66سالہ مجلس کے اگلے 34برس

سچ تو مگر کہنے دو
ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

مجلس اتحاد المسلمین اپنے احیاء کے 66برس کی تکمیل کا جشن منارہی ہے۔ بلاشبہ ہندوستان کی قدیم ترین سیاسی جماعتوں میں سے ایک ہے، جس کی تاریخ، مسائل، مصائب، ایثار سے عبارت ہے اگرچہ اس کی مخالف جماعتیں اور افراد کے الزامات اپنی جگہ ہیں۔
مجلس کا جشن تاسیس ایک ایسے وقت منایا جارہا ہے، جب اسکی مخالفت میں شدت پیدا ہوگئی ہے۔ حیدرآبادپارلیمانی نشست اس کے قبضہ سے چھیننے کی آرزو جانے کس کس کی رہی ہے اور جانے کس کس کو ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت یہی چاہتی ہے کہ حیدرآباد پارلیمانی حلقہ پر مجلس کا قبضہ رہے، البتہ بعض یہ ضرور چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا دھکہ ضرور لگے جس سے مجلس کے قائدین اور کارکنوں میں نیا جذبہ، جوش اور ولولہ پیدا ہوسکے۔ وہ دن گئے جب آنکھ بند کرکے متفقہ طور پر یکطرفہ ووٹ ڈالے جاتے تھے۔ اب پہلے تو ووٹ ڈالنے کے معاملہ میں ہماری قوم سب سے زیادہ لاپرواہ بلکہ سست ہے۔ اور پھر سوشیل میڈیا کے دور میں نوجوان نسل کی بڑی تیزی سے ذہن سازی یا برین واشنگ ہورہی ہے۔ اگر فوری طور پر اس نسل کو سنبھالا نہ گیا تو مستقبل میں بہت بڑے نقصان کا اندیشہ ہے۔
حالیہ اسمبلی انتخابات میں دو حلقوں میں مجلس کو بڑے آزمائشی مراحل سے گزرنا پڑا۔ اگر پارلیمانی انتخابات میں یہی حالات رہیں تو مجلسی امیدوار کیلئے مشکلات بڑ ھ سکتی ہیں۔ ابھی چھ لاکھ بوگس ووٹرس کی موجودگی کی اطلاع میڈیا کے ذریعہ عام ہوئی ہیں۔ اگر یہ سچ ثابت ہو اور ان ووٹرس کے نام حذف کردیئے جائیں تو کافی فرق پڑسکتا ہے۔ اس وقت بی جے پی، کانگریس کے علاوہ اور بھی جماعتیں مجلس سے حیدرآباد چھینناچاہتی ہیں۔ مخالف امیدوار کوئی بھی ہو، تمام جماعتیں ایک مشترکہ کاذ کی خاطر اندرونی مفاہمت کرسکتی ہیں۔ امیت شاہ کی آرزو ہے کہ حیدرآباد پر بی جے پی کا قبضہ ہوجائے۔ اس مقصد کیلئے وہ بار بار حیدرآباد کادورہ کررہے ہیں۔ چارمینار کے دامن میں مندر کے درشن بھی کررہے ہیں، بی جے پی پر اس وقت جنون طاری ہے۔ حیدرآباد میں اکثر کامیڈی شو کے دوران ایک مزاحیہ خاکہ پیش کیا جاتا ہے کہ ایک شرابی چارمینار پر چڑھ گیا اور اوپر سے کودنے کی دھمکی دینے لگا۔ پولیس او رلوگوں نے اسے بہت سمجھایا، مگر وہ ایک نہ مانا، اتنے میں ایک دیوانہ وہاں پہنچ جاتا ہے او راپنی جیب سے ریزربلیڈ نکال کر شرابی کو دھمکی دیتا ہیکہ اگر وہ فوری نہ اترا تو چارمینار کو ریزربلیڈ سے کاٹ دے گا۔ شرابی فوری اتر جاتا ہے۔ پولیس شرابی کو کہتی ہے کہ تم نے پولیس کی بات نہیں سنی اور ایک پاگل کی بات پر اتر گئے۔ شرابی کہتا ہے کہ پولیس والے دھمکاتے ہیں، اور وہ پاگل ہے، وہ جو بولتا ہے وہ کردیتا ہے۔
اس وقت بی جے پی کا معاملہ ایسا ہی ہے وہ جو کہہ رہی ہے اس پر عمل کررہی ہے۔ ان کی کن کن باتوں کو یاد دلایا جائے۔ اگر حیدرآباد پر قبضہ کی بات وہ کرتے ہیں تو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس وقت تمام جماعتوں کا ایک ہی نصب العین ہے، حیدرآباد پر قبضہ۔ ہر جماعت کامیاب نہیں ہوسکتی، مگر کئی جماعتیں مل کر ایک جماعت سے یہ حلقہ چھین سکتی ہے۔ اس وقت ارکان اگر کانگریس یا کسی اور جماعت سے وابستہ ہیں بھی تو وہ اندرونی طور پر ایک ہی ہیں۔ گذشتہ دو برس کے دوران بی جے پی نے جو جو کام کئے، جس طرح مسلم دشمنی نبھائی، جس طرح مساجد کو نشانہ بنایا، مسلم سیاسی، مذہبی قائدین کو جیلوں میں ڈالا، آواز اٹھانے پر ان کی جائیدادوں پر بلڈوزر چلاکر انہیں بے گھر، بے روزگار کردیا، جس طرح مسلم نام سے مشہور شہروں کے نام بدلے جارہے ہیں، یکساں سول کوڈ، سی اے اے، کا نفاذ ان سب اقدامات سے صرف مسلمان پریشان اور غیر مسلم مطمئن ہیں۔ویسے تمام مسلمان پریشان اس لئے نہیں ہیں کہ ابھی وہ خواب غفلت میں ہیں۔ جب جاگیں گے تب تک ان کے قدموں کے نیچے سے زمین کھسک چکی ہوگی۔
حیدرآبادہی نہیں تلنگانہ کے مسلمانوں بالخصوص نوجوانوں کو خواب غفلت سے جگانے کی ذمہ داری مجلس کی ہے۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی بلاشبہ نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیا میں ہندوستانی مسلمانوں کے بے باک قائد کے طور پر جانے جاتے ہیں، تاہم انہیں اب وہ رول ادا کرنا ہے جو ان کے دادا مرحوم فخر ملت عبدالواحد اویسی نے پولیس ایکشن کے بعد کے حالات میں کیا تھا۔ لٹے پٹے حاکم سے محکوم بنے مسلمانوں کو جس طرح سے مولوی عبدالواحد اویسی مرحوم اور جناب سید خلیل اللہ حسینی مرحوم نے عزت اور وقار کے ساتھ جینے کا سلیقہ سکھایا تھا، اسد اویسی کو یہی کام کرنا ہے۔
سیکولرزم کے نعرہ کی ضرورت نہیں۔ مسلمانوں کو مسلمان بنانے کی ضرورت ہے۔ سیکولرزم سے بڑا اور کوئی فراڈ نہیں۔ ایک سچا مسلمان تعصب پرست نہیں ہوتا۔ وہ انسانیت کا علمبردار ہوتا ہے۔
انسانیت شرافت کے معنے یہ نہیں کہ آپ ہر ظلم سہتے جائیں۔ ظلم اس لئے ہورہا ہے کہ آپ متحد نہیں ہیں، آپ کادشمن جانتا ہیکہ مسلمانوں کی صفوں میں منافقین زیادہ ہیں، جو اپنے ذاتی مفادات کیلئے اپنے ضمیر، ایمان کا سودا کرنے سے گریزنہیں کرتے۔ مسلمان اتنا بے بس نہیں ہوتا کہ اس کی آنکھوں کے سامنے مسجد کے مینار پر پرچم لہرانے کے لئے غنڈہ عناصر چڑھ جائیں اور مسلمان اس کی ویڈیو گرافی کرکے سوشیل میڈیا پر اپنی مظلومیت، اور ان کی فرقہ پرستی کا رونا روئیں۔ مجلس کے قائدین مسلم نوجوانوں کو اتنا مضبوط بنائیں کہ ان کے سامنے سراٹھاکر چلنے کی کسی میں ہمت نہ ہو۔ آج دوکوڑی کے نام نہاد لیڈر سرعام آپ کو گالی گلوچ کررہے ہیں، او رشان سے دندناتے ہوئے آزادی کے ساتھ گھوم پھررہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آپ کے جانثاروں کا ایسا خوف طاری ہوتاکہ کوئی ایک لفظ بھی خلاف بولنے کی جرأت نہ کرسکے۔ نعرہ بازی، گلپوشی سے کیا حاصل ہوتا۰۰۰ یہ تو انائی یہ پیسہ اپنے آپ کو مضبوط بنانے کیلئے استعمال کیا جائے۔ مجلس کے جو واقعی جان نثار ہیں، وہ قوم و ملت کے جان نثار ہوتے ہوئے پوری قوم کو نیا حوصلہ دیں۔
آر ایس ایس نے ہندوؤں کو متحد کیا جس سے بی جے پی سیاسی طاقت بنی۔ مسلمانوں کی کل ہند سطح پر ایسی کوئی جماعت نہیں۔ حیدرآباد میں تعمیر ملت سے بہت ساری امیدیں وابستہ تھیں، مگر خلیل اللہ حسینی صاحب، رحیم قریشی صاحب اور سلیمان سکندر صاحب کے بعد یہ تنظیم سالانہ جلسہ رحمۃ اللعالمین ﷺ تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ حالانکہ لائق، فائق حضرات اس سے وابستہ ہیں، جن میں قومی و ملی خدمت کا جذبہ موجود ہے مگر وسائل محدود ہیں۔ مجلس اتحادالمسلمین کے سیاسی وسائل بھی ہیں اور مواقع بھی ہیں، وہ نوجوانوں کی صحت جسمانی کو بہتر بنانے، انہیں مارشل آرٹس کا ماہر بنانے کیلئے محلہ واری بنیادوں پر ٹیمیں تشکیل دیں۔ دستور ہند اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے انہیں اتنا مضبوط بنادیں کہ کوئی نظراٹھاکر دیکھنے کی ہمت نہ کرے۔
لڑکیوں او رخواتین کو بھی اتنا قابل بنادیں کہ وہ گھریلو جھگڑوں سے نکل کر اپنی قوم سے جھگڑنے والوں کے دانت کھٹے کرسکیں۔ اس وقت قوم پر خوف طاری ہے، اس خوف کے ماحول سے باہر نکالیں۔ خود بھی اناکے قول سے باہر نکلیں، روٹھے ہوئے لوگوں کو منائیں، کل کے دوست اگر آج دوست نہیں ہیں تو اپنا بھی محاسبہ کریں اور اناکو کچل کر انہیں دوبارہ اپنا دوست بنانے کی کوشش کریں۔
دوسری اقوام کی جماعتیں کس طرح آپسی اختلافات کو مٹاکر متحد ہورہی ہیں، ہم کیوں نہیں ہوسکتے۔
آر ایس ایس نے 1925میں جو منصوبہ بنایا تھا اس کی تکمیل کے لئے انہیں ایک سو برس لگ گئے۔ مجلس 66واں جشن منارہی ہے۔ صدسالہ جشن میں ہم میں سے بہت سارے نہیں ہونگے۔ اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس وقت تک کے حالات کیا ہونگے۔ کم از کم اگلے 34برس کا خاکہ تو تیار کرسکتے ہیں۔ ان 34برسوں میں کم از کم تین نسلیں آئیں گی، ہماری پیش رو نسلوں کو جن آزمائشی حالات سے گزرنا پڑا تھا، خدا نہ کرے کے آنے والی نسلوں کو ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑے۔ اگر اللہ کویہی منظور ہے تو کم از کم ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ان حالات سے نمٹنے کیلئے تو تیار کرسکتے ہیں، اور یہ کام مجلس کرسکتی ہے۔
مجلسی قائدین کی ابھی تک یہ اچھی اور قابل تحسین روایت رہی ہیکہ اپنے سیاسی مفادات کے لئے انہوں نے کبھی اپنے ایمان سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ مجلس سے وابستہ ہر قائد اور کارکن سے بھی ایسی ہی توقعات وابستہ ہیں اگر کوئی اپنے مفادات کیلئے اپنے ضمیر اور ایمان کا سودا کرتا ہے تو اس سے صرف مجلس کا ہی نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کا سرشرم سے جھک جاتا ہے اگر ایسے لوگ مسلم جماعتوں میں شامل ہوجائیں تو پھر ان میں اور ملعون رشدی میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔
پرواز نہ کھوجائے ۰۰۰
وزیر اعظم ہند مودی نے خلائی مشن”گگن یان“کیلئے جہاں ایئرفورس اکیڈیمی کے چار خلابازوں کو منتخب کیا جو جولائی 2024میں 400کلو میٹر کی بلندی پر خلا کیلئے پرواز کریں گے اور تین دن بعد زمین پر واپس ہونگے، اس طرح ہندوستان دنیا کا چوتھا ملک بن جائے گا، جو انسانوں کو خلاء میں روانہ کرے گا۔ مسٹر مودی نے ارادہ ظاہر کیا کہ وہ بھی خلائی مشن کا حصہ ہونگے۔ چند دن پہلے ہی وہ دوارکا میں سمندر کی تہہ میں پوجا کرچکے ہیں۔ دوارکا بحیرہ عرب میں ہے اور ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ جب ان کے بھگوان کرشنا دنیا سے رخصت ہوئے تو دوارکا شہر سمندر میں ڈوب گیا تھا۔ آرکیالوجیکل سروے نے تصدیق کی ہیکہ پندرہ سو برس قبل مسیح کے شہر جو دوارکا ہی ہے، اس کے زیر آب ہونے کے ثبوت موجود ہیں۔
نریندر مودی کے زیر آب پوجا پر کافی تنقید کی جارہی ہیکہ جب سمندر کی تہہ میں پوجا کرنی تھی تو رام مندر کیوں تعمیر کیا۔ خیر وزیر اعظم سمندر کی گہرائی میں اچکے ہیں۔ ہمالیہ کی ٹمپریچر کنٹرولڈ، گھپاؤں میں بھی پوجا کرچکے ہیں اب وہ خلائی مشن کا ارادہ کیے ہوئے ہیں۔ اچھا ہے، موقع ملا تو اسے گنوانا نہیں چاہتے۔ چندرائن۔3کی کامیابی کا کافی چرچا ہوچکا ہے جو سیلپنگ موڈ میں ہے۔
وزیر اعظم زمین کے اوپر اور زمین کے نیچے کے حالات جاننے کے لئے بے تاب ہیں، ان کی جستجو قابلِ ستائش ہے، مگر زمینی حالات پر ان کی نظر کم ہوگئی ہے، دنیا کی نظر زیادہ مرکوز ہوگئی ہے۔ ملک کے جو حالات ہیں، وہ ان کی تیسری میعاد اور بی جے پی کی پارلیمان میں نشستوں میں اضافہ کیلئے تو ٹھیک ہیں مگر خود ملک کی سلامتی کے لئے یہ خطرہ ہیں۔ جس کا تیزی سے مسلمانوں کے خلاف ماحول تیار کیا جارہا ہے، اس کے آگے چل کر سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔ وزیراعظم کو زمینی حقائق سے بھی واقف ہونے کی ضرورت ہے۔ ہوسکتا ہے کہ زمینی حقائق سے نظریں چرانے کیلئے وہ کبھی سمندر تو کبھی خلاء کی بات کررہے ہیں۔ الکٹورل بانڈز سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ، بعض اسکامس کے پردہ فاش ہونے کے بعد توجہ ہٹانے کیلئے یہ پبلسٹی اسٹنٹ ہو۰۰۰


About Gawah News Desk

Check Also

نئی نسل کی تباہی کے ذمہ دار کون؟

ماہِ مقدس رمضان المبارک سے متعلق موضوع پر کچھ لکھنے کا ارادہ تھا، مگر علماء …

عدلیہ‘ فوج‘ تعلیم اور میڈیا،بی جے پی کا سایہ

کولکتہ ہائی کورٹ کے جج ابھیجیت گنگوپادھیائے گنگولی نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دیا اور …

Leave a Reply