Thursday , May 2 2024
enhindiurdu

کیا عمران خان ہندو پاک دوستی کی نئی تاریخ رقم کرینگے؟

عبدالعزیز۔

9831439068

tعجیب اتفاق ہے کہ اٹل بہاری واجپئی اور کلدیپ نیئر دونوں نے ایک دوسرے کے بعد ایک ہفتہ کے اندر دنیائے فانی سے کوچ کیا۔ دونوں کی آخری رسومات کے بیچ میں عمران خان کی حکومت کا پاکستان میں جنم ہوا۔ جب واجپئی آخری سانس لے رہے تھے تو عمران خان حلف وفاداری کی رسم ادا کر رہے تھے‘ یہ تین واقعات بے جوڑ سے ہیں مگر کچھ باتیں جو ان تینوں سے ملتی جلتی ہیں وہ قابل بیان ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ہندوپاکستان کے تعلقات کے بارے میں تو ان دونوں کا لنک (تعلق) نظر آتا ہے۔ تو واجپئی اور کلدیپ نیز دونوں ہندستان اور پاکستان کی تقسیم اور دشمنی کو قصہ پارینہ سمجھتے تھے اور دونوں ملکوں میں خوشگوار تعلقات کے خواہاں تھے اور اس کیلئے کوشاں بھی رہتے تھے۔ عمران خان بھی وزیر اعظم ہونے کے فوراً بعد جو اعلان و اظہار کیا اس سے انھوں نے بھی ماضی کی داستان کونہیں دہرایا۔ بات مستقبل کی کہ دونوں ملکوں میں امن امان رہے اور خوشگوار تعلقات میں کوئی رکاوٹ یا اڑچن پیدا نہ ہو۔ ان تین شخصیتوں میں جو جوڑ اور نسبت نظر آتی ہے اسے میں قلمبند کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ تینوں شخصیتوں کی کوششوں کا عکس دیگر افراد میں بھی دیکھ سکیں اور محسوس کرسکیں۔

میرا اتفاق سے تینوں شخصیتوں سے تعلق تھا۔ میرے والد محترم حکومت کے سکریٹری خارجہ تھے جب اٹل بہاری واجپئی حکومت ہند کے وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ کلدیپ نیئر اور عمران سے میرا براہ راست تعلق تھا۔ میں کلدیپ نیئر کا خصوصی معاون تھا۔ جب 1977ء میں وہ ایمرجنسی پر ایک کتاب لکھ رہے تھے اور میں انگلینڈ کی یونیورسٹی میں عمران کا ہم جماعت تھا۔ میرا عمران سے ذاتی تعلق تھا۔ انڈیا ۔پاکستان کی سیاست سے اس کا کوئی لینا دینا نہ تھا۔ 1977ء میں میرے والد محترم اٹل جی کے ساتھ پاکستان کے دورے میں شامل تھے۔ اٹل جی چند ہی مہینہ پہلے جنتا پارٹی کی حکومت میں وزیر خارجہ مقرر ہوئے تھے۔ میرے والد نے واپسی پر مجھے تفصیل سے بتایا کہ اٹل جی نے پاکستان میں اپنی گفتگوؤں اور تقریروں سے وہاں کے عوام و خواص کا دل کس طرح جیت لیا، اس دورہ کا ذکر مختلف کتابوں میں درج ہے۔ میرے والد کی سوانحات میں بھی اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔ جو سب سے اہم اور ضروری بات ہے وہ یہ ہے کہ کس طرح اٹل جی نے پریس کے نمائندوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا۔ وہ اٹل جی جو جن سنگھ کی طرف اپوزیشن لیڈر رہ چکے تھے اور کھنڈ بھارت کی بات کرتے تھے اور شملہ معاہدہ کی مخالفت میں بڑا مظاہرہ کیا تھا۔ پہلے اٹل جی نے ہندستان اور پاکستان کے تعلقات میں پیچیدگیوں کا ذکر کیا پھر ہندستان اور پاکستان کے بہتر تعلقات کی بات کی اور پاکستان دشمنی کو سرے سے چھیڑا ہی نہیں بلکہ اسے دوستی میں تبدیل کرنے کا ذکر بار بار کرتے رہے اور اپنی سیکولر امیج کو ظاہر کرنے کیلئے مسجد، مندر اور گرو دوارے میں گئے۔

انکے اعزاز میں ایک استقبالیہ جلسہ ہوا جس میں وزیر خارجہ پاکستان آغا شاہی نے خوبصورت اردو میں اپنی متاثر کن تقریر کی۔ اٹل جی ایک طرح سے اپنے حلیفوں سے خطرہ مول رہے تھے کہ وہ جب ہندستان میں پہنچیں گے تو ان پر تنقید اور تنقیص کی بوچھار شروع ہوجائیگی۔ دورہ بڑا مثبت اور نتیجہ خیز رہا۔ کرکٹ کھیلنے کے معاہدہ پر دستخط ہوا وہ بھی اٹھارہ سال بعد۔ کراچی اور بمبئی میں کونسلیٹ کھولنے کا فیصلہ کیا گیا جو 1971ء میں جنگ کے بعد بند کر دیا گیا تھا۔چناب ندی پر ہائیڈرو الیکٹریکل ڈیم بنانے کا معاہدہ ہوا۔ کلدیپ نیئر ان میں سے تھے جنھوں نے تقسیم کی مشکلات اور مصائب کو ذاتی طور پر جھیلا تھا۔ ان کا خاندان سیالکوٹ سے اجاڑ دیا گیا تھا اور وہ ہندستان ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔ بہت سے لوگ جو اس راستہ سے گزرے وہ اپنے دکھ درد کو نہیں بھول سکے اور نہ ہی معافی تلافی کے قائل ہوئے مگر کلدیپ نیئر ان میں سے تھے کہ جنھوں نے خوشی خوشی اس زہر کو پی لیا اور سب کچھ بھلا دیا اور دونوں ملکوں کے رشتے اور تعلق کیلئے زندگی کی آخری سانس تک کوشاں رہے۔ انھوں نے تعلق کی بہتری کیلئے اپنے قلم کی پوری طاقت لگا دی۔ اور ہر سال موم بتی لے کر 14/15 اگست کو واگھا لینڈ بارڈر پر بغیر ناغہ کے جاتے تھے اور ہندوستان وپاکستان کی دوستی زندہ آباد کا نعرہ بلند کرتے تھے۔ 1992ء میں انھوں نے آصف نورانی سے مل کر مشترکہ طور پر دو شہروں کی کہانی لکھی۔ وہ دونوں ملکوں میں خوشگوار رشتہ کے بہت بڑے علمبردار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سرحد پار بھی کلدیپ نیئر کے تعزیتی جلسے ہوئے اور ان کی ہندو پاک دوستی کو سراہا گیا۔ اٹل جی کی طرح کلدیپ نیئر نے بھی ماضی پرستی کو نظر انداز کیا جبکہ انھوں نے اپنی آنکھوں سے دونوں ملکوں کی پیدائش اور دشمنی اور خون خرابہ کو دیکھا تھا مگر دوستی اور تعاون ہی کی بات کرتے تھے۔

عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے اور اپنے سر پر ماضی کے رشتوں کا بوجھ لئے ہوئے ہیں اور مختلف حلقہ ہائے زندگی کا ان پر دباؤ ہے۔ پہلے کرکٹ کا پھر ایک سیاستداں کا بغیر کسی شک و شبہ کے کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے وہ کلدیپ نیئر کی بازگشت ثابت ہوئے سب کو معلوم ہے کہ گزشتہ چالیس سال سے ان کا ہندوستان سے رشتہ رہا۔ ایک بڑے کھلاڑی کی حیثیت سے جانتے ہیں کہ جو کچھ کھیل کے میدان میں واقعہ رونما ہوتا ہے وہ اس لائق نہیں ہوتا ہے کہ اسے دل کے کسی کونے میں محفوظ کرلیا جائے بلکہ اسے فراموش کرنا ہی اچھا ہوتا ہے۔ حریفانہ جذبہ کھلاڑی کیلئے سم قاتل ہوتا ہے۔ عمران خان نے اپنی پارٹی کی جیت کے بعد فوراً جو تقریر کی وہ ایک یادگار تقریر کہی جاسکتی ہے۔ انھوں نے کہاکہ ’’اگر ہندستان ایک قدم دوستی کیلئے ہاتھ بڑھاتا ہے تو وہ دو قدم بڑھائیں گے۔ ہمارے بہت سے پریس والے بھائی اسے بالکل مذاق کے طور پر لیں گے مگر میں مذاق نہیں کر رہا ہوں بلکہ دل کی گہرائیوں سے بول رہا ہوں اور اس پر عمل کرکے دکھاؤں گا‘‘ ۔ عمران بھی ماضی کے واقعہ کو داستان پارینہ سمجھتے ہیں۔

تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ شک و شبہ، خلل دماغی اور تصادم اس کا سبب ہوتا ہے۔ اسرائیل اور فلسطین اور سرد جنگ دو بڑی مثالیں ہیں، لیکن تاریخ میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ قیادت، ہمت اور ویژن نے کئی دفعہ کئی ملکوں کے درمیان نقشہ بھی بدل کر رکھا دیا۔ اٹل جی اور کلدیپ نیئر نے اپنے زمانے میں کیسے اپنی قیادت کی صفات کا غیر معمولی مظاہرہ کیا۔ مجھے معلوم ہے کہ عمران میں ایسی صفات موجود ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ عمران ایک حد تک وہ سارے ممکنات کی تلاش کرینگے جن سے دونوں ممالک میں خوشگوار تعلقات پیدا ہوسکتے ہیں۔

تبصرہ: وکرم ایس مہتا نے اپنے پُر مغز اور پر اثر مضمون میں

About TheTeam

Check Also

دو نابالغ بھائیوں کاقاتل ملزم واقعہ کے صرف دو گھنٹے بعد ہی انکاؤنٹر میں ہلاک

اتر پردیش کے بداویوں ضلع میں دو کمسن بھائیوں کے قتل اور پھر مبینہ پولیس …

ڈاکٹر محمد خواجہ مخدوم محی الدین

انچار ج صدر شعبہ اُردو ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اوپن یونیورسٹی ڈاکٹر محمد خواجہ مخدوم …

Leave a Reply