بلقیس بانو کیس کا سب سے چونکانے والا پہلو یہ تھا کہ جو سرکاری ایجنسیاں حکومت کی آلہ کار بنی ہوئی ہیں ان لوگوں نے بھی اپنی روایت سے ہٹ کر اور اپنے آپ کو خطرات میں ڈال کر حکومت کے منشاء اور رہائی کی مخالفت کی تھی۔ صوبائی حکومت کی دستاویزات میں کہا گیا ہے انڈیا کی داخلی تفتیشی ادارے سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) نے اس سے ایک سال قبل ہی قیدیوں کی رہائی کی مخالفت کی تھی۔اس کے علاوہ پولیس، سول جج اور سیشن کورٹ نے بھی اس رہائی کی مخالفت کی تھی۔ ان لوگوں کا اس امر پر اتفاق تھا کہ یہ افراد ’گھناؤنے، سنگین اور بدترین‘ جرائم میں ملوث پائے گئے تھے۔ایک خصوصی عدالت کے جج نے یہاں تک کہا تھا کہ یہ نفرت پر مبنی جرم کی بدترین شکل ہے۔ اس معاملے میں چھوٹے بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ اس کے باوجودمرکزی حکومت نے نہ صرف رہائی پر اصرار کیا بلکہ ریاستی حکومت کی طرف سے مجرموں کو رہا کرنے کی درخواست کو اگلے انتخاب میں اس کا فائدہ اٹھانے کی خاطر مرکزی وزارت داخلہ نے دو ہفتوں کے اندر منظور کر لیا تھا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے اس عارضی کا میابی پر ایسا بدنما داغ لگا دیا ہے کہ جو تا قیامت نہیں مٹ سکے گا۔
جسٹس ناگارتھنا نے کہا کہ سزا اس لیے دی جاتی ہے تاکہ مستقبل میں جرائم کو روکا جا سکے۔ مجرم کو سدھارنے کا موقع دیا جاتا ہے لیکن مظلوم کے دکھ کا بھی احساس ہونا چاہیے۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو دوسروں کو دکھ دے کر خوش ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا 13 مئی 2022 کو سپریم کورٹ میں گجرات حکومت نے حقائق کو چھپانے کا جرم کیا تھا۔ یہ دھوکہ دہی کا عمل ہے۔ ہائی کورٹ اور لوئر کورٹ نے مجرموں کی رہائی کے خلاف جو تبصرے کیے گئے انہیں بھی چھپایاگیا۔ یہ پورا معاملہ گجرات حکومت کے دائرہ اختیار میں ہی نہیں تھا۔ اس لیے سپریم کورٹ نے تمام 11 قصورواروں کی جلد رہائی کے فیصلے کو اور گجرات حکومت کا حکم منسوخ کردیا۔
جسٹس ناگارتھنا نے یہ بھی کہا کہ ہر عورت عزت کی مستحق ہے۔ خواہ وہ معاشرے میں کتنی ہی اونچی یا نیچی کیوں نہ ہو۔ گجرات میں چونکہ مرکزکی کٹھ پتلی حکومت ہے اس لیے یہ ریاستی حکومت کی نہیں بلکہ مرکزی حکومت کی رسوائی ہے۔ اس فیصلے کے بعد اگر زعفرانیوں میں ذرہ برابر غیرت ہوتی تو وہ چلو بھر پانی میں ڈوب مرتے مگر اقتدار کے ان حریصوں کا عزت و وقار کوئی سروکار نہیں ہے اس لیے سب کے سب کرسی سے چپکے ہوئے ہیں حالانکہ بلقیس بانو نامی ایک عظیم خاتون نے انہیں ذلت و رسوائی کی گہری کھائی میں ڈھکیل دیا ہے؟ اب اس میں سے نکلنے کی خاطر امارات کے صدر اور مسلم پولیس افسر کے ساتھ روڈ شو کا تماشا کیا جارہا ہے مگر وہ کسی کام نہیں آئیگا۔ ذلت کا یہ کلنک مٹنے نہیں پائے گا۔
٭٭٭٭٭٭

About Gawah News Desk

Check Also

دو نابالغ بھائیوں کاقاتل ملزم واقعہ کے صرف دو گھنٹے بعد ہی انکاؤنٹر میں ہلاک

اتر پردیش کے بداویوں ضلع میں دو کمسن بھائیوں کے قتل اور پھر مبینہ پولیس …

ڈاکٹر محمد خواجہ مخدوم محی الدین

انچار ج صدر شعبہ اُردو ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اوپن یونیورسٹی ڈاکٹر محمد خواجہ مخدوم …

Leave a Reply