عدلیہ‘ فوج‘ تعلیم اور میڈیا،بی جے پی کا سایہ

کولکتہ ہائی کورٹ کے جج ابھیجیت گنگوپادھیائے گنگولی نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دیا اور فوری بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی۔ انہیں مغربی بنگال کے ایک اہم پارلیمانی حلقہ سے مقابلہ کرنے کے لئے ٹکٹ بھی مل جائے گا۔ گنگولی ہمیشہ سے ایک متنازعہ جج رہے ہیں۔ ان پر ترنمول کانگریس حکومت اور قائدین کے خلاف فیصلے دینے کے الزامات ہیں۔ بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد انہوں نے بتایا کہ ٹی ایم سی ارکان کی جانب سے ان کی توہین اور ہتک آمیز ریمارکس سے بدظن ہوکر انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ جج چاہے ہائی کورٹ کے ہوں یا سپریم کورٹ کے۔ ہوسکتا ہے کہ ارباب اقتدار کے وہ کسی نہ کسی طرح سے زیر اثر رہتے ہیں۔ اس کے باوجود ہندوستانیوں کو ہمیشہ سے یہ زعم رہا ہے کہ عدلیہ غیر جانبدارہوتی ہے۔ حالانکہ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا تب سے اکثر و بیشتر فیصلے جانبدارانہ دیکھے ہیں۔ ایک آدھ فیصلہ غیر جانبدار ہوتا ہے‘ اور وہ جانبدارانہ فیصلوں کی پردہ پوشی کرلیتا ہے۔ جیسے گیان واپی مسجد کے فیصلے نے زخم دیئے تو بلقیس بانو مقدمہ کے ملزمین کی دوبارہ گرفتاری کے لئے دیئے گئے فیصلے سے ان زخموں پر مرہم لگانے کی کوشش کی مگر دونوں مقدمات کی نوعیت جداگانہ ہے۔ ایک کا تعلق اگر مسلمانوں کے مذہبی آزادی تشخص اور عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق ہے تو دوسرا معاملہ انسانی اقدار کی فرقہ پرست وحشی درندوں کے ہاتھوں پامالی کا ہے۔
گزشتہ دس برس کے دوران عدالت کے ایسے کئی فیصلے ہوئے ہیں جو ایک نئے بھارت کی تشکیل کے سلسلہ میں اہم مگر خطرناک اقدامات کے حامل ہیں۔ ایک ایسا بھارت جس میں مٹھی بھر اعلیٰ ذات والوں کا راج ہو۔ مساوات کے نام پر جو اپنے مذہب کے ماننے والے اپنے سے کم درجہ انسانوں کا استحصال کرتے ہوئے انہیں ملک کی دوسری بڑی اقلیتوں کے خلاف استعمال کیا جاتا رہے۔ ایک ایسا بھارت جس میں مسلمان اور عیسائیوں سے ان کے مذہبی حقوق چھین لئے جائیں۔ ان کی عبادت گاہوں پر قبضے کئے جائیں اور اس کے لئے عدلیہ سے وابستہ عناصر اہم رول ادا کررہے ہیں۔ اُس کیلئے آر ایس ایس نے بڑی محنت کی۔ ان کا لیگل سیل فعال ہے۔ اس لیگل سیل میں آنے سے بہت پہلے شیشو مندروں اور گروکل سے ہی اس طرح سے نئی نسل کی ذہن سازی کی جاتی رہی کہ یہ بچے جب بڑے ہوکر مختلف شعبہ حیات سے وابستہ ہوتے ہیں‘ تو دوسری اقوام کے لئے نفرت، تعصب ان کی شخصیت کا جز بن جاتا ہے‘ جس کا اثر ہر شعبہ حیات میں نظر آتا ہے۔
یوں تو ہر سیاسی جماعت میں نامور ماہرین قانون موجود ہیں۔ ویسے بھی ماہرین قانون بھی زیادہ تر عملی سیاست سے وابستہ ہوتے ہیں۔ گاندھی، نہرو، سردار پٹیل، امبیڈکر، جناح‘ یہ سبھی قانون کے طالب علم بھی رہے اور ماہرین قانون بھی رہے۔ کانگریس میں ہر دور میں نامور ایڈوکیٹس رہے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں سلمان خورشید، چدمبرم، کپل سبل، ابھیشیک سانگھوی کے نام کسی نہ کسی وجہ سے سرخیوں میں رہے ہیں۔ جبکہ بی جے پی میں رام جیٹھ ملانی، ارون جیٹلی، ہریش سالوے، پنکی آنند، روی شنکر پرشاد جیسے ایڈوکیٹس رہے ہیں۔ آر ایس ایس میں جو بی جے پی کی سرپرست ہے‘ ایمرجنسی کے دوران مختلف شعبوں سے متعلق نمائندہ تنظیمیں قائم کیں۔ ان میں سے ایک ”جونیئر لایرس فورم“ بھی شامل ہے۔ دتوپنتھ تھنگڑی نے 1992ء میں ”اکھل بھارتیہ اودھو ایکتا پریشد“ یا ”آل انڈیا لایرس کونسل“ ABAP قائم کی جو آج ایک طاقتور اور موثر تنظیم ہے۔ جو بی جے پی کی قانونی امور میں رہنمائی کرتی ہے۔ ویسے بھی بی جے پی کا اپنا لیگل اینڈ لیجسلیٹیو سیل ہے
2012ء میں دہلی کے تال کٹورا اسٹیڈیم میں بی جے پی نے ایڈوکیٹس کی میٹنگ طلب کی تھی تب ہزاروں کی تعداد میں ایڈوکیٹس نے شرکت کی تھی جس پر بی جے پی کی اعلیٰ قیادت نے طمانیت کا اظہار کیا تھا۔ بارہ برس کے دوران سپریم کورٹ ہو یا ہائی کورٹ یا ضلعی عدالتیں‘ یہاں بیشتر ایڈوکیٹس کی بی جے پی سے جذباتی وابستگی ہے۔ جب کبھی شمالی ہند یا مہاراشٹرا اور دوسری ریاستوں کی عدالتوں میں دہشت گردی کے فرضی الزامات کے تحت گرفتار کئے گئے نوجوانوں پر مقدمات چلائے جاتے ہیں تو وہاں کی عدالت میں نہ صرف بعض ایڈوکیٹس اِن نوجوانوں کے پیروی کرنے والے وکلاء کی مخالفت میں نعرے بازی کرتے ہیں بلکہ کئی موقعوں پر ان وکلاء پر حملوں کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔ وکلاء برادری کے اتحاد کا اثر ججس کے فیصلے پر بھی ہوتا ہے۔ مودی حکومت کے دور میں تو ایسے کئی فیصلے سنائے گئے جس نے مودی حکومت کو تو مستحکم کیا مگر ہندوستان کی ساکھ کو عالمی برادری میں متاثر کیا۔ کئی ججس نے متنازعہ مقدمات میں قانون اور انصاف، دستور اور جمہوری ا قدار کی پامالی کرتے ہوئے ہندو فریقوں کے حق میں فیصلے دیئے اور اس کے عوض بہت کچھ حاصل کرلئے۔ رنجن گگوئی تو ہندوستانی تاریخ کا بدنصیب سابق چیف جسٹس آف انڈیا ہیں جو رہتی دنیا تک اپنی بددیانتی جانبدارانہ فیصلے کے لئے یاد رکھا جائے گا۔ اسے فوری راجیہ سبھا کا رکن نامزد کردیا گیا جس کی میعاد بہرحال چند برس کی ہے مگر اُسے جو بدنامی کا داغ لگا ہے‘ وہ اس کے مرنے کے بعد بھی اس کی موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے اس کی بددیانتی کو یاد دلاتا رہے گا۔ رنجن گگوئی کا باپ کیسب چندر گگوئی 1982ء میں صرف تین مہینے کے لئے آسام کا چیف منسٹر رہا۔ اگرچہ کہ وہ کانگریس سے تعلق رکھتا تھا‘ تاہم اس کا اپنا ریکارڈ بھی صاف ستھرا نہیں رہا۔ اور یہ کہا جاتا ہے کہ آسام کے بیشتر مسائل اُنہی کی دین ہے۔ رنجن گگوئی نے بابری مسجد کے خلاف فیصلہ سنایا۔ اس سے پہلے سے ہی اس کے ارکان خاندان کو مودی حکومت نے نوازنا شروع کردیا تھا۔ کیوں کہ رنجن کے بھائی ایرمارشل ریٹائرڈ انجن کمار گگوئی کو فل ٹائم نان آفیشیل ممبر آف نارتھ ایسٹرن کونسل مقرر کردیا گیا تھا۔ ایسا ہی معاملہ گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کی اِجازت دینے والے جج اے کے وشویشیا کا ہے جس نے اپنے ریٹائرمنٹ سے ایک دن پہلے یہ فیصلہ دے کر مودی کے انتخابی حلقہ میں واقع اس مسجد کو مندر ثابت کرنے کی راہ ہموار کی اور جیسے ہی وہ ریٹائرڈ ہوا اُسے ڈاکٹر شکنتلا مشرا نیشنل ری ہیبلیٹیشن یونیورسٹی لکھنؤ کا لوک پال مقرر کردیا گیا۔ یہ بی جے پی حکومت سے وفاداری کا فوری انعام تھا
اب کولکتہ ہائی کورٹ کے جج کو اس کے ریٹائرمنٹ کے فوری بعد بی جے پی لوک سبھا کا ٹکٹ دے رہی ہے اور ممکن ہے کہ یہ کامیاب بھی ہوجائیں کیوں کہ اس وقت مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کے حق میں پہلے جیسی لہر نہیں رہی۔ ضلعی عدالتوں سے لے کر عدالت عالیہ تک جس طرح سے مقدمات کی شنوائی ہورہی ہے۔ جس طرح سے ججس کے یکطرفہ فیصلے ہورہے ہیں‘ کسانوں پر کار چڑھادینے والے کئی کسانوں کے ہلاکتوں کے ذمہ دار کو ضمانت مل جاتی ہے اور بغیر مقدمہ چلائے شرجیل امام اور عمرخالد کو چار برسوں سے جیل میں سڑایا جارہا ہے۔ ایوان پارلیمان میں غیر پارلیمانی زبان استعمال کرنے والے آزاد اور ناصر حسین جیسے کانگریسی قائد کو یہ الزام عائد کرتے ہوئے راجیہ سبھا کے ممبر کی حیثیت سے حلف لینے سے روکنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ راجیہ سبھا کے رکن منتخب ہونے کا جشن منانے والوں نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے۔ کون بے وقوف ہوگا جو کانگریس کے قائد کے ساتھ رہ کر پاکستان کے حق میں نعرے لگائے۔ حالانکہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ نعرہ لگانے والا بی جے پی ورکر ہے۔ پہلے تین کانگریسی ارکان کو نعرے بازی کے لئے گرفتار کیا گیا تھا تاہم ریکارڈس کی جانچ پڑتال کے بعد مانڈیا ڈسٹرکٹ یونٹ بی جے پی کے صدر کو گرفتار کیا گیا۔ بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ ایک سال پرانے کیس میں بی جے پی لیڈر کی گرفتاری ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کے حق میں نعرہ جس نے لگایا وہ بی جے پی ہی کا ہے چاہے وہ 27فروری کا واقعہ ہو یا ایک سال پہلے کا۔
بات ہورہی تھی عدلیہ میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے بڑھتے ہوئے اثرات کی‘ اس میں کوئی حیرت اور تعجب کی بات اس لئے نہیں ہے کہ آر ایس ایس نے بہت ہی منظم اور منصوبہ بند طریقہ سے عدلیہ، میڈیا، پولیس حتیٰ کہ فوج میں بھی اپنے اثرات پیدا کرلئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی آئی پی ایس آفیسرس یاتو ریٹائرمنٹ کے بعد یا پھر ملازمت سے استعفیٰ دے کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کرنے لگے ہیں۔ اسی طرح فوج سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد کئی اعلیٰ عہدہ دار بی جے پی میں شامل ہورہے ہیں۔ 2019ء میں پانچ ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرلس اور ایک سابق کرنل اور ایک ریٹائرڈ ونگ کمانڈر نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ ایس کے پٹیال ڈپٹی چیف آف آرمی اسٹاف اور سابق ڈائرکٹر جنرل ملٹری انٹلیجنس، لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ جے بی ایس یادو سابق ڈپٹی چیف آف آرمی اسٹاف، لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ آر این سنگھ سابق ڈائرکٹر جنرل ملٹری انٹلیجنس، لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ سمیت کمار سابق ڈائرکٹر جنرل انفارمیشن سرویسس اینڈ آئی ٹی، لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ نیتن کوہلی سابق ڈائرکٹر جنرل میان پاور پلاننگ اینڈ پرسنل سرویسس، کرنل ریٹائرڈ آر کے ترپاٹھی سابق ڈپٹی جج ایڈوکیٹ کارپس ہیڈ کوارٹرس اور ونگ کمانڈر ریٹائرڈ نونیت ماگن جو ایرفورس کی میڈیکل سرویس میں تھے‘ یہ سب نریندر مودی کی پالیسیوں کی حمایت کرتے ہوئے بی جے پی میں شامل ہوئے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ یہ ریٹائرڈ فوجی عہدیداروں سے بی جے پی یا آر ایس ایس کس کس قسم کی خدمات حاصل کرسکتی ہے۔ سابق فوجی سربراہ جنرل وی کے سنگھ بھی بی جے پی حکومت کے وزیر رہے۔ جنرل بپن راوت جو 8/دسمبر 2021ء کو ایک فضائی حادثہ میں ہلاک ہوگئے‘ ان کا جھکاؤ بھی بی جے پی کی طرف تھا اور وہ یقینی طور پر بی جے پی میں شامل ہوجاتے۔ میڈیا کاحال کسی سے چھپا نہیں ہے۔ نیشنل چیانلس بی جے پی کے ترجمان بن گئے ہیں اور یہی حال شعبہئ تعلیم کا ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی میں تاریخ کو مسخ کرنے اور ایک نئی تاریخ پیش کرنے کا آغاز ہے۔ اقلیتوں سے متعلق یونیورسٹیز میں ایسے وائس چانسلرس کا تقرر عمل میں لایا جارہاہے جو آر ایس ایس کے نظریات کی حامل ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے لے کر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں جس طرح سے ماحول پیدا کیا جارہا ہے وہ خطرناک اور افسوسناک ہے۔ ایک مردہ قوم افسوس کے اظہار، مراسلہ نگاری اور مذمتی بیانات کے علاوہ اور کربھی کیا کرسکتی ہے۔

About Gawah News Desk

Check Also

نئی نسل کی تباہی کے ذمہ دار کون؟

ماہِ مقدس رمضان المبارک سے متعلق موضوع پر کچھ لکھنے کا ارادہ تھا، مگر علماء …

66سالہ مجلس کے اگلے 34برس

سچ تو مگر کہنے دوڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز مجلس اتحاد المسلمین اپنے احیاء کے …

Leave a Reply