Sunday , April 28 2024
enhindiurdu

’طوفان الاقصیٰ‘آپریشن کیسے عملمیں آیا؟

ترتیب: عبدالعزیز
9831439068
حماس کی جانب سے اسرائیل پر حالیہ حملے کے بعد غزہ پر اسرائیلی جنگی جہازوں نے حملہ کیا ہے۔اسرائیل میں فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے ’طوفان الاقصیٰ‘ آپریشن اور اس کے جواب میں غزہ پر اسرائیلی بمباری سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 480 سے بڑھ گئی ہے جبکہ 1900 سے زیادہ افراد ان کارروائیوں میں زخمی ہوئے ہیں۔ان حملوں کے بعد حماس کے رہنما محمد دیف کا کہنا تھا کہ ’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب بہت ہو چکا ہے‘ جبکہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو نے کہا ہے کہ ان کا ملک حالتِ جنگ میں ہے اور حماس کو ان حملوں کی وہ قیمت چکانا پڑے گی جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ ’اسرائیل کو اپنا اور اپنے شہریوں کا تحفظ کرنے کا حق ہے۔‘
اسرائیل کی ایمرجنسی سروسز کا کہنا ہے کہ ہفتہ کو فلسطینی عسکریت پسندوں کی جانب سے اسرائیلی علاقوں میں راکٹ داغے جانے اور زمینی حملوں میں مرنے والے اسرائیلیوں کی تعداد کم از کم 250 ہے جبکہ 900 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
ادھر فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کے جوابی حملوں میں ہفتہ کی شب تک 232 افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے اپنے ہزاروں رضاکاروں کو ڈیوٹی پر طلب کر لیا ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ اب غزہ میں زمینی کارروائی شروع کرے گی۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان گذشتہ مئی کے بعد سے یہ سب سے زیادہ پرتشدد کشیدہ صورتحال قرار دی جا سکتی ہے۔
حماس کا ’طوفان الاقصیٰ‘ کیسے شروع ہوا؟
حماس سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند سنیچر کو علی الصبح موٹرسائیکلوں کے علاوہ پیرا گلائیڈرز اور کشتیوں کا استعمال کرتے ہوئے غزہ کی پٹی کے علاقے سے اسرائیلی حدود میں داخل ہوئے۔ تاحال یہ واضح نہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں مسلح افراد دنیا کے سخت ترین حفاظتی انتظامات والی سرحد عبور کرنے میں کیسے کامیاب رہے۔اس موقع پر اسرائیلی علاقوں پر ہزاروں راکٹ داغے گئے جن میں سے کچھ مقبوضہ بیت المقدس اور تل ابیب میں بھی گرے۔ حماس ٹی وی کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر 5000 کے علاوہ مزید 2000 راکٹ فائر کیے گئے جن کا حماس کے چیف کمانڈر نے اس آپریشن کے آغاز میں اعلان کیا تھا۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق حماس کے جنگجوؤں کے اسرائیل میں داخل ہونے کے بعد ملک کے جنوبی علاقوں میں ان کی اسرائیلی فوجیوں سے مسلح جھڑپیں ہوئیں۔اسرائیلی فوج کے مطابق اس کے جواب 22 مقامات پر حماس کے حملہ آوروں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
غزہ کے قریب واقع اسرائیلی آبادیوں میں مقیم افراد نے اسرائیل کے مختلف نیوز چینلز کو فون پر بتایا کہ عسکریت پسند ان کے قصبوں اور دیہات میں گھس آئے اور وہ اپنے مکانات میں محصور ہو کر رہ گئے۔انٹرنیٹ پر موجود غزہ سے ایک میل کے فاصلے پر واقع سدیروت نامی قصبے کی ایک ویڈیو میں مسلح فلسطینی نوجوانوں کو اسرائیلی فوجیوں سے فائرنگ کا تبادلہ کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
بی بی سی کے نامہ نگار جیرمی بیکر کے مطابق فلسطینی عسکریت پسندوں نے متعدد فوجی چوکیوں پر حملہ کیا۔سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی ویڈیوز میں عسکریت پسندوں کو ایک نامعلوم اڈے کے اندر دکھایا گیا ہے، جس میں مرکاوا ٹینک (اسرائیل کی بری فوج میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا ٹینک) سمیت اسرائیلی گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ غزہ کی کچھ ویڈیوز میں بھی فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج کی گاڑیاں چلاتے دیکھا جا سکتا ہے۔
مصنف اور صحافی گیڈون لیوی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب پہلا راکٹ گرا تو میں پارک میں جاگنگ کر رہا تھا، ااس وقت شور شرابہ دہلا دینے والا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ حملوں کے بعد جب وہ گھر سے باہر نکلے تو ’سڑکیں ویران تھیں۔ ریستوراں، کیفے سب کچھ بند پڑے ہیں اور فضا خوف سے بھری ہوئی ہے۔‘
’دی گارڈین‘ کے مطابق غزہ میں حماس کے فوجی کمانڈر محمد ضیف نے ایک بیان میں مسجد اقصیٰ کو آزاد کرانے کے لیے ایک نئے آپریشن کے آغاز کا اعلان کیا اور کہا کہ اسرائیل کے خلاف حماس کی نئی کوششوں کا ‘یہ صرف پہلا مرحلہ ہے۔‘انھوں نے کہا: ’ہم نے دشمن کو متنبہ کیا کہ وہ مسجد اقصیٰ کے خلاف اپنی جارحیت کو ختم کرے…… بغیر کسی جواب کے دشمن کی جارحیت کا دور اب ختم ہو گیا ہے۔ میں مغربی کنارے اور گرین لائن کے اندر ہر جگہ فلسطینیوں سے بلا روک ٹوک حملہ کرنے کی اپیل کرتا ہوں۔ میں ہر جگہ مسلمانوں سے حملہ کرنے کا مطالبہ کرتا ہوں۔‘
اسرائیلی فوجی اور شہری یرغمال بنا لئے گئے
بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس نے درجنوں اسرائیلی باشندوں کو یرغمال بھی بنا لیا ہے جن میں عام شہری اور فوجی دونوں شامل ہیں۔اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے ایک ترجمان نے جھڑپوں میں کچھ فوجیوں کی ہلاکت اور فوجیوں کے علاوہ شہریوں کو یرغمال بنائے جانے کے تصدیق کی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فوج کے کسی جرنیل کے اغوا کی خبر درست نہیں۔
خود کو عسکریت پسند گروہ القدس بریگیڈ کا ترجمان ظاہر کرنے والے ابو حمزہ کی جانب سے ٹیلی گرام پر جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اْن کے جنگجوؤں نے ’متعدد‘ اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنا لیا ہے۔‘
حماس کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس 53 ’جنگی قیدی‘ ہیں جن میں اسرائیلی فوج کے سینئر افسر بھی شامل ہیں اور ان میں سے بہت سوں کو ان سرنگوں میں رکھا گیا ہے جنھیں ماضی میں اسرائیل نشانہ بناتا رہا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں سے کچھ یرغمالیوں کو غزہ کی پٹی کے قریب کچھ چھوٹے قصبوں میں رکھا گیا ہے جبکہ کچھ لوگوں کو غزہ لے جایا گیا ہے جو کہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے۔اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ دو مقامات پر اسپیشل فورسز یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کارروائی کر رہی ہیں۔
یروشلم میں بی بی سی کے مشرق وسطی کے بیورو کے سربراہ جو فلوٹو کا کہنا ہے ’ہم سمجھتے ہیں کہ حماس نے فوجی اور سویلین دونوں طرح کے درجنوں افراد کو یرغمال بنایا ہے اور یہ بہت سے اسرائیلیوں کے لیے ایک ڈراؤنا منظر نامہ ہے۔‘
فلسطینی عسکریت پسند گروہ ماضی میں یرغمالیوں کو اسرائیل کے زیر قبضہ عسکریت پسندوں کی رہائی کیلئے سودے بازی کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے۔
اسرائیل نے 2011ء میں ایک ہزار سے زائد فلسطینی قیدیوں کو رہا کر کے اپنے فوجی ’گلاد شیلت‘ کی رہائی کو یقینی بنایا تھا ان میں سے تقریبا 200 افراد کو اسرائیل کے اندر حملوں کی منصوبہ بندی یا حملے کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ ’بی سیلیم‘ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جون میں 4499 فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں قید تھے۔ ان میں غزہ کی پٹی سے تعلق رکھنے والے 183 افراد بھی شامل تھے۔
اسرائیل نے کیا جوابی کارروائی کی؟
اسرائیل کی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے حماس کے راکٹ حملوں کے جواب میں غزہ میں حماس کے اہداف پر فضائی حملے کیے ہیں جن میں درجنوں طیارے حصہ لے رہے ہیں۔فوجی حکام کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں حماس کے 17 عسکری کمپاؤنڈز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔اسرائیلی طیاروں نے غزہ شہر کے مرکز میں واقع ایک 11 منزلہ عمارت کو بھی بمباری کر کے تباہ کر دیا ہے۔ اس عمارت میں حماس کے ریڈیو اسٹیشن قائم تھے۔ حماس کا کہنا ہے کہ اس حملے کے بعد اس نے اسرائیلی علاقے پر مزید 150 راکٹ داغے ہیں۔
طبی امداد فراہم کرنے والے عالمی ادارے ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کا کہنا ہے کہ غزہ میں دو ہسپتالوں پر اسرائیلی حملوں میں ایک نرس اور ایک ایمبیولینس ڈرائیور بھی مارا گیا ہے۔
غزہ کی پٹی میں واقع پناہ گزین کیمپ کے رہائشی سعید شعیب نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اسرائیلی فوج ہم پر مسلسل بمباری کر رہی ہے میں آپ سے بات کرتے ہوئے بھی کسی اسرائیلی راکٹ کا نشانہ بن سکتا ہوں‘۔ان کا کہنا تھا ’(ہفتہ کی) صبح ہماری آنکھ غزہ پر داغے گئے راکٹوں کی آواز سے کھلی تھی۔ ہمارے پاس چھپنے کی کوئی جگہ نہیں اور یہاں کوئی بھی مقام محفوظ نہیں سو ہم اپنے مکان میں ہی کھڑکیوں سے دور ہو کر بیٹھے ہیں‘۔
حماس کی کارروائی کے بارے میں سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس زمین کے اصل مالک ہیں۔ ذرا سوچیں کہ اگر اسرائیل نے 1948ء میں آپ کی زمین پر قبضہ کیا ہوا، آپ کے خاندان کو ہلاک کر دیا ہو، خواتین اور بزرگوں کو نشانہ بنایا ہو۔ غزہ 17 برس سے محاصرے میں ہے اور ہزاروں فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ جب مزاحمت کرنے والے جواب دیں گے تو کسی کو بھی کیسا لگے گا‘۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسرائیل کے وزیرِ توانائی کا کہنا ہے کہ ان کا ملک غزہ کو بجلی کی فراہمی بھی معطل کر سکتا ہے۔
اس سے قبل اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے ایک ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم حالتِ جنگ میں ہیں‘ اسرائیل کے وزیر دفاع یواو گیلنٹ نے کہا ہے کہ حماس نے ’ایک سنگین غلطی‘ کی ہے اور یہ کہ ’اسرائیل کی ریاست یہ جنگ جیت جائے گی‘۔
دوسری جانب فلسطینی صدر محمود عباس کا کہنا ہے کہ ان کے عوام کو ’آبادکاروں اور قابض فوجیوں کی دہشت‘ کے خلاف اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔فلسطینی صدر‘ راملہ میں فلسطینی اتھاریتی کے اعلیٰ حکام کے ساتھ ایک ہنگامی اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔
ان کا کہنا تھا ’ہمارے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت‘ ہے۔ انھوں نے فلسطینی عوام کے اس حق پر زور دیا کہ وہ آبادکاروں کی ’دہشت گردی اور قابض افواج‘ کیخلاف اپنا دفاع کریں

About Gawah News Desk

Check Also

Congress To Interact with Muslims and Christians Leaders On Socio-Economic Problems

Party to Release Minority Declaration after Dussehra Hyderabad, October 14: The Congress party will release …

دنیا بھر کے مسلمان جمعہ 13/اکتوبر کو ”یوم طوفان اقصیٰ“ کا اہتمام کریں گے۔ نماز …

Leave a Reply