Thursday , May 2 2024
enhindiurdu

جوبلی ہلز سے اظہرالدین کی کامیابی حیدرآبادی عوام کی کامیابی ہوگی

جوبلی ہلز اسمبلی حلقہ سے محمد اظہرالدین کانگریس کے امیدوار ہیں‘ جن کی کامیابی کو یقینی بنانا ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اظہرالدین کی تائید و حمایت کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کسی دوسری جماعت کے مخالف ہیں۔ اظہرالدین اگر کسی اور جماعت کے امیدوار ہوتے تب بھی ہم ان کی اس لئے تائید کرتے کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ عالمی سطح پر چارمینار کی طرح محمد اظہرالدین بھی حیدرآباد کی پہچان ہیں۔ پورے تلنگانہ میں جتنے بھی امیدوار میدان میں اترے ہوئے ہیں‘ ان میں سے کسی کا بھی اظہرالدین کی قومی اور بین الاقوامی سطح پر شہرت و مقبولیت کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ ایسا کونسا امیدوار ہے جس سے ملنے کی تمنا قومی اور بین الاقوامی شخصیات کرتی ہیں۔ اظہرالدین کی تائید فطری ہے‘ کیوں کہ مجھے اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ اردو صحافت کیلئے (مارچ1983ء میں) اظہرالدین کا پہلا انٹرویو لیا تھا جو رہنمائے دکن میں شائع ہوا تھا اور اردو اخبارات کے قارئین نے پہلی مرتبہ اظہرالدین کی تصویر دیکھی تھی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ان کے ورلڈ ریکارڈ بنانے کے بعد ان پر کتاب ”کرکٹ کا شہزادہ“ بھی میں نے لکھی تھی۔ 40سال کے دوران اظہرالدین کے کیریئر میں کئی نشیب و فراز آئے۔ جب ان پر فرضی بے بنیاد الزامات عائد کرکے ان کے شاندار کرکٹ کیریئر کو متاثر کیا گیا تب بھی خاکسار اپنے اخبار گواہ کے ساتھ اظہرالدین کے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔ اللہ رب العزت کا احسان و کرم ہے کہ بی سی سی آئی اپنے الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ اظہرالدین نے قانونی لڑائی جیتی۔ ان سے قربت اور محبت کے باوجود جب کبھی تنقید کا موقع ملا ہم نے تنقید بھی کی۔ 2013-14ء میں یہ خبر عام کردی گئی تھی کہ محمد اظہرالدین حیدرآباد پارلیمانی حلقہ سے مقابلہ کریں گے۔ یہ گواہ ہی تھا جس نے اپنے صفحات کے ذریعہ اس خبر کو افواہ ثابت کیا۔ 2019ء میں کانگریس اظہرالدین کو واقعی حیدرآباد پارلیمانی حلقہ سے اپنا امیدوار مقرر کرنا چاہتی تھی‘ اس وقت بھی ہم نے گواہ کے ذریعہ اور اپنے ویڈیو چیانل کے ذریعہ یہی پیغام دیا تھا کہ حیدرآبادی پارلیمانی حلقہ سے مجلس کا ہی منتخب ہونا ضروری ہے۔ اگر اظہرالدین یا کوئی اور امیدوار میدان میں اُترتا ہے تو تیسرے امیدوار کو اس کا فائدہ ہوگا۔ یوٹیوب پراب بھی ”Azharuddin vs Asaduddin Owaisi“ مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ ابھی تک پانچ لاکھ سے زائد ناظرین اسے دیکھ چکے ہیں۔ ہمارے اس موقف سے کانگریس میں موجود ہمارے دیرینہ دوست اور قریبی ساتھی بے حد ناراض ہوئے۔ مگر ہمیں اس لئے پرواہ نہیں کہ ہم نہ اظہر کا نقصان چاہتے تھے نہ ہی مجلس کا۔ مجلس‘ ہماری سیاسی طاقت ہے۔ اظہرالدین ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں۔ سکندرآباد میں اظہرالدین مقابلہ کرنا چاہتے تھے‘ مگر انجن کمار یادو اور دوسرے قائدین جن کا تعلق سکندرآباد سے تھا‘ انہوں نے ان کی مخالفت کی جس کی وجہ سے اظہرالدین نے مقابلہ نہیں کیا۔
آپ کو یادو ہوگا 2009ء کے الیکشن میں جناب زاہد علی خاں ایڈیٹر سیاست نے سات سیاسی جماعتوں کی تائید سے حیدرآبادی پارلیمانی حلقہ سے مقابلہ کیا تھا۔ اس وقت حیدرآبادی عوام دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔ دو طرف بھی آگ بھڑکائی جارہی تھی۔ تیل ڈالا جارہا تھا۔ غیر حضرات تماشہ دیکھ رہے تھے۔ اس وقت بھی ہم نے گواہ کے ذریعہ جناب زاہد علی خاں سے گزارش کی تھی کہ وہ مقابلہ سے دستبردار ہوجائیں۔ ہم نے یہ تک لکھا تھا کہ اگر حیدرآباد پارلیمانی حلقہ سے مجلس کو کسی بھی وجہ سے شکست ہوتی ہے تو سقوط حیدرآباد کے سانحہ کی طرح اس صدمے کو بھی برسوں تک بھلایا نہیں جاسکے گا۔ ہم گواہ کے ساتھ ساتھ اڈورٹائزنگ اور پی آر ایجنسی میڈیا پلس بھی چلاتے ہیں۔ اخبارات سے ہمارے مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ ہم نے ملی اتحاد کے اور ملی مفاد کی خاطر اپنے ادارے کے مستقبل کی پرواہ نہیں کی۔ حالانکہ جناب زاہد علی خاں صاحب بھی وقتی طور پر ہم سے ناراض ہوگئے تھے۔ ایمانداری کی بات تو یہ تھی کہ زاہد صاحب کے کاندھے پر رکھ کر مجلس کو نشانہ لگانے والے کوئی اور تھے‘ جو ایک تیر سے دو شکار کررہے تھے۔ زاہد صاحب سے بھی انہیں حساب کتاب چکانا تھا اور مجلس سے بھی انتقام لینا تھا۔ ہم نے لکھا تھا کہ موجودہ سیاست زاہد نواب کے بس کی بات نہیں‘ کیوں کہ اس میں اپنے عزت اور وقار کو بالائے طاق رکھ کر نچلی سطح پر اُتر جانا پڑتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد زاہد صاحب نے انہی الفاظ کے ساتھ عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔
گواہ نے ہمیشہ ملی اتحاد کی کوشش کی ہے۔ 2000ء میں گواہ کے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم اسپیشل ایڈیشن میں ہم نے لکھا تھا کہ حیدرآبادی مسلمان چاہتا ہے کہ مجلس اتحادالمسلمین اور مجلس تعمیر ملت میں اختلافات ختم ہوا اور اتحاد قائم ہو۔ کیوں کہ مجلس ہماری سیاسی ترجمان اور تعمیر ملت ہماری ذہنی و فکری تربیت کے ضامن ہے۔ اس وقت مختلف گوشوں سے کڑی تنقید کی گئی۔ مگر یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ اس نے ہماری تحریر میں تاثیر دی اور اُسے دعا کی طرح قبول کیا۔ ایک برس بعد جب دارالسلام میں آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کا اجلاس ہوا تب مجلس، تعمیر ملت، مولانا عاقل سب ایک ہوگئے۔ یقینا اس اتحاد میں جناب رحیم الدین انصاری مرحوم اور بیرسٹر اسدالدین اویسی نے بڑا اہم رول ادا کیا تھا۔
اب اظہرالدین جوبلی ہلز سے مقابلہ کررہے ہیں۔ یہ ہمارے اپنے ہیں۔ وہ واحد حیدرآبادی ہیں جو حیدرآباد سے باہر کسی دوسری ریاست سے مقابلہ کرکے کامیاب ہوئے ہیں۔ الزامات تو سبھی پر لگائے جاتے ہیں اور ہم حیدرآبادی ان الزامات کا پرواہ کئے بغیر اپنے امیدواروں کو اس لئے منتخب کرتے ہیں کہ یہ جیسے بھی ہیں ہمارے اپنے ہیں اگر ہم ان کا ساتھ نہ دیں تو پھر کون دے گا۔ وہ حلقے جہاں سے ہمارے امیدوار ہر قیمت پر کامیاب ہوتے ہیں‘ وہاں تو کسی کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں‘ مگر وہ حلقے جہاں محض کسی ایک امیدوار کی وجہ سے ایک جیتنے والا مسلم امیدوار ہار جائے یہ بھی مناسب نہیں۔ اس کے علاوہ اظہرالدین کی وجہ سے اس وقت نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا کی توجہ حیدرآباد پر ہے۔ اظہرالدین کی عزت و وقار کی لاج رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔ کیوں کہ ان کے علاوہ دوسرے امیدواروں کو حیدرآباد سے باہر کوئی جاننے والا نہیں ہے۔ رہی بات کون امیدوار جیتنے کے بعد کیا کام کرے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ویسے بھی ہمارے تمام امیدواروں کا ریکارڈ سب کے سامنے ہے۔ کس نے کیا کیا، کس نے کیا نہیں کیا کس سے چھپا ہوا ہے۔ چوں کہ جوبلی ہلز دولت مندوں اور میڈل کلاس طبقات کا سنگم ہے۔ اس لئے پورے علاقہ کو ترقی یافتہ بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ایسا ہی امیدوار منتخب ہو جس نے دنیا دیکھی ہے۔ اظہرالدین نے دنیا کے تقریباً تمام ممالک اور تمام اہم مشاعروں کا دورہ کیا ہے۔ اگر وہ منتخب ہوجاتے ہیں (ان شاء اللہ) تو یقینا ان کی یہی کوشش رہے گی کہ وہ اس حلقہ کو پورے ملک میں ایک مثالی حلقہ بناکر پیش کریں۔ وہ خود بھی کافی عرصہ تک جوبلی ہلز میں رہ چکے ہیں۔ ان کے برادر نسبتی محمد خلیق الرحمن اسی حلقہ میں رہتے ہیں۔
نریندر مودی نے آدتیہ ناتھ یوگی کو اپنا حریف بننے سے روکنے کے لئے اُترپردیش کا سنگھاسن حوالہ کردیا تھا۔ اگر نہ کرتے تو یقینا قومی سطح کی سیاست میں وہ ہمیشہ مسٹر مودی کے لئے رکاوٹیں پیدا کرسکتے تھے۔ اظہرالدین اگر جوبلی ہلز سے کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ سبھی کے لئے بہتر ہے۔
اظہرالدین کی کامیابی حیدرآباد کی کامیابی ہوگی۔ اگر کسی وجہ سے وہ کامیاب نہیں ہوسکے تو قومی سطح پر ہمیں شرمندہ ہونا پڑے گا۔ اللہ کا یہ کرم ہے کہ حیدرآبادی عوام بالخصوص مسلمان جو آج اکیسویں صدی میں انفارمیشن ٹکنالوجی و سوشیل میڈیا کے دور میں بڑا متحرک اور فعال ہے‘ اندھے بھکتوں کی طرح نہیں ہے۔ اُسے سوچ سمجھ کر پرکھ کر اپنے دستوری حق کا استعمال کرنا آگیا ہے۔

About Gawah News Desk

Check Also

نئی نسل کے لئے عظیم کرکٹر کا تعارفکوہلی اور دھونی سے بڑے ’کھلاڑی‘ اظہر

وہ نوجوان جو اٹھارہ بیس سال کی عمر کے ہیں‘ جو پہلی بار اپنے اوٹ …

ممتاز صحافی فہیم الدین کوتلنگانہ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ

شعبہ اردو تلنگانہ یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر فہیم الدین (اسوسی ایٹ ایڈیٹر رہنمائے دکن) کوپروفیسر …

Leave a Reply