الیکشن‘ مسلمان اور ”زبان“…..!

سچ تو مگر کہنے دو ! ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

الیکشن کا موسم آتے ہی سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارمس سے ہر قسم کے قائدین چاہے وہ سیاسی ہوں یا مذہبی‘ حریف امیدواروں یا جماعتوں پر الزام تراشی تو کرتے ہی ہیں‘ مگر ان کے لئے ایسے ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو مہذب معاشرہ میں رہنے، بسنے والے باشعور سنجیدہ ذہن کے عوام کی سماعتوں پر ناگوار گزرتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ ہم اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کے باوجود اپنے دینی بھائیوں پر لعن و طعن بھی کرتے ہیں‘ الزام تراشی اور بہتان طرازی بھی۔ پھر ہم مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے پر فخر بھی کرتے ہیں۔ آپ ا کی شان میں کوئی بدبخت نازیبا الفاظ کہتا ہے تو ہم اس کی مذمت بھی کرتے ہیں اور ناموس رسالت کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کا مطلب یہی ہے کہ آپ کے اُسوہئ حسنہ کو اختیار کیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں میں سب سے افضل وہ ہے جسکی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں (صحیح بخاری)۔ آپ ا نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے معاذ(ص) روز قیامت لوگ اپنی زبان سے کاٹی ہوئی فصلوں کی بدولت ہی منہ کے بل‘ ناک کے بل جہنم میں جائیں گے۔ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے (ابن ماجہ)۔
زبان انسان کو دی ہوئی اللہ کی نعمتوں سے میں سے ایک عظیم ترین نعمت ہے جو قوت گویائی سے محروم ہے‘ اس میں اور بولنے کی صلاحیت رکھنے والے انسان میں کیا فرق ہوتا ہے یہ سبھی جانتے ہیں‘ حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے ”کیمیائے سعادت“ میں زبان کی آفات کے زیر عنوان اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ زبان عجائبات صفت الٰہی میں سے ہے۔ زبان عقل کی نائب ہوتی ہے۔ جو کچھ عقل اور وہم میں ہے‘ زبان اس کی تعبیر ہے۔ جب زبان سے بری بات نکلتی ہے تو دل تاریک ہوجاتا ہے اور جب حق بات کہتی ہے تو دل روشن ہوتا ہے۔ ایمان اس وقت تک درست نہیں‘ جب تک دل صاف نہیں۔ ارشاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جو کوئی خداوند تعالیٰ اور روزِ قیامت پر ایمان لایا اس سے کہہ دو کہ اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے۔ آپ ا نے یہ بھی فرمایا کہ آدمی کو زبان درازی سے بدتر کوئی چیز نہیں دی گئی۔ آپ ا کا ارشاد پاک ہے جو شخص مجھے دو چیزوں کی ضمانت دے میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ ایک زبان دوسری شرمگاہ۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں زبان سے زیادہ اور کوئی چیز قید کرنے کے لائق نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جتنی آفتیں، مصائب، انتشار ہیں‘ یہ سب محض زبان کی وجہ سے ہیں۔ اللہ رب العزت کا احسان اور کرم ہے کہ اس نے اپنے اچھے اور پیارے دین کی دولت سے نوازا۔ جس میں باہمی احترام کی تلقین کی گئی۔ آپس میں ایک دوسرے کی کردارکشی، لعن و طعن اور غیبت سے منع کیا گیا۔ کسی کا بھی مذاق اڑانے سے روکا گیا۔ دوسروں کو ہنسانے کے لئے لطیفہ گوئی یا ظرافت سے منع کیا گیا۔ آپ ا نے فرمایا خدا سے ڈرو! ظرافت نہ کرو اس سے دلوں میں کینہ پیدا ہوتاہے۔ اور ہم انتخابی جلسوں، مذہبی اجتماعات اور بعض اوقات مساجد کے منبروں سے ایک دوسرے کے خلاف زہر اُگلتے ہیں۔ دوسروں کو ہنسانے کے لئے من گڑھت باتیں کہتے ہیں۔ خود کو اچھا ثابت کرنے کے لئے دوسروں پر لعن و طعن کرتے ہیں‘ جبکہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے تباہی ہے ہر ا س شخص کے لئے جو لوگوں پر طعن اور پیٹ پیچھے برائیاں کرنے کا خوگر رکھتے ہیں۔ نہ صرف مسلمان بلکہ چرند پرند، کیڑوں مکوڑوں پر تک لعن و ملامت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت نعمان انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ شراب نوشی کے عادی تھے۔ صحابہ کرام انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت لائے اور پھر حضرت نعمان صکو جوتیوں سے مارا گیا ایک صحابی نے ان پر لعنت بھیجی تو آپ نے منع فرمایا اور کہا کہ نعمان (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اللہ اور اس کے رسول کو محبوب رکھتے ہیں۔
انتخابی جلسوں میں جس طرح سے مسلمان دوسرے مسلمان کے خلاف انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کررہے ہیں‘ اس سے خود ان کا اپنا امیج متاثر ہوتا ہے کیوں کہ تقاریر سننے کے لئے اکٹھا ہونے والوں میں بیشتر انہی سیاست دانوں یا مذہبی قائدین کے چاہنے والے اور ان کے ہم خیال ہوتے ہیں۔ چوں کہ ان کے پاس نہ تو وقت کی قدر و قیمت ہے نہ ہی خود اپنی اہمیت کا کوئی احساس۔ اکثر دوسروں کی برائی سن کر خوش ہوتے ہیں۔ یا پھر اپنے قائدین کا دل جیتنے کے لئے وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انہوں نے جو کچھ بھی اناپ شناپ بکا ہے‘ وہ بہت خوب ہے۔ وہ اس حقیقت کو بھول رہے ہیں کہ دوسری مسلمان کی کردارکشی یا اس پر لعن و طعن کرنے والے کے ساتھ ساتھ اس کی باتوں سے اتفاق کرکے نعرے لگانے والوں اور تالیاں بجانے والوں کی ہر بات ریکارڈ ہورہی ہے۔ جسے چاہتے ہوئے بھی روز محشر کوئی طاقت ڈیلیٹ نہیں کر پائے گی۔ غلط بات کہنے والا جتنا گنہگار ہے اس کی بات سن کر تالی بجانے والا یا ہنسنے والا بھی اتنا ہی گنہگار اور ذمہ دار ہے۔ ہم سب ان حقائق سے واقف ہیں‘ بچپن میں جو دینی تعلیم ہم نے حاصل کی اسے بھول جانے کا یہی نتیجہ ہے۔ زبان درازی، لن ترانی، فحش گوئی، جھوٹ یہ سب ناقابل معافی ہے۔ کیوں کہ آپ کی زبان کے نشتر سے دوسروں کے احساس جس طرح سے زخمی ہوتے ہیں وقت گزرنے کے بعد بھی یہ زخم کبھی مندمل نہیں ہوتے۔ انتخابی جلسوں یا مختلف مسالک کے دینی اجتماعات میں مقررین کسی کی برائی کئے بغیر بھی اپنی بات کہہ سکتے ہیں۔ اور ایسی ہی بات دل پر اثر کرتی ہے۔ چوں کہ جو دوسروں کے خلاف کہتا ہے سننے والے پر اس کا اثر ہونہ ہو وہ اس کی نظروں سے گرجاتا ہے۔ عام طور پر یہ کہا جانے لگا ہے کہ عوام کے مزاج کے حساب سے اس قسم کی تقریر کی جاتی ہے۔ کاش عوام کے مزاج اور ان کے معیار کی سطح تک نیچے اترنے کے بجائے عوام کے معیار ذوق کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔ ہمارے درمیان ایسے کئی مقررین خطباء موجود ہیں اور کچھ ہمارے درمیان نہیں رہے‘ ان کی زبان میں اس قدر تاثیر تھی جو لفظ نکلتا ہے سننے والے کے دل میں اُترجاتا۔ تبلیغی جماعت کے مولانا عابد خاں مرحوم‘ مولانا حمید الدین عاقل حسامیؒ، مولانا عبدالعزیز مرحوم جماعت اسلامی کو ہم نے سنا ہے اور اب بھی ہمارے درمیان ایسے کئی قائدین بھی ہیں اور خطباء بھی‘ جب وہ بات کرتے ہیں تو لفظ پھول بن کر جھڑتے ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ وہ کہتے جائیں ہم سنتے جائیں اور وقت کی رفتار تھم جائے۔ ہم نے بہادر یار جنگؒ کا دور تو نہیں دیکھا نہ ہی تقریر سنی مگر اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ جب وہ تقریر کرتے تو ہزاروں کے مجمع پر سکتہ طاری ہوجاتا۔ لوگ بُت بن کر سنتے۔ بہادر جنگ نے کبھی کوئی ناشائستہ غیر مہذب لفظ استعمال نہیں کیا۔ ایسی ہی تعریف ہم نے قائد محترم جناب سید خلیل اللہ حسینی بانی تعمیر ملت کی سنی ہے۔ یوں تو ہم ان کے شاگرد ہیں مگر یہ ان کا آخری دور تھا اور ان کی آواز اور قوت گویائی متاثر ہوگئی تھی۔ حیدرآباد کی تاریخ گواہ ہے کہ ایسی شخصیات نے ہی حیدرآبادی مسلمانوں کو عزت وقارسے جینے کا حوصلہ دیا۔ انہیں کسی کے خلاف زہر اُگلنے یا کسی پر لعن و طعن کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ کیوں کہ یہ سچے لوگ تھے۔ عشق رسول پاک سے سرشار تھے۔ خوف خدا تھا۔ جواب دہی کا احساس تھا۔ آج ہم دعوے تو بہت کرتے ہیں۔ ہمارے قول و فعل میں تضاد نظر آتے ہیں۔ مذہبی اور سیاسی قائدین قوم کے مصلح اور رہنما ہیں۔ اگر وہی غیر مہذب، ناشائستہ الفاظ اور لب و لہجہ کا استعمال کریں گے تو پھر نئی نسل بھی انہیں کے نقش قدم پر چلے گی۔ اور پھر ہم پر دہشت گرد، غیر مہذب، بدتمیز ہونے کا جو لیبل لگایا گیا ہے اس میں اور اضافہ ہوتا جائے گا۔
ہمارے قائدین قوم کے ترجمان ہیں۔ ان کا تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ مہذب ہونا ضروری ہے۔ آج کے سوشیل میڈیا کے دور میں جو تقاریر مختلف پلیٹ فارمس سے لائیو ٹیلی کاسٹ ہوتی ہے‘ اور گھر بیٹھے سنی جاتی ہے‘ تو اس کا منفی ا ثر سنجیدہ طبقہ پر ہوتا ہے۔ کوئی بھی سنجیدہ انسان کسی ایک کی زبان سے دوسرے کی برائی سننا نہیں چاہتا۔ البتہ نئی نسل اس تہذیب جو سیاسی اور مذہبی قائدین کی فالوورس ہیں‘ وہ اسے اختیار کرنے لگتی ہے۔ اس طرح ہم آنے والی نسلوں کو گمراہی کے راستے پر ڈھکیل رہے ہیں۔ سوشیل میڈیا نے پہلے ہی اخلاقی اقدار کو پامال کردیا ہے۔ رہی سہی کسر ناشائستہ الفاظ، غیر مہذب زبان پوری کردیتی ہے۔
سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ یہ انتخابی جلسے ایک ایسے وقت ہورہے ہیں جب فلسطین میں ہماری دینی بھائیوں پر اسلام دشمن طاقتیں قیامت ڈھا رہی ہیں۔ ہزاروں معصوم بچے خواتین اور مرد حضرات شہید ہورہے ہیں۔ اور ایک طرف ہم ظالم اسرائیل کو کوس رہے ہیں تو دوسری طرف اپنے ہی شہر میں اپنے دینی بھائیوں پر اپنی زبان اپنے الفاظ سے ایسا ہی ظلم ڈھارہے ہیں۔کبھی فرصت ملے تو ہم تنہائی میں بیٹھ کر اپنا جائزہ لیں، محاسبہ کریں، غور کریں کہ ہماری زبان سے نکلنے والے غلط الفاظ کی وجہ کیا ہے کہیں اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض تو نہیں‘ کیوں کہ جب وہ ناراض ہوتا ہے تو عقل کام نہیں کرتی۔ اور زبان اناپ شناپ بکنے لگتی ہے۔ اللہ راضی ا ور خوش ہو تو زبان سے اچھے کلمات نکلتے ہیں۔ کیوں نہ توبہ کریں۔ الیکشن میں کامیابی‘ ناکامی بھی اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اسے خوش کرکے حاصل کی جائے تو دنیا و آخرت سنوتی ہے۔ اگر اس کے احکام کے خلاف ورزی کرکے اس کی ناراضگی محض دنیاوی کامیابی کیلئے مول رہے ہیں تو پھر آخرت کا کیا ہوگا
ہم قیامت تک رہنے والے نہیں ہیں‘ نہ ہی ہماری جوانی سدابہار ہے‘ ہم نے کیسے کیسے سورماؤں، تیس مارخانوں، پہلوانوں اوردولت اور طاقت کے بل بوتے پر راج کرنے والوں کا آخری وقت دیکھا ہے۔جو کبھی شیر کی طرح دھاڑتے تھے‘ سسک سسک، بلک بلک کر دم توڑتے ہوئے نظر آئے۔ ہمیں بھی عبرت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ خدارا اپنی زبان کی حفاظت کیجئے۔ کسی پر تنقید نہیں‘ بلکہ ایک دینی بھائی کی حیثیت سے میں نے اپنا فریضہ ادا کیا ہے۔

About Gawah News Desk

Check Also

نئی نسل کی تباہی کے ذمہ دار کون؟

ماہِ مقدس رمضان المبارک سے متعلق موضوع پر کچھ لکھنے کا ارادہ تھا، مگر علماء …

عدلیہ‘ فوج‘ تعلیم اور میڈیا،بی جے پی کا سایہ

کولکتہ ہائی کورٹ کے جج ابھیجیت گنگوپادھیائے گنگولی نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دیا اور …

Leave a Reply