیکھے سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ میڈیا اس دور میں اشتہار اور سر اسر غلط خبروں کا پروپیگنڈہ مشین بن کر رہ گیا ہے۔ بستوی صاحب کو ایک یہ فکر لاحق ہے کہ عالمی میڈیا مسلمانوں کے خلاف ہاتھ دھو کر پیچھے پڑا ہوا ہے۔ لہٰذا وہ قومی اور عالمی میڈیا کو غیر جانبدارانہ رویہ اپنانے کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے عالم اسلام آزاد اور غیر جانبدارانہ ادارے قائم کر کے اس طرح کے پرو پیگنڈوں کا منہ توڑ جواب دے۔
دوسرے باب میں مکالمات کے تحت دیگر مضامین کے علاوہ ایک اہم مضمون میں رویش کمار سے متعلق تذکرہ ہے جس میں رویش کمار کو جس سازش کے تحت این ڈی ٹی وی سے سے علاحدہ کیا گیا ہے‘ بستوی صاحب اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ رویش کمار کا قصور یہ تھا کہ وہ بے لاگ اور غیر جانبدارانہ طریقے سے حکومت کی پالیسوں کی تنقید کرتے تھے۔ میڈیا کی تاریخ میں یہ واقعہ ایک المیہ کی حیثیت سے جانا جائے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ اب اس ملک میں صاف شفاف اور غیر جانبدار صحافیوں کا کوئی اسکوپ ہی نہیں رہ گیا ہے۔ اب تو صرف وہی ضمیر فروش صحافی زندہ رہیں گے جو آمرانہ پالیسیوں کی اندھا دھندتائید کریں اور شر مندہ بھی نہ ہوں۔
تیسرے باب میں مراسلات کے عنوان کے تحت جناب سدھارتھ ور دراجن کو ’دی وائر‘ اردو، معصوم مراد آبادی کو نیوز پورٹل کے آغاز کے موقع پر اور ڈاکٹر زین شمسی کو مسلم دنیا، جاری کرنے پر بستوی صاحب نے دلی مبارکباد دی ہے جس کے وہ حقیقی مستحق ہیں۔ اس کتاب کا گیرائی اور گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد میرا مجموعی تا ثریہ ہے کہ بستوی صاحب نے بڑی محنت اور جستجو سے ایک نادر موضوع پر بے حدد لچسپ اور مفید کتاب لکھی ہے۔ بالخصوص تنقیدی اور اصلاحی طرز تحریر قابل ستائش ہے۔بستوی صاحب میری اور دیگر قارئین کی دلی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ البتہ کافی غورو خوض کے بعد مجھے اس کتاب میں چند خامیاں نظر آئی ہیں جن کامیں اظہار کرنے کی جرأت کر رہا ہوں۔ اگر ناگوار خاطر ہو تو صرف نظر کریں۔
اول کتاب کے مضامین شروع کرنے سے بیشتر ایک مختصر مضمون کارپوریٹ میڈیا کی وضاحت اور جرنلزم کے مختلف ادوار سے گزر کر اس کی رسائی پر روشنی ڈالنا ضروری تھا تاکہ مجھ جیسے قاری کے لیے سونے پہ سہاگے کا کام کرتا اور اس طرح کتاب کی شکل اور بھی زیادہ اُبھر کر آتی۔
ایک دیگر اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ مراسلات کے بعد اچانک کتاب کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ میری رائے میں آخر میں میڈیا بالخصوص اردو میڈیا کی زبوں حالی کے اسباب کا تجزیہ کرنا ضروری تھا۔ ا?خر یہ صورت حال کیوں پیدا ہوئی جبکہ 19 ویں صدی اور 1947ء کے بعد تک اْردو جرنلزم اپنے بام عروج پر تھا۔ ہندستان کے کونے کونے سے روزنامہ اخبار ویکلی اور ماہانہ رسائل جاری ہوتے تھے اور انھیں پڑھنیاور لکھنے کے لیے کثیر تعداد تھی،مگر دور حاضر میں صورت حال بالکل بدل چکی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو اس کے اسباب واضح ہیں۔اول ہندی کو تو سرکاری سر پرستی حاصل ہے مگر اُردو کو نہ صرف ہر طرف سے نکالاجا چکا ہے بلکہ اس کے ساتھ سوتیلا برتاؤ کیا جاتا ہے۔ بڑی حیرت کی بات یہ ہے کہ خالص ہندستان کی زبان ہے جو مادر ہندکے گہوارے میں پلی بڑھی ہے۔ اگر سرزمین ہند، کو گنگ و جمنی تہذیب کی نمائندہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ اپنے تلفظ کی تشہیر کی وجہ سے دنیا بھر میں ہر خاص وعام اس کے دلدادہ ہیں اور کچھ حلقوں میں تو ا?ج بھی اس کا سیکھنا، لازمی سمجھا جاتا ہے۔ اس کی شیر کی خاص وجہ یہ ہے کہ یہ اْردو عربی فارسی اور ہندستان کی علاقائی بولیوں کے خوبصورت الفاظ کو سموئے ہوئے ہے۔ آج بھی عالمی اور قومی پیمانے پر اْردو غزلوں کے مشاعرے منعقد کیے جاتے ہیں جہاں مشہورشاعروں کو بے تحاشہ داد ملتی ہے۔ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ آج کل پرائیویٹ اسکولوں میں جہاں انگلش کا بول بالا ہے۔ ہندی پڑھائی جاتی ہے مگر اْردوسرے سے غائب ہے۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اُردو برائے نام رہ گئی ہے۔ ایسی صورت میں قارئین،مبصراور صحافی کہاں سے پیدا ہوں گے۔ اگر اردو داں کی تعدادبڑھانی ہے تو اْردو کو لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھانا ضروری ہے جو فی الوقت جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ میری رائے میں اس طرح کے موضوع پر مختلف زبانوں میں مضامین اور کتابیں لکھی جانی چاہئیں تاکہ غیر جانبدار میڈیا کو لگام دیا جاسکے۔ بستوی صاحب کی کتاب اتنی مفید ہے کہ اس پر زیادہ سے زیادہ تبصرے کیے جائیں تاکہ ان کے پیغام کو عوام الناس تک پہنچایا جا سکے۔
نوٹ – مبصر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ تاریخ میں استاذ رہے ہیں، کئی اہم کتابوں کے مصنف ہیں.

About Gawah News Desk

Check Also

..چیالنجر انٹرنیشنل اسکول معین آباد کے طلبہ اورطالبات نے

چیالنجر انٹرنیشنل اسکول معین آباد کے طلبہ اورطالبات نے اس عزم کا اظہار کیا کہ …

اردو یونیورسٹی میں جزوقتی پی ایچ ڈی میں داخلے

مولانا آزاد نیشنل اْردو یونیورسٹی، میں جزوقتی (پارٹ ٹائم) اسپانسرڈ و سیلف فینانسنگ اسکیم کے …

Leave a Reply