Thursday , May 2 2024
enhindiurdu

فلسطین کی چند بہادر خواتین

فلسطین کی مبارک سرزمین کی تاریخ ایسی خواتین کی جدوجہدسے بھری پڑی ہے، جنھوں نے غاصب صہیونیوں کے خلاف مردوں کے شانہ بہ شانہ مزاحمت میں حصہ لیا، فلسطینی خواتین صہیونی قبضوں کے خلاف نہ صرف مردوں کی حمایت کرتی رہیں؛ بلکہ وہ برطانوی مینڈیٹ سے لے کرپہلی اور دوسری انتفاضہ تک اورغزہ اورمغربی کنارے میں جاری مزاحمت تک،گوریلا کارروائیوں کے بشمول فلسطینی انقلاب کے تمام مراحل میں بھی وہ فعال اور بااثرطریقہ پرشریک رہیں، آیئے ان میں سے چند ایک کے کچھ احوال جان کراپنے ایمان کی مضبوطی کوپرکھیں۔
جمیلہ شنطی
گزشتہ18/اکتوبرکوغزہ کی پٹی پرصہیونیوں کی طرف سے وحشیانہ بمباری کے نتیجہ میں اسلامی مزاحمتی تحریک”حماس“ کی سیاسی بیوروکی رکن اور فلسطینی شریعہ کونسل کی نمائندہ ”جمیلہ شنطی“ شہید ہوگئیں۔ شنطی(68سال)غزہ کے اپنے گھر میں اسرائیلی بمباری کے نتیجہ میں شہید ہوئیں، ان کا تعلق اس پہلی نسل سے تھا، جنھوں نے 1987 میں ”حماس“ کی بنیادرکھی تھی، وہ مسلسل دو مرتبہ حماس کی خواتین ونگ کی شوریٰ کونسل کی صدر رہیں، 2006میں وہ حماس کے زیرانتظام اصلاحی بلاک کی قانون ساز کونسل کی رکن منتخب ہوئیں اور 2013 میں انہوں نے غزہ پٹی کی حکومت میں خواتین کے امورکی وزارت سنبھالی‘ مارچ 2021 میں وہ حماس کے پولیٹیکل بیورو کے لئے منتخب ہونے والی پہلی خاتون بن گئیں، ان کے بہت سے فدائی کارنامے ہیں، ان کاایک بہت ہی اہم کارنامہ وہ ہے، جسے انھوں نے 3/نومبر 2006 کو انجام دیا، انھوں نے شمالی غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی طرف سے شروع کئے گئے آپریشن ”غیوم الخریف“ (خزاں کے بادل)کے دوران بیت حنون کی ایک مسجد میں قابض فوج کے محاصرہ کو توڑنے میں خواتین مارچ کی قیادت کی‘ جہاں بہت سارے مزاحمت کرنے والے مجاہدین پناہ گزین تھے، شنطی تاریخِ فلسطین کی اُن بہادرمجاہدات میں سے تھیں، جنھوں نے شجاعت ودلیری اورجرأت وبے باکی کی تاریخ رقم کرکے اپنایادگارثبت کیا ہے جیسے: شادیہ ابوغزالہ، جو1967کے نکبہ کی پہلی فوجی شہید تھیں، جنھوں نے احتلال وقبضہ کے خلاف گوریلا کارروائیوں میں حصہ لیا اور 28/نومبر 1968کوشہیدہوئیں۔
ذکیہ شموط
بہادری کی تاریخ میں ذکیہ شموط کانام سرفہرست ہے، وہ قبضہ کے خلاف گوریلاحملہ کرنے والی خواتین میں سے ایک تھیں، انھوں نے 1968 میں اس میں شمولیت اختیارکی، ان کے گوریلا کارروائیوں کی تعداد7ہے، 1970کے اوائل میں انھیں اوران کے شوہرکوگرفتارکیاگیا، اس وقت وہ پانچ ماہ کی حمل سے تھیں، انھیں 12سال قیدکی سزاسنائی گئی، 18/فروری 1972کوذکیہ نے رملہ کی اسرائیلی نیوترتسیاجیل میں ایک بچی نادیہ کو جنم دیا، وہ پہلی فلسطینی خاتون تھیں، جنھوں نے اسرائیلی جیل میں بچہ کوجنم دیا، 1983میں انھیں جیل سے رہاکردیاگیا اور الجزائر جلاوطن کردیاگیا، وہیں 2014میں ان کاانتقال ہوا۔
دلال مغربی
تاریخ کے روشن صفحات میں شہر”یافا“ کی بیٹی دلال المغربی کانام بھی فلسطین کی خواتین مجاہدات کی فہرست میں درج ہے، انھوں نے 1948کے نکبہ کے بعدلبنان میں پناہ لی، پھروہ جلدہی فلسطینی انقلاب کی صف میں شامل ہوگئیں، انھوں نے کئی طرح کی فوجی ٹریننگ حاصل کی، وہ ایک فدائی حملے میں ”تل ابیب“ جاپہنچیں اور قابض فوجیوں کولے جانے والی اسرائیلی بس پرقبضہ میں کرنے کامیاب ہوگئیں، فدائین اورفوجیوں کے درمیان چھڑپ ہوئی، جس کے نتیجہ میں اسرائیلی فوج ہلاک بھی ہوئی اورزخمی بھی، پھرجب قابض فوج کے اس وقت کے وزیرایہودباراک نے بس کوروک کر فدائین کوقتل کرنے کاحکم دیاتواس وقت دلال نے مسافروں سمیت بس کودھماکہ سے اڑادیا۔
ریماصالحہ
ریماصالحہ بھی ممتازترین فلسطینی مجاہدات میں شامل ہیں، وہ 1980میں یروشلم میں پیداہوئیں، انھوں نے جامعہ اسلامیہ کی فیکلٹی آف اسلامک سائنس سے گریجویشن کیا، پھروہ الاقصی اسلامک اسکول میں بطور ٹیچر کام کرنے لگیں، 18/اکتوبر 2015کی بات ہے، وہ مسجد اقصی میں نماز ادا کرنے کے لئے گئیں، جب وہ قلندیا چوکی پرپہنچی توقابض فوجیوں نے اس پریہ الزام عائد کرتے ہوئے گولی چلادی کہ اس نے ایک فوجی کو چاقو مارنے کی کوشش کی تھی، فوج نے سینے، پیٹ اورگردن میں کئی گولیاں ماریں، پھر اسے خون میں لت پت ابتدائی طبی امدادفراہم کئے بغیرزمین پرچھوڑدیا، وہ زخموں کی تاب نہ لاسکیں اوروہیں شہادت کی موت نصیب ہوئی۔
ہناء شلبی
ہناء شلبی بھی شہیدخواتین کی جھرمٹ میں سے ایک تھیں، انھوں نے عام شہری زندگی سے فدائین کی زندگی کاایک نمونہ پیش کیا، 17/ فروری 2002کی بات ہے، انھوں نے غاصبانہ قبضہ کے خلاف شہادت کاآپریشن کافیصلہ کیا، انھوں نے دھماکہ خیز بیلٹ پہنااورنابلس میں ”بیت ایبا“ فوجی چوکی کی طرف وہ بڑھی، پھرجب ایک اسرائیلی فوجی اس کے قریب پہنچا توانھوں نے خودکودھماکہ سے اڑالیا، جس کی وجہ سے اس کی موت کے ساتھ ساتھ دیگرافراد زخمی بھی ہوئے۔
اسماء البطنیجی
فلسطینی جدوجہد کی تاریخ میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ فلسطینی مجاہدات میں سے بہت ساری مجاہدات نے مغربی کنارہ کوخیرباد کہہ کرغزہ کی پٹی کی طرف ہجرت کی؛ تاکہ وہ جمیلہ شنطی کی خواتین مجاہدات ونگ میں شامل ہوسکیں، انہی میں ایک اسماء البطنیجی بھی ہیں، یہ 2014کے غزہ کی جنگ کے لئے اٹھ کھڑی ہوئیں؛ حالاں کہ یہ اس وقت شہیدہ بسمہ عسلی اسکول میں گیارہویں جماعت کی طالبہ تھیں، جس کی وجہ یہ بنی کہ شجاعیہ کے محلہ میں موجوداس کاخاندانی گھر صہیونی بمباری کانشانہ بنا، جس کے نتیجہ میں اس کی والدہ، اس کی چاربہنیں، اس کی خالہ، اس کی دادی اوراس کے متعدد رشتہ دار(جن کی تعداد تقریباً 25کو پہنچتی ہے) شہید ہوگئے، بس پھراس نے بھی اسرائیلی غاصب کے ساتھ مزاحمت کے لئے ٹھان لیا اورزمانہ طالب علمی میں ہے وہ غاصب صہیونی کے خلاف مزاحمتی دستہ میں شامل ہوگئیں۔
یہ وہ شہیدہونے والی فلسطینی مجاہدات ہیں، جنھوں نے نسائی فداکاری اورجاں نثاری کانمونہ پیش کیااوریہ ثابت کیا کہ فلسطینی خواتین مجاہدین کی معلمہ اورمربیہ ہیں، وہ صابر، جنگجو، تعلیم یافتہ اورتخلیقی صلاحیت کی حامل ہیں، وہ اپنی قوم کی امید، خواب اورمستقبل ہیں، جوفدائی حملوں اورشہادت کی راہ میں اپنی جان قربان کرسکتی ہیں۔

About Gawah News Desk

Check Also

زکوٰۃ کے اصل مستحق کون؟

مدارس میں فیس کا نظام قائم کیجیے،نادار طلبہ کی فیس زکوٰۃ سے اداکیجیےعبدالغفار صدیقی-9897565066 زکوٰۃ …

گھر سے دور رہنے والوں کا رمضان-اہل خیر سے ایک گزارش

جب میں نے ای ٹی وی بھارت میں اپنی پہلی ملازمت شروع کی تھی، تو …

Leave a Reply