ملک کے عوام کو مودی نے دوگروہوں میں تقسیم کردیاتقسیمِ ہند، قتلِ گاندھی، انہدامِ بابری مسجد کے بعد یہ سب سے بڑا سانحہ ہے

عبدالعزیز۔9831439068

کسی ملک میں شہریوں کی تقسیم و تفریق ایک ایسا سانحہ ہے جو تمام چھوٹے بڑے سانحات سے بڑا کہا جاسکتا ہے۔ ہر سانحہ جو ہوتا ہے آہستہ آہستہ اس کا غم یا اس کا زخم مندمل ہوجاتا ہے، لیکن اگر انسانوں میں تقسیم و تفریق پیدا ہوتی ہے تو یہ انسانوں کے لئے ایسا نقصان اور ایسا سانحہ ہے جو ملک اور قوم کو تباہ و برباد کردیتی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے ہندستان میں انسانوں کی تفریق اور تقسیم کی شروعات کو اپنی نظروں سے دیکھا تھا اور اپنی دوربین نظروں سے یہ بھی دیکھا تھا کہ ملک جن مسائل سے دوچار ہے اس سے بڑے مصائب سے ملک دوچار ہونے والا ہے۔ اسی لئے ملک کے باشندوں کو انھوں نے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ؎
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستان والو!
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں
مسٹر نریندر مودی کے مرکز میں اقتدار سنبھالنے سے پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ ملک میں بڑے سنگین واقعات رونما ہوئے ہیں جس سے ملک کی صورت و شکل بہت حد تک بدل گئی ہے۔ پہلا واقعہ تقسیم ہند کا تھا۔ اس واقعہ سے فرقہ پرستوں کی جو ٹولی تھی وہ ہندو مسلم اتحاد کو تار تار کرنے کے لئے سرگرم عمل ہوگئی۔ ان کی راہ میں ایک بڑا روڑہ گاندھی جی تھے جو ہندو مسلم اتحاد کے روحِ رواں تھے۔ یہ چیز فرقہ پرستوں کی آنکھ میں کھٹکتی تھی۔ اس روڑہ کو ہٹانے کے لئے فرقہ پرست ٹولی کے ایک فرد ناتھو رام گوڈسے نے گاندھی جی کو قتل کردیا۔ یہ ملک کا دوسرا بڑا سانحہ تھا۔ تیسرا بڑا سانحہ بابری مسجد کا انہدام تھا۔ اس سے بھی ملک دو حصوں میں تقسیم ہوا۔ فرقہ پرستوں کی مدر تنظیم ’آر ایس ایس‘ ملک کو دوبارہ دو حصوں میں تقسیم کرنے میں کامیاب ہوئی۔ آر ایس ایس کو اس تقسیم سے فائدہ ہوتا چلا گیا۔ بالآخر آر ایس ایس اپنی سیاسی تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی کو اقتدار کی کرسی تک پہنچانے میں اپنے منصوبے کے تحت کامیاب ہوگئی۔ 2014ء میں نریندر مودی ملک کے وزیر اعظم ہوگئے۔ اگرچہ وہ جمہوریت کے راستے سے اقتدار کی کرسی تک پہنچے تھے لیکن پہنچتے ہی وہ آمریت کے قیام اور جمہوریت کے خاتمے کی کوشش کرنے لگے۔ حالانکہ وہ جمہوریت اور سیکولرزم کی بقا کی قسم کھاکر اقتدار کی کرسی پر بیٹھے تھے مگر انھوں نے نہ اپنے قسم کا خیال کیا نہ اپنے وعدے کا پاس رکھا۔ عدالتِ عظمیٰ جو دستور کا تحفظ اور نگرانی کرتی ہے وہ بھی تحفظ و نگرانی کرنے سے قاصر رہی۔ مودی جی کا آمریت کا راستہ ہموار ہوتا گیا۔ عدالت نے بابری مسجد کی ملکیت کا ایسا حیرت انگیز اور تعجب خیز فیصلہ کیا جو کسی سانحہ سے کم نہیں تھا۔ جن لوگوں نے ہر طرح کا جھوٹ بولا، جرم کیا انھیں سزا دینے کے بجائے عدالت نے بطور انعام بابری مسجد کی زمین سونپ دی۔ عدالت نے وزیر اعظم کو حق دے دیا کہ وہ ایک ٹرسٹ بنائیں اور زمین ٹرسٹ کے حوالے کردیں اور اس زمین پر رام مندر جیسا چاہیں تعمیر کریں۔ نریندر مودی کو ایک طرح سے سپریم کورٹ نے موقع دے دیا کہ وہ اپنے سیاسی فائدے کے لئے ملک کو جس طرح چاہیں پولرائز کریں۔ مودی جی اور ان کی فرقہ پرست جماعت سپریم کورٹ کے فیصلے سے بیحد خوش ہوئی۔
یہ فیصلہ اگرچہ 9 نومبر 2019ء میں ہوا مگر اس فیصلے سے مودی جی نے طے کرلیا کہ 2024ء کے جنرل الیکشن میں فائدہ اٹھایا جائے اور بڑے پیمانے پر ہندو مسلم کی ایسی تقسیم کردی جائے کہ ہندوؤں کا سارا ووٹ ان کے حق میں پڑیں اور وہ تیسری بار وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھ سکیں۔ اپنے اس خواب کو پورا کرنے کے لئے ملک کے عوام اور شہریوں کو تقسیم کرنے کے لئے کئی منصوبے ترتیب دیئے اور آج کے دن یعنی22جنوری 2024ء کو رام مندر میں مورتی نصب کرنے کا پروگرام بنایا گیا۔ کونے کونے سے ملک کے اچھے برے لوگوں کو اس پروگرام میں شرکت کرنے کی دعوت دی گئی اور کہا گیا کہ جو لوگ 22جنوری کو نہ آسکیں وہ اپنے گھروں میں چراغاں کریں، دیوالی منائیں اور شری رام کی جئے جئے کار کریں۔ ہندو مسلمان کی تقسیم کے لئے آج ہر قسم کا جتن مرکزی حکومت کر رہی ہے۔ تمام اخبارات میں پروگرام کا اشتہار ہے۔ ملک کے تمام مندروں کا سجایا گیا ہے۔ بس، ٹرین اور جہاز کی آسانیاں فراہم کی گئی ہیں۔ مرکزی حکومت نے چھٹی کا بھی اعلان کیا ہے۔ ان ساری سرگرمیوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ ہندو مسلم کی تقسیم ہو اور جنرل الیکشن میں بی جے پی کو غیر معمولی فائدہ ہو۔ جنرل الیکشن میں اس کا فائدہ ہوگا یا نہیں ہوگا یہ تو نہیں کہا جاسکتا ہے لیکن مودی جی نے ملک میں دستور اور قانون کی حکمرانی بہت حد تک ختم کردی ہے۔ حکومت کو غیر سیکولر حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ دستور کو عملاً بدل چکے ہیں اور کاغذ پر بدلنے کے لئے کوشاں ہیں۔
بنگال کے ایک بڑے ماہر تعلیم مسٹر مراتن نہار نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”سیکولر اور ڈیموکریسی دستور کی دو اہم اصطلاحیں ہیں جن سے ہماری قوم کے کردار اور تصویر اجاگر ہوتی ہیں۔ اس کردار سے ملک اور قوم کی بلندی ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ ملک کا اور قوم کا کردار مرکز کی حکمرانی کرنے والی جماعت ختم کر رہی ہے۔ اور میں سوچ سمجھ کر کہہ رہا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ اس کی وجہ سے اس وقت ملک میں کوئی حکومت نہیں ہے جو سیکولر اور جمہوری بنیادوں پر قائم ہو۔ حکمراں جماعت نے ملک کا سر شرم سے جھکا دیا ہے نام نہاد مذہب کے نام پر۔ نہ تو مرکز میں ایسی کوئی حکومت ہے اور نہ ریاست میں کوئی حکومت ہے جو جمہوریت اور سیکولرزم کی بنیاد پر قائم ہو اور ملک اور ریاست کی ترقی کے لئے رہنمائی کر رہی ہو۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ ریاست کی بھی حکمراں جماعت مرکز کی حکومت کے غیر سیکولر اور غیر جمہوری عمل کی وجہ سے وہ بھی غیر سیکولر اور غیر جمہوری راستے پر رواں دواں ہے“۔
مغربی بنگال کے تھیٹر ڈائرکٹر اور ایکٹر کوشک سین نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”میں پورا یقین رکھتا ہوں کہ مذہبی عمل اور یقین ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے،اس کا احترام سب کو کرنا چاہئے لیکن جب کوئی حکومت اپنی مشنری کو انتخابی فائدے کے لئے مذہب کا استعمال کرتی ہے تو وہ خطرے کی علامت ہوتی ہے اور اس سے فسطائیت کی راہم ہموار ہوتی ہے“۔ فلم میکر اور تھیٹر ڈائرکٹر سومن مکھو پادھیائے نے کہا ہے کہ ”جو کچھ ملک میں کیا جارہا ہے وہ دستور کے خلاف ہے۔ اس سے سیکولرزم ایک بے معنی لفظ بنتا جارہا ہے۔ ہندستان دن بدن تباہی کی طرف جارہا ہے۔ سرکاری مشنری کے تمام اجزا اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن، سوشل میڈیا سب کی کوشش ہے کہ ہندوتو کو قائم کرنے کی۔ یہ ٹھیک اسی طرح ہے جس طرح بابری مسجد کو منہدم کیا گیا اسی طرح کے حالات پیدا کئے جارہے ہیں جو انتہائی خطرناک اور خوفناک حالات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ پروفیسر سوگتا بوس نے جو ایک تاریخ داں، سرت چندر بوس کے پوتے اور نیتا جی سبھاش چندر بوس کے بھتیجے ہیں کہا ہے کہ ”22جنوری کو حکومت کا ایک ایسا فیصلہ کن قدم ہے جس سے ہندستان کی ریپبلک کو بالکل مذہبی آمریت میں تبدیل کردیا جارہا ہے اور نوآبادیاتی دستور اور آمریت کی طرف دھکیل دیا جارہا ہے جو جمہوریت کے لئے بہت زبردست نظریاتی چیلنج بنتا جارہا ہے جس سے ملک کی وفاقیت، مساوات اور مذہبی ہم آہنگی کا خاتمہ ہونے جارہا ہے“۔
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس اشوک کمار گنگولی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”ہمارے دستور میں سیکولرزم کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ سپریم کورٹ کہہ چکا ہے کہ یہ دستور کا بنیادی اصول ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ دستور کی روح ہے۔ میرے نقطہ نظر سے اگر ملک سیکولر نہیں ہے تو یہ جمہوری بھی نہیں ہوسکتا اور اس سے سوسائٹی بھی عدم مساوات کا شکار ہوسکتی ہے اور جمہوریت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ سکتی ہے۔ جمہوریت دستور کا وہ جز ہے جسے کوئی حکومت نظر انداز نہیں کرسکتی ہے۔ اس وقت دستور کو نظر انداز کرکے مکمل طور پر حکومت سارا کام انجام دے رہی ہے۔ حکومت کو سارے مذاہب کا یکساں احترام کرنا چاہئے۔ کسی بھی ایک خاص مذہب کے مندر کے افتتاحی پروگرام سے اس کا تعلق ہر گز نہیں ہونا چاہئے۔ مجھے یہ سن کر بیحد افسوس ہوا کہ مرکزی حکومت مندر کے افتتاحی پروگرام کے دن چھٹی کا اعلان کیا ہے۔ ایک شہری ہونے کے ناطے میں دستوری قدروں اور اس کے کردار پر یقین رکھتا ہوں۔ میں اس کی حمایت ہر گز نہیں کرسکتا۔ میں اس کے خلاف اپنی آواز احتجاجاً بلند کرتا ہوں“۔
مغربی بنگال کے پانچ اہم دانشوروں کے بیانات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور سب کا خیال یہ ہے کہ نریندر مودی نے عملاً دستور کو بالکل بدل دیا ہے۔ دستور کا حلف لینے کے باوجود اپنے کردار اور عمل سے دستور کی پابندی سے مکمل گریز کر رہے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ بھی جو دستور کی کسٹوڈین ہے وہ بھی نوٹس لینے سے قاصر ہے۔ اور جو لوگ دستور کا دروازہ اس معاملے میں کھٹکھٹانے کی کوشش کر رہے ہیں ان کی بھی شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔
2024ء کا الیکشن ہر لحاظ سے اہم ہے۔ مودی جی نے سرکاری ایجنسیوں کو بھی اپنے کنٹرول میں کرلیا ہے۔ میڈیا پر بھی قابو پالیا ہے۔ یہاں تک کہ الیکشن کمیشن کو بھی اپنی ماتحتی میں کرلیا ہے۔ اب کوئی ایسا سرکاری ادارہ نہیں ہے جو خود مختار ہو۔ مودی جی جمہوریت کے راستے سے آئے تھے اور آمریت کے راستے پر گامزن ہیں۔ ایسی صورت میں کہا جارہا ہے کہ اگر وہ تیسری بار آگئے تو دستور کو جو عملاً بدل چکے ہیں دستور کو کاغذ پر بھی بدل دیں گے اور آئندہ الیکشن بھی شاید نہ ہو۔ ایسی حالت میں ملک کے انصاف پسند، جمہوریت نواز افراد کو آگے آنا چاہئے۔ حالات کو بدلنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے تاکہ جمہوریت باقی رہے اور قانون کی حکمرانی بحال ہوجائے۔

About Gawah News Desk

Check Also

دو نابالغ بھائیوں کاقاتل ملزم واقعہ کے صرف دو گھنٹے بعد ہی انکاؤنٹر میں ہلاک

اتر پردیش کے بداویوں ضلع میں دو کمسن بھائیوں کے قتل اور پھر مبینہ پولیس …

ڈاکٹر محمد خواجہ مخدوم محی الدین

انچار ج صدر شعبہ اُردو ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اوپن یونیورسٹی ڈاکٹر محمد خواجہ مخدوم …

Leave a Reply