بہارِ عرب کے بعد اب‘ بہارِ ہند کی ضرورت!

سچ تو مگر کہنے دوڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

بہارِ عرب یا عرب اسپرنگ کا ہم نے چند برس پہلے مشاہدہ کیا۔ ارباب اقتدار کے خلاف عام آدمی کی ناراضگی‘ پہلے بغاوت اور پھر انقلاب تبدیل ہوگئی تھی۔ تیونس، یمن، لیبیا، مراقش، شام میں جہاں بادشاہت یا مطلق العنانیت کی روایت رہی ہے وہاں جمہوریت کی بحالی کے لئے عوامی سطح پر جو بغاوت ہوئی اس نے کئی تختے الٹ دیئے۔ بعض حکمران فرار ہوگئے‘ بعض عوام کے ہاتھوں مارے گئے۔
ہندوستان کے موجودہ حالات میں آثار بتارہے ہیں کہ عوامی انقلاب کی آمد آمد ہے۔ ہندوستان تو دنیا کی عظیم ترین جمہوریت ہے مگر گزشتہ دس برس کے دوران جمہوریت کے نام پر آمریت، سیکورلزم کی عاڑ میں فرقہ پرستی، اچھے دنوں کی آس میں تباہی و بربادی کے دور میں داخل ہوئے۔ اکثریتی طبقے کو ہندو راشٹریہ اور مائناریٹی فری ملک کا نعرہ دے کر خود ارباب اقتدار نے سونے کی چڑیا، امن کا گہوارہ سمجھے جانے والے ہندوستان کو ہندو۔استھان بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے راجستھان میں حالیہ بیان یا تقریر پر ہنگامہ ہورہا ہے۔ ہزاروں ہندوستانیوں نے الیکشن کمیشن آف انڈیا سے وزیر اعظم کی ہیٹ اسپیچ پر کاروائی کرتے ہوئے انہیں الیکشن میں حصہ لینے کے لئے نااہل قرار دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے مکتوبات روانہ کی ہے۔ الیکشن کمیشن نے تیقن دیا ہے کہ وہ مسٹر مودی کی تقریر کی جانچ کررہا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مسٹر مودی کے خلاف کسی قسم کی کاروائی خارج از امکان ہے کیوں کہ ہر اہم ادارے کے سربراہ مسٹر مودی کے وفادار سمجھے جاتے ہے۔
کانگریس پر تنقید کرتے ہوئے مسٹر مودی نے مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ اور یہ پہلی بار نہیں ہے‘ مسلم دشمنی نے ہی مودی کو چیف منسٹر سے وزیر اعظم کی کرسی تک پہنچایا۔ یہی سمجھا جارہا تھا کہ اس باوقار کرسی پر بیٹھنے اور دنیا کے عظیم جمہوری ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت سے وہ ایک مثال قائم کریں گے۔ انہوں نے مثال قائم کی مگر مسلم دشمنی کی۔ آج ان کی نفرت انگیز تقریر کے خلاف ہر سیاسی جماعت احتجاج کررہی ہے۔ خود بی جے پی سے وابستہ نام نہاد مسلم قائدین کا سویا ہوا ضمیر بھی جاگنے لگا ہے اور وہ بھی یا تو پارٹی سے مستعفی ہورہے ہیں یا انہیں صدائے احتجاج بلند کرنے پر پارٹی سے نکالا جارہا ہے۔ بی جے پی مائناریٹی مورچہ کے لیڈر عثمان غنی کو جنہوں نے مسٹر مودی کی مسلم مخالف تقریر کے خلاف ایک ٹی وی انٹرویو میں اظہارِ خیال کیا تھا‘ انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا۔ عثمان غنی نے کہا کہ ان کی پارٹی راجستھان میں 25 میں سے چند نشستیں ہار رہی ہے جس کی وجہ سے مسٹر مودی اس قسم کے تقاریر کررہے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بی جے پی نے پہلے ہی اپنی پارٹی میں شامل نام کے مسلم قائدین کو بہت ہی سلیقہ اور منصوبہ بند طریقہ سے گوشہ نشین کردیا ہے۔ کسی دور میں مختار عباس نقوی بی جے پی کا مسلم چہرہ تھے جو ایک عرصہ سے گمنامی میں ہیں۔ شاہ نواز حسین کو بی جے پی لہر کے باوجود مسلم اکثریتی حلقہ سے خود پارٹی نے ہرادیا۔ محبوب علی قیصر جو این ڈی اے میں واحد مسلم لیڈر تھے‘ انہوں نے بھی پارٹی چھوڑ دی۔ اور آر جے ڈی میں شمولیت اختیار کرلی۔ ویسے بھی غیرت مند مسلمان ہمیشہ سے بی جے پی سے دور رہے۔ جو اس پارٹی سے وابستہ رہے‘ ان کی اپنی کچھ مجبوریاں تھیں۔ اور اب بھی بہت سارے سیاستدان تو کسی نہ کسی اسکام میں ملوث ہیں جنہیں مقدمات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ انہوں نے دوسری پارٹیاں چھوڑ کر بی جے پی میں پناہ لی ہے۔
کانگریس کے صدر ملک ارجن کھرگے نے ایک کنڑا اخبار کو دیئے گئے انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ ملک بھر میں 444 ارکان اسمبلی کو ڈرا دھمکا کر بی جے پی شامل ہونے کے لئے مجبور کیا گیا ہے۔ وہ قائدین جن سے مودی کی قیادت کو خطرہ ہوسکتا ہے انہیں پہلے تو انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ED)، سی بی آئی، انکم ٹیکس کے دھاؤں کے ذریعہ ڈرایا گیا، دھمکایا گیا جب اس میں ناکامی ہوئی تو جیل میں ڈالا گیا تاکہ الیکشن میں یہ قائدین اثرانداز نہ ہوسکے۔ یہ اور بات ہے کہ ان قائدین کے ساتھ عوامی ہمدردی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ کیوں کہ دو میعاد کی تکمیل اور دس برس کے دوران ہر محاذ پر ناکامی نے عوام میں شعور پیدا کردیا ہے۔
بی جے پی دو نشستوں سے آج قطعی اکثریت کا موقف حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ محض مسلم دشمنی کی بنیاد پر۔ بی جے پی حکومت نے ہر وہ کام کیا جو مسلمانوں کے لئے نقصاندہ ثابت ہوسکے۔ ان کے مذہبی تشخص کو مٹانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا۔ شرعی قوانین میں دخل اندازی کی جاتی رہی۔ اکثریتی طبقہ کو ہندو راشٹر کا خواب دکھایا جاتا رہا۔ یہ تمام منصوبے مکمل ہوگئے۔ اور جب بھی کوئی منصوبہ مکمل ہوجاتا ہے تو اس کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔
الیکشن 2024ء میں کچھ ایسا ہی نظر آتا ہے۔ رام مندر تعمیر تو ہوگئی مگر اب اکثریتی طبقہ میں اس کا سحر پہلے جیسا باقی نہیں رہا۔ یہ ہم نہیں کہتے بلکہ شتروگھن سنہا جیسے قائدین کہتے ہیں جو کبھی بی جے پی میں شامل تھے۔ رام مندر کا سحر جیسے جیسے کم ہوتا جارہا ہے ویسے ویسے ہندوستانی عوام بالخصوص نوجوانوں کو مودی حکومت کے وہ جملے، وعدے یاد آنے لگے ہیں جو 2014 اور پھر 2019ء کے الیکشن سے پہلے کئے تھے۔ اچھے دن ہندوستانی عوام کے نہیں آسکتے۔ چند مٹھی بھر گجراتی صنعت کاروں کے لئے اچھے دن آئے‘ جنہوں نے دونوں ہاتھوں سے ہندوستان کی دولت کو لوٹا اور سمیٹا۔ ان میں سے بعض نے ہر روز ایک لاکھ کروڑ روپئے کمائے۔ کووڈ جیسے بحران میں تک مٹھی بھر عناصر نے لاکھوں کروڑ روپئے کمالئے۔ 70برس کے دوران پیشرو حکومتوں نے جو قومی اثاثے بنائے تھے وہ دس سال میں مودی حکومت نے فروخت کردیئے۔ کانگریس کے شکایت نامے کے مطابق 60لاکھ کروڑ کے اثاثے مودی حکومت نے 6لاکھ کروڑ میں فروخت کردیئے یا 50برس کی لیز پر دے دیئے۔ مودی نے کہا تھا کہ ”نہ کھاؤں گا نہ کھانے دوں گا“ ہوا اس کے برعکس۔ دھوکے باز لاکھوں کروڑ روپئے بینکوں کا قرض باقی رکھ کر ملک سے فرار ہوگئے۔اور خودمودی حکومت نے لاکھوں کروڑ کا قرض معاف بھی کردیا۔ جبکہ غریب کسان قرض کی ادائیگی میں ناکامی اور بینک عہدیداروں کی ہراسانی کی وجہ سے خودکشی کے لئے مجبور ہوتے رہے۔ نیرومودی، وجئے مالیہ جیسے لوگ آج بھی آزادی کے ساتھ بیرونی ممالک میں عیش و عشرت کی زندگی گزاررہے ہیں۔ سوشیل میڈیا پر ان کی تصاویر اس انداز میں پیش کی جارہی ہیں گویا یہ لوگ پائی پائی کے لئے محتاج ہیں۔
ان دنوں ایک ویڈیو کلپ سوشیل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے جس میں مودی حکومت سے سوال کیا جارہا ہے کہ ملک کا خزانہ انہوں نے کہاں لٹادیا؟ 265ٹن سونا گروی رکھ دیا تھا وہ رقم کہاں گئی۔ جو ہندوستانی کمپنیاں فروخت کردی گئیں اس کی رقم کہا ں ہے؟ پٹرول کی قیمت میں اضافہ کرکے 20کروڑ کا جو منافع حاصل کیا گیا وہ کہاں ہے؟ ورلڈ بینک سے لیا گیا ایک ارب ڈالرس اور ایشیا بینک سے 15ارب ڈالرس کا لون لیا گیا‘ کہاں گیا؟ سرکاری ملازمین کے الاؤنسس ختم کرکے 75ہزار کروڑ کی رقم بچائی گئی‘ کرونا امداد کے نام پر ایک دن کی تنخواہ لے لی گئی، ارکان مقننہ کے 30فیصد الاؤنسس کم کردیئے گئے۔ جی ایس ٹی سے حاصل کی گئی لاکھوں کروڑ کی رقم پرائم منسٹر کیئر فنڈ کی رقم کہاں چلی گئی؟ الیکٹورل بانڈ کا اسکام ا س صدی کا سب سے بڑا اسکام ہے جس میں خود حکمران جماعت ملوث ہے‘ سپریم کورٹ کے انقلابی فیصلے نے اس اسکام کو بے نقاب کیا اور پہلی بار ہندوستانی عوام کو یہ سمجھ میں آیا کہ حکمران جماعت میں کوئی دودھ کا دھلا نہیں ہے۔ جو دولت کسی بھی جماعت کے پاس ہو اس کا غلط استعمال کیا جارہا ہے وہ ملک کے کروڑوں عوام کے ساتھ دھوکہ ہے۔اور یہ دھوکہ گزشتہ دس برس کے دوران حکمران جماعت اور ان کے سربراہ دے رہے ہیں۔ ملک میں 62فیصد تعلیم یافتہ نوجوان ہیں‘ بے روزگار ہیں۔ ہر سال دو کروڑ نوکریوں کا وعدہ ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کم از کم بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں بہت ہی خراب ہے۔ ان ریاستوں میں مسلم دشمنی، ماب لنچنگ، بلڈوزر پالیسی سے کام لیا جارہا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ بلڈوزر کون قومی ہیروز کے گھروں پر بھی چلائے گئے جنہوں نے اپنی جان پر کھیل کر دوسروں کی جان بچائی چاہے وہ جاوید حسن ہوجس نے جھارکھنڈمائنس میں پھنسے ہوئے مزدوروں کی جان بچائی اس کا گھر تک گرادیا گیا۔
مودی اور یوگی کے دور میں مسلمانو ں کے علاوہ دوسرے طبقات کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا ہے‘ چاہے وہ بلڈوزر کے ذریعہ مکانات یا دوسری جائیدادوں کو نقصانات پہنچانے کا معاملہ ہو یا ابھرتے قائدین کو بلاقصور برسوں سے جیلوں میں سڑانے کا معاملہ ہو۔ آج نہیں تو کل اس کا حساب کتاب ہوگا اور کل اگر اقتدار ان کے پاس نہ رہے تو پھر قانون کے شکنجے میں وہ بھی آجائیں گے۔
وزیر اعظم مودی نے ایک بڑے ملک کے ایک طاقتور حکمران کی حیثیت سے اگرچہ کہ دنیا میں اپنی پہچان بنائی ہے‘ تاہم اس پہچان کے دورخ ہیں دوسرا رخ ایک ملک کے وزیر اعظم کے شایان شان نہیں ہے۔ ان کی نفرت انگیز تقاریر اور پالیسیوں پر بیرونی ممالک میں بھی احتجاج کیا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ 2002 کے گجرات فسادات کے بعد امریکہ اور برطانیہ میں ان کے داخلے پر پابندی اور ویزا جاری نہ کرنے کے لئے باقاعدہ تحریک چلائی گئی تھی۔ آج کے حالات 22سالہ تاریخ کو دہرا رہے ہیں۔22برسوں میں مودی گجرات کے چیف منسٹر سے ملک کے وزیر اعظم بن گئے مگر ان کی رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ان کا لباس،وضع قطع، رہن سہن، سب کچھ بدل گیا مگر مسلمانوں کے لئے نفرت برقرار ہے۔فروری 2022ء کے فسادات کے لئے بھلے ہی انہیں کلین چٹ ملی ہو‘ دنیا جانے نہ جانے خود مسٹر مودی حقائق سے واقف ہیں۔ حالیہ عرصہ کے دوران انہوں نے دہشت گردی اور پتھراؤ وغیرہ کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ آتنک پھیلانے والے کون ہیں ان کے لباس سے معلوم ہوجاتا ہے۔ یہ اشارہ مسلمانوں کی جانب تھا حالانکہ بعد میں پتہ چل گیا تھا کہ مسلمانوں کا لباس پہن کر اشرار نے سنگباری کی تھی اب بھی مسلمانوں کا بھیس بدل کر دوسرے مذاہب کی شرپسند عورتیں برقعہ پہن کر ایسی حرکات کرتی ہیں جس سے مسلمان بدنام ہوتے ہیں۔ بہرحال ہر برائی کا انجام برا ہی ہوتا ہے! اوروہ وقت قریب ہے‘ تبدیلی کا، نئے انقلاب کا، خزاں سے بہار تک‘

About Gawah News Desk

Check Also

عدلیہ‘ فوج‘ تعلیم اور میڈیا،بی جے پی کا سایہ

کولکتہ ہائی کورٹ کے جج ابھیجیت گنگوپادھیائے گنگولی نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دیا اور …

66سالہ مجلس کے اگلے 34برس

سچ تو مگر کہنے دوڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز مجلس اتحاد المسلمین اپنے احیاء کے …

Leave a Reply