حماس کے حملے سے اسرائیل، امریکہ اور سوشل میڈیا بے نقاب

اسد مرزا، دہلی
”اسرائیل پر حماس کے حالیہ حملے نے تین چیزوں کو مکمل طور پر بے نقاب کردیا ہے، اولاً امریکی سفارتی پالیسی کی ناکامی، دوم اسرائیل کا دفاعی طور پر ناقابلِ تسخیر ہونا اور سوم میڈیا- پرنٹ، ٹی وی اور سوشل میڈیا کے تحت چلائی جانے والی مختلف جھوٹی مہمات۔“
پچاس سال اور ایک دن پہلے یعنی کہ 6 اکتوبر 1973 کو، مصر نے اسرائیل کے زیر قبضہ سینائی صحرا میں اسرائیلی افواج پر حملہ کیا تھا، جس کے ساتھ ہی مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں میں شامی حملہ بھی کیا گیا، اس حملے کو بعد میں ’یوم کپّور جنگ‘(یہودیوں کے دو مذہبی تہواروں میں سے ایک) کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس جنگ اور اس کے سفارتی نتائج دونوں نے مشرق وسطیٰ میں امریکی کردار کی کچھ ایسی خصوصیات کی نشان دہی کی جو کہ خطے کے لیے اس کے نظریہ میں آج بھی نظر آتی ہیں۔
صدر رچرڈ نکسن اور سکریٹری آف اسٹیٹ ہنری کسنجر نے عرب -اسرائیل تنازعہ کو سرد جنگ کے چشمے سے دیکھا۔سرد جنگ کے بنیادی معیارات کے مطابق، ’یوم کپور جنگ‘ کے ارد گرد کا بحران امریکی اور اسرائیلی کامیابی سے تشبیہ کیا گیا۔ امریکہ کی طرف سے ہتھیاروں کے ایک ہوائی جہاز نے اسرائیل کو بالآخر سوویت یونین کی طرف سے مصریوں اور شامیوں کو فراہم کردہ فوجی امداد پر غالب آنے میں مدد کی۔
سرد جنگ کا فریم ورک مشرق وسطیٰ میں امریکی کردار کے بارے میں موجودہ دور کے امریکی تصورات میں ان طریقوں سے برقرار ہے جو اس فریم ورک کی خامیوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان مکمل سفارتی تعلقات استوار کرنے کی بائیڈن انتظامیہ کی کوشش کے حامی، اس کی وضاحت دوسرے طریقوں سے کرتے نظر آتے ہیں اور ان کے مطابق یہ کوشش امریکی مفادات کو کس طرح آگے بڑھاتی ہے، اس کو یقینی بناتی ہے۔
دوسری جانب اسرائیل کو دہائیوں پر محیط امریکی حمایت، جس میں 158 بلین ڈالر کی فوجی اور اقتصادی امداد شامل رہی ہے، اس کے باوجود اسرائیل نے چین اور روس دونوں کے ساتھ وسیع تعلقات استوار کرنے اور ان طاقتوں کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے کے لیے اپنی پالیسیوں کو کم کرنے سے نہیں روکا یعنی کہ ایک طریقے سے اسے امریکہ کی سفارتی پالیسی کی شکست کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
گزشتہ ۵۷ برسوں کے دوران فلسطینی مسئلے کو حل کرنے کے لیے جو کوششیں ہوئیں اس میں سب سے پہلے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے پہلے حصے میں مصر-اسرائیل امن معاہدے کے بارے میں مخصوص وعدے شامل تھے۔ دوسرا حصہ “مسئلہ فلسطین” کے حتمی حل کے بارے میں مبہم زبان پر مشتمل تھا۔ کیمپ ڈیوڈ کے پندرہ سال بعد، فلسطینی اتھارٹی کے اوسلو معاہدے کی تشکیل کے ساتھ، بالآخر فلسطینیوں کے حوالے سے مختلف شقوں پر کچھ عمل درآمد ہوتا نظر آیا۔ لیکن اوسلو معاہدے میں جو پانچ سالہ عبوری میعاد رکھی گئی تھی وہ بہت پہلے آئی اور چلی گئی۔ اور فلسطینی عوام آج بھی خود ارادیت سے بہت دور ہیں۔ ساتھ ہی ”عبوری“ فلسطینی اتھارٹی جو بنیادی طور پر اسرائیلی قبضے کے لیے حفاظتی معاون کے طور پر کام کر رہی ہے،وہ زیادہ تر فلسطینی عوام میں بڑے پیمانے پر بدنام ہے، اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ عالمی برادری نے جو وعدے فلسطینی عوام سے کیے تھے، وہ ابھی تک پورے نہیں ہوئے ہیں۔
اگر دوسرے لفظوں میں کہیں تو اسرائیل کی اس پالیسی کا مطلب ہے تلوار کے ذریعے غیر معینہ مدت تک اپنے آپ کو قائم رکھنا اور فلسطینی عوام پر مظالم ڈھاتے رہنا۔ اس لیے درحقیقت اسرائیل، اس کے سرپرست امریکہ کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں حقیقی امن قائم کرنے کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے
دریں اثنا، موجودہ منظر نامے میں جو چیز سب سے زیادہ حیران کن ہے، وہ حماس کے خلاف اسرائیلی حکومت کا شدید ردعمل ہے۔ اپنے آپ کو علاقائی سپر پاور کہنے والا ملک فوری طور پر حالتِ جنگ میں چلا گیا۔حماس کے حملے کے 48 گھنٹوں کے اندر نیتن یاہو اور ان کے مخالف گینٹز کی عبوری حکومت قائم ہو گئی۔یعنی کہ ایک طریقے سے دائیں بازو کی شکست ہوئی، ساتھ ہی اپنی مکمل جنگی مشینری کو مہلک ڈرون اور حتیٰ کہ فاسفورس بموں کا استعمال کرتے ہوئے مبینہ طور پر متحرک کیا گیا، جس کے لیے اسرائیلی عوام کے ایک بڑے طبقے نے جیریکو میزائلوں کے استعمال کے لیے حکومت کو اکسایا۔یعنی کہ غیر مسلح فلسطینی شہریوں کے خلاف جوہری میزائل استعمال کیے جارہے ہیں بغیر کسی دریغ کے، ہسپتالوں اور یونیورسٹیوں پر بمباری کی جارہی ہے اور سب خاموش ہیں۔
موجودہ جنگ دو سطحوں پر لڑی جا رہی ہے، پہلی عسکری جس میں اسرائیل کو مکمل طور پر امریکہ کی حمایت حاصل ہے اور وہ ہر وہ فوجی کارروائی کررہا ہے جو بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کرتی نظر آرہی ہے۔ دوسری سطح پر، غلط معلومات کے ذریعے، جو مغربی طاقتوں کے ایجنڈے کو ترتیب دینے کی تکنیکوں کی تکمیل کے لیے ایک غلط بیانیہ کو پیش کرنے لیے استعمال کی جارہی ہے۔ چین جیسے ممالک جنہوں نے بظاہر صحیح مشورے دیے ہیں ان پر غلط معلومات کی مہم شروع کرنے کا الزام لگایا جارہا ہے، لیکن امریکی قوانین کے تحت X، FB یا یوٹیوب کے خلاف اسرائیلی حکومت کی سرپرستی میں پیسے دے کر ان گمراہ کن مہمات کیلئے کوئی کارروائی نہیں ہورہی ہے۔ ساتھ ہی دوسری حیران کن بات یہ ہے کہ مغربی میڈیا نے حملے کے محض چھ گھنٹے کے اندر ہی اسرائیل کی حمایت میں اور حماس کو شیطانی شبیہ دینے کی مہم کے تحت غلط خبریں، اداریے اور مضامین شائع کرنے شروع کردیئے۔
مزید برآں اسرائیل میں جنگ نے دنیا بھر میں ہندوتوا کے حامیوں کے درمیان ایک نئی حمایت کی بنیاد بھی مہیا کرائی ہے۔جس نے سوشل میڈیا پوسٹوں کے ذریعے اسرائیل کے لیے ان کی غیر متزلزل حمایت کا اظہارکیا ہے۔ یہ دونوں سخت گیر دائیں بازو کے قوم پرست رجحانات کی حمایت کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ سوشل میڈیا پوسٹس اور نیوز آؤٹ لیٹس پر جھوٹ کی غلط معلومات کی مہم نے قومیت اور خود ارادیت کے مسائل پر مغربی منافقت کی بنیادی نوعیت کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔
جو ملک قانون کی حکمرانی یا بالادستی کی بات کرتے ہیں، وہی ان مہمات میں شامل نظر آرہے ہیں۔جس طرح اسرائیل نے غزہ کے مکمل محاصرے اور وہاں پانی اور بجلی کی سپلائی میں کمی اور اہم طبی ادویات اور ضروری اشیاء کی فراہمی کو روکنا شروع کردیا ہے،اس پر ان مغربی ممالک کا کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔اس کے علاوہ اسرائیل نے اپنے پرانے دشمنوں لبنان اور شام کے خلاف بھی راکٹ حملے کیے ہیں اور کسی میں اس کے اقدامات پر سوال اٹھانے کی ہمت نہیں ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ اس حملے نے اسرائیل کی آئرن ڈوم ٹیکنالوجی سے جڑے موروثی جھوٹ کا بھی پردہ فاش کیا، جسے بیچ کر اس نے اربوں ڈالر کمائے لیکن حقیقت میں یہ ثابت ہوا کہ وہ کسی بڑے حملے کو روکنے کے قابل نہیں ہے، جو موجودہ حملے میں کم از کم 5ooo بموں پر مشتمل تھا۔ برطانیہ کے رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ نامی تھنک ٹینک کی تجزیہ نگار سیم کرینی -ایونز کا کہنا ہے کہ ”حملے کے سراسر حجم نے اسرائیلی دفاعی نظام کو متاثر کیا۔ وہ مغلوب تھا، خاص طور پر جب حماس کے حملے صرف راکٹوں تک ہی محدود نہیں تھے۔ ان میں زمینی، فضائی اور سمندری حملے بھی شامل تھے۔“ آسٹریلوی اسٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ میں دفاعی حکمت عملی کے ایک سینئر تجزیہ کار میلکم ڈیوس مندرجہ بالا نقطہ نظر سے متفق نظر آتے ہیں۔ تو اس کا بنیادی مطلب یہ ہے کہ اسرائیل ناقابل تسخیر نہیں ہے اور یہ بات اس کی دفاعی برآمدات کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
یہ بھی افسوسناک حقیقت ہے کہ اگرچہ اسرائیل نے غزہ کے لیے یوروپی یونین کی امداد کی مخالفت کی ہے، لیکن وہ یوروپی یونین کی جانب سے اپنی ناکام حکومت کی حمایت کے لیے قدم اٹھانے کا منتظر نظر آرہا ہے، جس کے تحت امریکہ سے زیادہ فنڈز اور زیادہ دفاعی ساز و سامان مہیا کرایا جاسکتا ہے۔ لیکن سب کے ذہنوں میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ موجودہ تنازع مشرق وسطیٰ کی سیاست پر کیا اثر ڈالے گا اور امریکہ اور مختلف عرب ریاستوں کے درمیان تعلقات میں کیا تبدیلی آسکتی ہے اور عالمی برادری ایران سے کس طرح ٹکر لے سکتی ہے۔
مجموعی طور پر اتنا ہی غیر یقینی یہ کہنا ہے کہموجودہ بحران کیسے ختم ہوگا اور کب تک چلے گا۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ تازہ ترین تنازعہ عرب دنیا پر بہت زیادہ اثر انداز ہو گا اور یقینا خطے میں اور عالمی سطح دونوں پر ہی ایک بڑی تبدیلی واقع ہوسکتی ہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں، ماضی میں بی بی سی اردو سروس و خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں)

About Gawah News Desk

Check Also

زکوٰۃ کے اصل مستحق کون؟

مدارس میں فیس کا نظام قائم کیجیے،نادار طلبہ کی فیس زکوٰۃ سے اداکیجیےعبدالغفار صدیقی-9897565066 زکوٰۃ …

گھر سے دور رہنے والوں کا رمضان-اہل خیر سے ایک گزارش

جب میں نے ای ٹی وی بھارت میں اپنی پہلی ملازمت شروع کی تھی، تو …

Leave a Reply