ای وی ایم سے کیا چھٹکارا ملے گا؟

ہر الیکشن کے بعد الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے انتخابی کرشمہ کا ذکر ہوتا ہے۔ اس پر شک شبہ اور جانبداری کا الزام لگتا ہے۔ ای وی ایم کے خلاف آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں۔ ناکام ہونے والی جماعت اپنی ہار کیلئے ای وی ایم کو ذمہ دار بتا کر مطمئن ہو جاتی ہے اگر الیکشن میں ای وی ایم کے استعمال پر بھروسہ نہیں ہے تو قومی سیاسی پارٹیاں اس پر روک لگانے کیلئے کوئی قدم کیوں نہیں اٹھاتیں۔ کیا اس کے پیچھے کسی ریاست کی جیت کا لالی پاپ ہے یا پھر ای وی ایم کو لے کر تذبذب کی کیفیت۔ حالانکہ 1982 میں کیرالہ کی پارل اسمبلی سیٹ کے ضمنی انتخاب میں پچاس پولنگ اسٹیشن پر پہلی مرتبہ ای وی ایم کا استعمال ہوا تھا۔ 1998 میں مدھیہ پردیش، راجستھان اور دہلی اسمبلی کی 16 سیٹوں پر ای وی ایم کے ذریعہ لوگوں نے ووٹ ڈالے تھے۔ 2004 کا عام الیکشن ای وی ایم کے ذریعہ ہوا۔ اس وقت سڑک سے پارلیمنٹ تک اگر کوئی پارٹی ای وی ایم پر عدم اعتبار کا اظہار کر رہی تھی تو وہ بی جے پی تھی۔
2009 کے عام انتخابات میں بی جے پی نے ہار کا سامنا کیا تھا۔ تب پارٹی کے سینئر لیڈر ایل کے اڈوانی نے سب سے پہلے ای وی ایم پر سوال اٹھائے تھے۔ سبرا منیم سوامی نے بھی ماہرین کے حوالے سے ای وی ایم کے خلاف شدید مہم چلائی تھی۔ 2010 میں جی وی ایل نرسمہاراو نے ”ڈیموکریسی ایٹ رسک: کین وی ٹرسٹ آر الیکٹرانک ووٹنگ مشین“ کے نام سے کتاب بھی لکھی تھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس کتاب کا پیش لفظ ایل کے اڈوانی نے لکھا تھا۔ جی وی ایل کی کتاب پر اس وقت کے آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ چندر بابو نائیڈو کا پیغام بھی چھپا ہوا ہے۔ سوامی اور اڈوانی کا جو حال پارٹی میں ہے اسے دیکھ کر ان سے کسی کو ہمدردی نہیں ہو پاتی۔ جی وی ایل کو چاہئے کہ ای وی ایم کے سب سے زیادہ بھروسہ مند ہونے پر ایک اور کتاب لکھیں تاکہ 2024 میں اس پر کوئی سوال نہ اٹھا سکے۔
انٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ڈیموکریسی اینڈ الیکٹرورل اسسٹینس (آئی ڈی ای اے) کی مانیں، تو آج کی تاریخ میں دنیا کے 178 ممالک میں سے 29 ملک پوری طرح یا جزوی طور پر انتخابات میں ای وی ایم کا استعمال کر رہے ہیں۔ انڈیا، بھوٹان کے علاوہ یو اے ای، رشین فیڈریشن کے کچھ حصوں، پیرو، ایستونیا، ڈومینک ریپبلک، برازیل، بیلزیم، آسٹریلیا، آرمینیا، ارجٹینا، البانیہ، فلیپینس، پنامہ، اومان، نیوزی لینڈ، نمیبیا، منگولیہ، کرگستان، عراق، کانگو، وینیجولا میں ای وی ایم موجود ہے۔ ان کے علاوہ ایران، کنیڈا، میکسیکو کچھ صوبوں میں ای وی ایم کے ذریعہ انتخابات کراتے ہیں۔ یوں تو امریکہ کی کئی ریاستوں میں بیلٹ پیپر کے ذریعہ ووٹنگ ہوتی ہے۔ مگر جہاں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال ہو رہا ہے۔ اس کی نگرانی الیکٹرورل مینجمنٹ باڈی (ای ایم بی) کرتی ہے۔ ”ای ایم بی“ میں سیاسی پارٹیاں، سیکورٹی ایجنسیاں، میڈیا، سول سوسائٹی کے لوگوں اور انٹر نیشنل سپروائزروں کی حصہ داری ہوتی ہے۔ فجی، فرانس اور جنوبی کوریا امریکی طرز پر انتخابات کرا رہے ہیں۔ عراق میں ای وی ایم کے ذریعہ ووٹنگ میں بیایمانی کی مسلسل مخالفت ہوئی ہے، لیکن وہاں کا الیکشن کمیشن اسے نظرانداز کرتا رہا ہے۔
لیٹن امریکی ممالک میں برازیل نے 1996 میں اور وینزولا نے 1998 میں ای وی ایم کا استعمال شروع کیا۔ پیراگوئے نے 2001 سے 2006 کے بیچ تجرباتی طور پر ای وی ایم کا استعمال شروع کیا لیکن جب شکایتوں کا انبار لگنا شروع ہوا تو 2007 میں ای وی ایم کو الوداع کہہ دیا۔ ایکواڈور میں 2014 سے 20017 تک استعمال کے بعد 2019 میں ای وی ایم کے استعمال کو روک دیا گیا۔ نمیبیا نے 2014 میں سب سے پہلے ای وی ایم کا الیکشن میں استمال کیا۔ چار ہزار الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعہ 2019 میں جو نتیجے آئے، ان میں 24 سال سے برسراقتدار پارٹی ”سواپو“ پھر سے کامیاب ہوئی۔ اس کرشمہ کے پیچھے پارٹی کے مخالفین ای وی ایم کا سب سے بڑا کردار مانتے ہیں۔ بھارت نے نمیبیا کو 2012 میں 3400 الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں بھیجی تھیں۔ 2019 میں ای وی ایم کی جب شدید مخالفت ہوئی تو بھارت الیکٹرانکس لمیٹڈ نے ووٹر ویریفیبل پیپر ٹریل (وی وی پیٹ) مشینیں بھی نمیبیا کو بھجوا دیں۔
انڈیا میں بنی ای وی ایم بوتسوانا بھی بھیجی گئی۔ سینئر صحافی پشپ رنجن کے مطابق 2019 کے انتخاب میں ای وی ایم کے استعمال پر افریقی ملک میں بوال مچا تو بوتسوانا حکومت نے انڈیا کے الیکشن کمیشن کو لیٹر بھیجا کہ انکے افسران یہاں کی عدالت میں آئیں اور یہ ڈیمو کرکے دکھائیں کہ ان مشینوں کی ہیکنگ نہیں ہو سکتی۔ بی ای ایل کے ذریعہ بنائی گئی ای وی ایم کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ ممکن نہیں ہے۔ انڈیا کے الیکشن کمیشن نے اس پر خاموشی اختیار کر لی۔ کانگو کے اپوزیشن لیڈر مارٹن فایلو نے وہاں کی حکومت کو دھمکی دی کہ ای وی ایم کے ذریعہ الیکشن ہوا تو وہ اس کا بائکاٹ کرینگے۔ یہ معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پہنچا۔ نکی ہیلی تب یو این میں امریکی سفیر تھیں، انہوں نے دلیل دی ایک یہ کہ جو ای وی ایم ڈیموکریٹک ریپبلک کانگو کے استعمال میں ہے، وہ آسانی سے ہیک کئے جا سکتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ریپبلک کانگو کے دیہی ووٹر ٹیکنولوجی سے واقف نہیں ہیں۔ ان دونو دلیلوں کی بنیاد پر نکی ہیلی نے بیلٹ پیپر کے ذریعہ الیکشن کرانے پر زور دیا۔ کانگو قومی الیکشن کمیشن نے کوریا کی دو ای وی ایم کا پارلیمنٹ میں ٹیسٹ کرایا دونوں خراب نکلیں۔ کانگو نے دنیا کو راہ دکھائی ہے کہ جن ممالک کے حکمراں عوام پر زبردستی ای وی ایم تھوپتے ہیں انکے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں سنوائی ہو سکتی ہے
بنگلہ دیش کی 39 رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں میں سے 19 ای وی ایم کے ذریعہ الیکشن کرانے کے خلاف ہیں۔ پچھلے سال 17 سے 31 جولائی تک بنگلہ دیش کے الیکشن کمیشن نے ای وی ایم کے حوالے سے کئی میٹنگیں کی تھیں۔ اسی کے بعد بنگلہ دیش کے انتخابی کمیشن نے ای وی ایم کے ذریعہ ووٹنگ کرانے کے فیصلہ کو رد کر دیا۔ وہاں 2024 میں عام انتخابات ہونے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ای وی ایم بین کرنے کی وجہ اقتصادی بتائی ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ شیخ حسینہ حکومت ملک گیر مخالفت برداشت کرنے کی حالت میں نہیں ہے۔ پاکستان بھی ای وی ایم کے استعمال سے کنارہ کر چکا ہے۔ اگر پاکستان ای وی ایم کا استعمال کرتا ہے تو اسے 330 ارب روپے نو لاکھ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کیلئے درکار ہوں گے۔ جس ملک میں کھانے کے لالے پڑے ہوں وہ کہاں سے 330 ارب روپے ای وی ایم پر خرچ کرے گا؟
جنوبی ایشیاء میں صرف بھوٹان اور بھارت ایسے ممالک ہیں جو ای وی ایم استعمال کر رہے ہیں۔ بھوٹان اپنے دم پر اکیلا ای وی ایم کا خرچ نہیں اٹھا سکتا۔ اس کا خرچ پانی چونکہ بھارت دیتا رہا ہے، اس لئے اس کے ساڑھے چار لاکھ ووٹروں کے ووٹنگ کا انتظام کرنا بھارت کے لئے مشکل نہیں ہے۔ بدلے میں اسے ای وی ایم استعمال کرنے والا ایک ساتھی مل گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر الیکٹرانک ووٹنگ مشین سب سے بھروسہ مند ہے، تو انگلیوں پر گنے جانے والے ممالک تک یہ سمٹ کر کیوں رہ گئی؟ جس سے چٹکی بجاتے انتخابی کرشمہ ہو جاتا ہے۔ اپوزیشن چاہے جتنی ملک گیر مہم چلا لے۔ ای وی ایم ہے تو برسراقتدار حکمرانوں کو اقتدار سے بے دخل کرنا ناممکن ہے۔ صحت مند جمہوریت کیلئے ای وی ایم سے چھٹکارا ضروری ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حزب اختلاف اس کیسے نپٹتا ہے۔

About Gawah News Desk

Check Also

دو نابالغ بھائیوں کاقاتل ملزم واقعہ کے صرف دو گھنٹے بعد ہی انکاؤنٹر میں ہلاک

اتر پردیش کے بداویوں ضلع میں دو کمسن بھائیوں کے قتل اور پھر مبینہ پولیس …

ڈاکٹر محمد خواجہ مخدوم محی الدین

انچار ج صدر شعبہ اُردو ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اوپن یونیورسٹی ڈاکٹر محمد خواجہ مخدوم …

Leave a Reply