کسانوں پر ظلم کیوں؟

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
مرکزی حکومت نے ایک طرف سابق وزیر اعظم چودھری چرن سنگھ اور زرعی سائنسدان ایم ایس سوامی ناتھن کو بھارت رتن سے نواز کر کسانوں کو پیغام دیا کہ وہ ان کے مسائل کو لے کر حساس یے۔ مگر دوسری طرف آزاد بھارت میں پہلی مرتبہ کسانوں پر ڈرون کے ذریعہ آنسو گیس کے گولے داغے گئے۔ جن میں دو کسانوں، دو پولس اہلکاروں کی موت ہو گئی۔ ان حملوں کو کسانوں پر فضائی حملہ کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔ کھنورری بارڈر پر فائرنگ میں دو کسانوں کی موت اور بیس سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ روس، یوکرین جنگ اور غزہ پر اسرائیل کے ڈرون حملوں کو بین الاقوامی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ درحقیقت کسانوں پر ڈرون کے ذریعہ آنسو گیس کے حملوں کو انسانی جرم کے طور پر دیکھا جائے گا۔ جبکہ یہ کسان ہی ہیں جنہوں نے اناج اگا کر عوام کی ضرورت کو پورا بلکہ ملک کو خود کفیل بنا کر دوسرے ممالک کو برآمد کرنے کے لائق بنایا۔
افسوس اس بات کا ہے کہ جہاں ایک طرف کسان چندی گڑھ میں حکومت سے پرامن مذاکرات کر رہے تھے وہیں دوسری طرف پولس نے مختلف مقامات پر شاہراہوں کو بند کر دیا تھا۔ کسانوں کو دہلی پہنچنے سے روکنے کے لئے کنکریٹ کے بڑے بڑے پتھر رکھے گئے۔ بیریکیڈز اور کانٹوں کی دیواریں بنائی گئیں، سڑکوں میں کیلیں لگائی گئیں اور گہرے گڈھے کھودے گئے۔ لاٹھی چارج، گولیاں برسانے اور ڈرون حملے نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ کیا ہمارے ملک میں کوئی پولس یا نیم فوجی دستہ کسانوں پر فضائی حملہ کر سکتا ہے؟ کیا نگرانی کے علاوہ کسی بھی قسم کے حملے کے لئے ڈرون کا استعمال جنگ کے زمرے میں نہیں آتا؟ ڈرون کس قانون کے تحت حملوں کے لئے استعمال کیا گیا؟ کیا آنے والے دنوں میں ہر عوامی تحریک، حکومت مخالف احتجاج کو ڈرون حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا؟ کیا کسی بھی فلاحی و جمہوری حکومت کے لئے یہ مناسب یے۔
وزیر اعظم نریندر مودی تو زراعت کے شعبے میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے لئے ڈرون کا استعمال کر رہے تھے، لیکن اب تو ڈرون کا استعمال کسانوں کو کچلنے اور ان کامنھ بند کرنے کے لئے ہو رہا ہے۔
احتجاج کرنے والے کسان حکومت سے فصل کی کم از کم قیمت (ایم ایس پی) مقرر کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں یعنی کم از کم قیمت پر فصل کی خرید کا قان بنانے کا۔ کسان ایم ایس پی پر سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات کو لاگو کرنے کی مانگ کر رہے ہیں۔ جو بالکل فطری ہے، جب حکومت ایم ایس سوامی ناتھن کو بھارت رتن دے رہی ہے تو پھر ان کی سب سے اہم شفارش ایم ایس پی کو کیوں نہیں مانتی؟ 1980 میں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے کسانوں کے احتجاج کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم کسانوں کی مناسب مانگوں کی حمایت کرتے ہیں۔ اگر حکومت کسانوں کو دبانے کی کوشش کرے گی، قانون کا غلط استعمال کرے گی تو کسانوں کی لڑائی کودنے میں ہم ہچکچائیں گے نہیں۔ ہم کندھے سے کندھا ملا کر ان کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔
وزیر اعظم نریندر مودی جب گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے نے ایک ورکنگ گروپ کے چیئرمین کی حیثیت سے 2011 میں اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کو ایک رپورٹ پیش کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ ‘کسانوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے، ہمیں قانونی دفعات کے ذریعے یہ یقینی بنانا ہوگا کہ کسان اور تاجروں کے درمیان کوئی بھی لین دین ایم ایس پی سے نیچے نہیں ہونا چاہئے۔ 2014 کے لوک سبھا کی انتخابی مہم کے دوران کئی تقاریر اور انتخابی ریلیوں میں مودی جی نے وعدہ کیا تھا کہ تمام فصلیں ایم ایس پی پر خریدی جائیں گی، جس میں سوامی ناتھن کمیٹی کے فارمولے کے مطابق تمام اخراجات اور 50 فیصد مارجن شامل ہوں گے۔ سوا دو سال قبل زرعی قوانین واپس لینے کے ساتھ کسانوں سے تین ماہ میں ایم ایس پی لاگو کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔لیکن آج تک نہ تو ایم ایس پی کا وعدہ پورا کیا گیا اور نہ ہی C-2+50 فیصد کے سوامی ناتھن فارمولے کو نافذ کیا گیا۔ 13 فروری کو راہل گاندھی نے کہا کہ اگر ملک میں کانگریس اتحاد کی حکومت بنتی ہے تو ہم فصلوں پر سوامی ناتھن کمیشن کے مطابق کسانوں کو ایم ایس پی کی قانونی ضمانت دی جائے گی۔ اور سوامی ناتھن کی رپورٹ نافذ ہوگی۔
راہل گاندھی کے اس اعلان کے بعد بی جے پی کسانوں کے مسائل پر زیادہ پھنسی نظر آ رہی ہے۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے نریندر مودی سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات کے مطابق ایم ایس پی کی حمایت کر رہے تھے، لیکن جب وہ اقتدار میں آئے تو انہوں نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ دیتے ہوئے کہا کہ سوامی ناتھن کمیٹی کے مطابق C-2 + 50 فیصد کے فارمولے پر ایم ایس پی دینا ممکن نہیں ہے۔ اس معاملے کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے یہ سمجھیں کہ سوامی ناتھن کمیشن نے کس قسم کے ایم ایس پی کی حمایت کی ہے؟
حکومت ہند کی وزارت زراعت کے تحت زرعی لاگت اور قیمتوں کا کمیشن یعنی سی اے سی پی ہی ایم ایس پی کا فیصلہ کرتا ہے۔ ایم ایس پی کا مطلب ہے کم از کم سپورٹ پرائس یعنی ایم ایس پی کسانوں کو دی گئی ضمانت کی طرح ہے، جس میں یہ طے ہوتا ہے کہ کسانوں کی فصل کس قیمت پر مارکیٹ میں فروخت کی جائے گی۔ دراصل فصل کی قیمت کا فیصلہ فصل کی بوائی کے دوران ہی ہوتا ہے۔ ایم ایس پی طے ہونے کے بعد، بازاروں میں فصلوں کی قیمت گرنے کے بعد بھی، حکومت کسانوں سے مقررہ قیمت پر فصل خریدتی ہے۔ آسان الفاظ میں، ایم ایس پی کا مقصد فصلوں کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے درمیان کسانوں کو نقصان سے بچانا ہے
وزارت زراعت خریف اور ربیع کے موسموں سمیت دیگر موسموں کی فصلوں کے ساتھ تجارتی فصلوں پر بھی ایم ایس پی کا اطلاق کرتی ہے۔ مرکزی حکومت نے کسانوں کی فصلوں کی مناسب قیمت دینے کے مقصد سے 1965 میں زرعی لاگت اور قیمتوں کے لئے کمیشن (سی اے سی پی) تشکیل دیا تھا۔ ایم ایس پی کی شرح پہلی بار 1966-67 میں لاگو کی گئی تھی۔ سی اے سی پی کی جانب سے دی گئی سفارشات کی بنیاد پر، حکومت ہر سال 23 فصلوں کے لئے ایم ایس پی کا اعلان کرتی ہے۔
سوامی ناتھن کمیشن نے کسانوں کو ان کی فصلوں پر C2+50 فیصد کے فارمولے کے مطابق ایم ایس پی لاگو کرنے کی سفارش کی ہے۔ کسان مظاہرین مودی حکومت سے ایم ایس پی پر اسی فارمولے کو لاگو کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سوامی ناتھن کمیشن نے C-2+50 کے فارمولے میں فصل کی لاگت کو تین حصوں میں تقسیم کیا تھا۔ فصل کی لاگت اس کی پیداوار میں خرچ ہونے والے تمام نقدی اخراجات جیسے بیج، کھاد، کیڑے مار ادویات، کھاد، مزدوری، ایندھن اور آبپاشی کے اخراجات بھی شامل ہیں۔ اس میں کسان اور اس کے خاندان کی محنت، مزدوری، لیز پر لی گئی زمین کی قیمت اور سود پر لئے گئے قرض کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے۔
دراصل مرکزی حکومت ایم ایس پی گارنٹی قانون سے صرف نجی شعبے کی کمپنیوں کے دباؤ میں گریز کر رہی ہے۔ جب ایم ایس پی گارنٹی قانون بن جائے گا تو نجی کمپنیاں بھی ایم ایس پی پر خریدنے کے لئے مجبور ہوں گی۔ فی الحال حکومت فصل کا کچھ حصہ ایم ایس پی پر خریدتی ہے لیکن زراعت کا بڑا حصہ نجی کمپنیاں کسان کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر اونے پونے داموں میں خرید کر گوداموں میں بھر لیتی ہیں۔ جو بعد میں منھ مانگی قیمت پر فروخت کرتی ہیں۔ موجودہ مرکزی حکومت سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے اس کسانوں کو ان کا حق دینے سے بچ رہی ہے۔ اسی لئے اس پر غریبوں، مزدوروں اور کسانوں کو پسماندہ کرنے کا الزام لگتا رہا ہے۔ مگر کہا یہ جا رہا ہے کہ اس سے مہنگائی بڑھ جائے گی۔ مرکزی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق، سال 2020 میں ملک کی زرعی پیداوار کی کل قیمت 40 لاکھ کروڑ روپے تھی۔ اس کے ساتھ، 2020 میں ایم ایس پی کے تحت آنے والی فصلوں کی قیمت 10 لاکھ کروڑ روپے تھی۔ اس سال، حکومت نے ایم ایس پی پر 2.5 لاکھ کروڑ روپے خرچ کیے اور 25 فیصد فصلیں ایم ایس پی پر خریدیں۔ اب حکومت یہ دلیل دے رہی ہے کہ اگر تمام ایم ایس پی فصلوں کو خریدنا ہے تو 10 لاکھ کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ ایم ایس پی گارنٹی پر 10 لاکھ کروڑ روپے خرچ کرنے کی بات بالکل غلط ہے۔ فی الحال 24 فصلوں پر ایم ایس پی دیا جا رہا ہے۔
پچھلے سال 5 فصلوں کی مارکیٹ قیمت قدرتی طور پر ایم ایس پی سے زیادہ تھی جب کہ دو فصلوں کی قیمت ایم ایس پی کے برابر تھی۔ اس طرح گزشتہ سال حکومت کو 7 فصلوں کو ایم ایس پی کی شرح پر لانے میں ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کرنا پڑا۔ ایسے میں ایم ایس پی گارنٹی ایکٹ پر 10 لاکھ کروڑ روپے خرچ کرنے کا بہانہ بنیادی طور پر نجی کمپنیوں کو بچانے کی کوشش ہے۔ درحقیقت حکومت کی اب تک کی بنیادی نیت یہی نظر آتی ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کو کسانوں کا استحصال کرنے کا موقع ملتا رہے۔ سوال یہ ہے کہ نجی کمپنیوں کو ایم ایس پی پر خریدنے کا پابند کیوں نہیں ہونا چاہیے؟ اگر حکومت پرائیویٹ کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے الزامات سے بچنا چاہتی ہے تو اسے فوری طور پر ایم ایس پی گارنٹی ایکٹ نافذ کرنا چاہئے۔
جس وقت ہمارے یہاں کسانوں کا احتجاج شروع ہوا اسی وقت دنیا کئی ممالک میں کسان مظاہرہ کر رہے تھے۔ ان میں اسپین، جرمنی، فرانس وغیرہ قابل ذکر ہیں وہاں کی حکومتوں نے نہ کسانوں کا راستہ روکا، نہ ان پر زیاتی کی بلکہ کسانوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کی پریشانیوں کو سنا اور اس کا حل نکالا۔ بھارت کے علاوہ دنیا کے کسی بھی ملک میں زراعت نقصان کا سودا نہیں ہے۔ امریکہ، کنیڈا وغیرہ نے تو کسانوں کو کئی طرح کی سہولیات مہیا کر رکھی ہیں۔ ہم پانچ ٹرلین معیشت اور وشو گرو بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں لیکن جائز حق کا مطالبہ کرنے والے کسانوں پر لاٹھی ڈنڈا، ڈرون حملہ اور گولیاں برسا کر دنیا کو کیا بتانا چاہتے ہیں۔

About Gawah News Desk

Check Also

لوک سبھا عام انتخابات کامنظر نامہ

کرہ ارض کے سب بڑے جمہوری ملک ہندوستان میں آزادی کے بعد سے بہت اہم …

کے ذریعہ ہندوستانی انتخابات میں چین کی مداخلتAI

”مائیکرو سافٹ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا کہ چین ہندوستان میں آئندہ ہونے …

Leave a Reply