الیکشن نتائج پر بہت کچھ منحصر ہے

2024ء میں منعقد ہونیوا لے جنرل الیکشن یعنی لوک سبھا انتخابات سے پہلے سال 2023ء کے اختتام سے پہلے ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات بڑے زور و شور کے ساتھ ہوئے ہیں۔ میزورم، چھتیس گڑھ، مدھریہ پردیش، راجستھان اور تلنگانہ ووٹرس کو اپنی جانب متوجہ کرنے وعدوں پر ”گیارنٹی“ پروگرامس کا اعلان کیا ہے۔ بی جے پی اگلے سال کے وسط میں ان پانچ ریاستوں میں بھی بی جے پی یقین رکھتی ہے کہ وہ حکومت بنانے میں کامیاب رہے گی۔ سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس نے پیشن گوئی کی ہے کہ ان پانچ ریاستوں میں بی جے پی کو کڑی شکست کا سامنا ہوگا۔ اور اس طرح اگلے سال 2024ء میں بی جے پی کا کمل مرجھائے جائے گا۔ ان پانچ ریاستوں کی اسمبلیوں کے لئے منعقد انتخابات میں 161ملین ووٹرس میں مجموعی اعتبار سے 70فیصد ووٹنگ کا تناسب ”خوش آئند“ سمجھا جارہا ہے۔ لوک سبھا انتخابات سے پہلے ان ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کو سیمی فائنل کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ کیوں کہ ملک میں جنرل الیکشن (لوک سبھا انتخابات) سے پہلے یہ آخری اسمبلی الیکشن ہے۔ ان ریاستوں کے انتخابات کے نتائج کو Trends ووٹرس کے رجحانات، انتخابات کے مدعے، سیاسی پارٹیوں کا گٹھ جوڑ، لیڈرشپ کے فیصلے کن اقدامات کے حوالے سے بھی اہم سمجھا جارہا ہے۔ چھتیس گڑھ، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں صرف دو اہم پارٹیاں بی جے پی اور کانگریس کے درمیان ٹکر کا مقابلہ دیکھا گیا ہے۔ ان پاچ ریاستوں میں ووٹرس کا تناسب بتاتا ہے کہ یہاں لوک سبھا کے لئے ایک تہائی سیٹیں یہاں سے آتی ہیں۔
عام طور پر ریاستی اسمبلی انتخابات کو لوک سبھا انتخابات سے جوڑ کر دیکھا ج اتا ہے۔ اس لئے بھی کہ جس طرح کے نتائج سامنے آئیں گے اس کے اثرات بعد میں ہونے والے انتخابات پر کس نوعیت کے ہوں گے۔ کبھی کبھی جس نوعیت کی قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں‘ اس کی اُلٹی تعبیر بھی سامنے آتی ہے۔
سال 2018ء میں منعقدہ چھتیس گڑھ، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں اسمبلی انتخابات کے بعد ایسا ہی کچھ ہوا۔ ان تینوں ریاستوں میں کانگریس کو فیصلہ کن غیر معمولی کامیابی نصیب ہوئی۔ مگر اس کے برعکس ان انتخابات کے چھ ماہ بعد ہوئے لوک سبھا انتخابات میں ان ریاستوں سے کل 65 لوک سبھا سیٹوں میں 62پر بی جے پی کامیاب ہوئی تھی۔ حالیہ اسمبلی انتخابات جو ان پانچ ریاستوں میں ہوئے ہیں‘ یہ متحدہ اپوزیشن جس میں 26 سیاسی پارٹیوں کا گٹھ بندھن شامل ہیں (INDIA) کا مستقبل طے کرنے میں بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ کیوں کہ متحدہ سیاسی گٹھ بندھن کے بعد یہ پہلے انتخابات ہیں۔ ذات پات کی بنیاد پر ہونے والے انتخابات کے حوالے سے بھی یہ انتخابات اہم اس لئے بھی ہیں کہ بہار حکومت نے اپنا تاریخی ذات پات سروے Caste Survey جاری کیا ہے جس کے مطابق دوتہائی (Two thirds) ریاست کی آبادی پسماندہ کے ووٹ کا کردار فیصلہ کن ثابت ہوگا۔ اپوزیشن پارٹیاں بالخصوص کانگریس حالیہ انتخابات کے دوران پُرزور مطالبہ کررہی تھی کہ Caste Survey ذات پات پر مبنی سروے ہر ریاست میں کروایا جائے گا۔
راجستھان میں کانگریس نے اعلان کیا ہے کہ اگر وہ اقتدار پر دوبارہ آئے گی تو مذکورہ سروے کروائے گی اور پسماندہ طبقات کی ترقی کیلئے نئے نتیجہ خیز منصوبے بنائے جائیں گے۔ ان پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے تنائج اس جانب بھی اشارہ دیں گے کہ ذات پات سروے کی اہمیت کو کس طرح سنجیدگی سے ووٹرس نے لیا ہے۔ یا پھر یہ اعلانات وعدوں کے ہجوم میں یہ یکسر بھلا دیئے گئے ہیں۔ بی جے پی اپنے اس کارنامے پر بھی نازاں نظر آرہی ہیں کہ مودی کی قیادت میں ہندوستان کو G20 ممالک کی Summit کی میزبانی کا امتیاز حاصل ہوگا تھا۔ اور ’وشواگرو‘ بھارت کو بی جے پی بالخصوص مودی کی قیادت میں ہر ریاست بشمول جہاں حالیہ انتخابات ہوئے ہیں وہ متوقع طور پر کامیابی ضرور مل پائے گی۔
ان حالات میں 3دسمبر 2013ء میں پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کی ووٹوں کی گنتی ہوگی اور نتائج سامنے آئیں گے تب واضح ہوجائے گا کہ اونٹ کس طرف بیٹھے گا۔ کیا مودی کے چرب بیانی اور اپنی تعریف و توصیف کا شور کامیاب ہوگا یا پھر کانگریس جس نے لوگوں میں اپنی موجودگی کا ”بھارت جوڑو یاترا“ کے توسط سے نیا احساس دلایا ہے‘ اس کا اثر نظر آئے گا۔ کرناٹک اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی فیصلہ کن جیت نے بی جے پی کو بوکھلاہٹ میں مبتلا کردیا ہے۔ اب نئے نئے حربے ہر ریاست میں استعمال کئے جارہے ہیں اور بی جے پی حسب روایت اپنی کامیابی پر پہلے ہی سے اترا رہی ہے۔ سب کی نظریں 3/دسمبر کے نتائج پر لگی ہیں۔ ان نتائج کے حوالے سے کانگریس پُرامید نظر آرہی ہے کہ اس کی پوزیشن سابقہ نتائج کے مقابلہ اس بار مستحکم ہوپائے گی۔

About Gawah News Desk

Check Also

دو نابالغ بھائیوں کاقاتل ملزم واقعہ کے صرف دو گھنٹے بعد ہی انکاؤنٹر میں ہلاک

اتر پردیش کے بداویوں ضلع میں دو کمسن بھائیوں کے قتل اور پھر مبینہ پولیس …

ڈاکٹر محمد خواجہ مخدوم محی الدین

انچار ج صدر شعبہ اُردو ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اوپن یونیورسٹی ڈاکٹر محمد خواجہ مخدوم …

Leave a Reply