دوسروں کو بے سکون کرنے والا کبھی سکون نہیں پاسکتا..

سخت قوانین کے انتباہ‘ وزیر اعظم سے لے کر ہر سطح کے مذہبی، سیاسی قائدین کے مذمتی بیانات کے باوجود لنچنگ یا ہجومی تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ راجستھان کے الوار میں سیاسی پشت پناہی کے حامل غنڈوں نے تاریخ دوہرائی۔ اکبر کو شہید کیا اور اسے الگ رنگ دینے کے لئے متضاد بیانات کا سلسلہ شروع کیا۔ کبھی کہا گیا کہ ہجوم کے تشدد میں جن کا تعلق مقامی بی جے پی ایم ایل اے سے ہے‘ اکبر کی موت واقع ہوئی جبکہ اس ایم ایل اے کا یہ دعویٰ ہے کہ جس وقت پولیس اکبر کو اپنے ساتھ لے گئی تھی اُس وقت اس کی حالت اتنی خراب نہیں تھی۔ پولیس زخمی کو بجائے ہاسپٹل لے جانے کے تین چار گھنٹے تک گھماتی پھراتی رہی بلکہ یہ بھی اندیشہ ہے کہ پولیس اسٹیشن میں بھی اُسے مارا پیٹا گیا۔

پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق اکبر کے جسم پر چوٹ کے پندرہ نشان پائے گئے اس کی کئی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں‘ جس سے پھیپھڑے زخمی ہوگئے تھے۔ اب یہ تحقیق کی جارہی ہے کہ اکبر کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟ دونوں ہی ہیں‘ پولیس بھی اور بی جے پی ایم ایل اے کے پالتو درندے۔ اور وہ دیش دشمن بھی جو مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہیں‘ جن کے زہریلے اور اشتعال انگیز بیانات سے غنڈے قاتل بن رہے ہیں اور قاتل کو قومی ہیرو کا درجہ دیا جارہا ہے۔ فرقہ پرست جماعتوں کے پالتو وہ ٹی وی چیانلس کے اینکرس بھی ہیں‘ جو ڈھکے چھپے الفاظ میں اس قسم کے واقعات کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ جو ایک طرف لنچنگ پر تشویش بھی ظاہر کرتے ہیں‘ ساتھ ہی لنچنگ کی وجوہات بیان کرتے ہوئے غیر محسوس طریقہ سے خاطیوں اور قاتلوں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔

حالیہ عرصہ کے دوران ہجومی تشدد کا رواج چل پڑا ہے۔ اب تو بچہ چوری، لو جہاد اور گؤ کشی یا گؤ کی فروخت و منتقلی کے نام پر بھی علی الاعلان مردوں اور عورتوں کو مارا پیٹا جارہا ہے اور باقاعدہ ویڈیو گرافی کی جارہی ہے‘ انہیں سوشیل میڈیا کے ذریعہ عام کیا جارہا ہے کیوں کہ انہیں یقین ہے کہ انہیں کوئی نقصان ہونے والا نہیں ہے۔ وہ گرفتار بھی ہوتے ہیں‘ جیل بھی جاتے ہیں تو انہیں وہ تمام سہولتیں مل جائیں گی جو جیل سے باہر رہتے ہوئے بھی انہیں مل سکتی ہیں۔ بلکہ جیل کی چار دیواری میں وہ دوسرے فرقوں کی انتقامی کاروائی سے محفوظ ہیں۔ ایک طرح سے انہیں تحفظ فراہم کیا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہجومی تشدد اب ایک فیشن بن گیا ہے۔ روش کمار نے این ڈی ٹی وی کے پرائم ٹائم شو میں یہ انکشاف کیا ہے کہ ہجومی تشدد کے واقعات میں اضافہ بلکہ 98فیصد 2014کے بعد پیش آئے ہیں اس سے پہلے اکا دُکا واقعہ پیش آیا کرتے تھے۔

اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو ہجومی تشدد کے تانے بانے 2002ء سے بھی ملت ہیں۔ گجرات میں بھی ہجومی تشدد ہی تھا۔ بی جے پی، سنگھ پریوار اور ان کے ساتھ کانگریس سے تعلق رکھنے والے کارپوریٹر ارکان نے بھی گلبرگ سوسائٹی پر حملہ کیا، مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ مسلم محلوں میں خطرناک ہتھیاروں کے ساتھ دندناتے پھرے۔ پولیس پروٹیکشن میں عورتوں اور لڑکیوں کو اٹھایا۔ ان کی آبروریزی کی۔ معصوم بچوں کو جلتے ہوئے مکانات میں پھینکا گیا۔ ان کے پیٹ چیر دےئے گئے۔ مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی اور بارہ برس بعد یہی ہجومی تشدد پورے ملک میں پھیل گیا۔ کیوں اس کا جواب ہر ایک کے پاس ہے۔ ایک فرقہ کو نفسیاتی طور پر خوفزدہ کیا جارہا ہے مگر یہ احمق مسلمانوں کی تاریخ سے واقف نہیں ہے‘ ہر دور میں ان پر اس قسم کے یا اس سے بھی کہیں زیادہ خطرناک قسم کے مظالم ڈھائے گئے۔ بار بار ان کی نسل کشی کی گئی مگر مسلمانوں کا قاتل باربار اپنے آپ سے یہ سوال کرتے تھے ع

کیا بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہے ان کی !
یہ درندے بھی بہت جلد اپنے کئے کی سزا پائیں گے۔ کیوں کہ ظلم کی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔ ہر ظالم کا انجام عبرتناک ہی ہوا ہے۔

مسلمانوں کے خلاف ہجومی تشدد ہندوستان میں بھی ہے‘ مغربی ممالک میں بھی ہے‘ چین میں بھی ہے‘ چیچنیا میں بھی۔ اور ہر جگہ انشاء اللہ مسلمانوں کو ان کے صبر کا پھل ملے گا اور ان کے دشمنوں اور قاتلوں کو ان کے جبر کی سزا بھگتنی ہوگی۔ اور یہ اُسی وقت ہوگا جب مسلمان خواب غفلت سے جاگے گا۔ تمام مسلمان ایک جسم کے مانند ہیں۔ حدیث شریف کی روشنی میں جب ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورے جسم کو اس کا احساس ہوتا ہے‘ چوں کہ آج کا مسلمان بے حس ہوچکا ہے‘ ایک طرف یہ کٹ رہا ہے، یہ مررہا ہے دوسری طرف یہ بے حس مسلمان سوشیل میڈیا پر ان واقعات کی ویڈیو کلیپنگس ایک دلچسپ فلم یا خوفناک ٹی وی سیریل کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ ایک طرف مسلمان رسوا ہورہا ہے دوسری طرف مسلمانوں کی نئی نسل اپنے بزرگوں کے زیر سایہ مختلف تقاریب میں فحش، مخرب اخلاق ناچ گانے دیکھنے میں مصروف ہیں۔ سوشیل میڈیا میں کھوئی ہوئی اس قوم کو تخیلاتی دنیا سے باہر نکالنے کی ضرورت ہے۔ جس دن انہیں اپنے دینی بھائیوں کے دکھ درد کا احساس ہوگا‘ جس دن ان کی قتل و غارت گری پر ان کا دل تڑپے گا‘ جس دن بیواؤں کی آہ و بکا اور یتیموں کی بلبلاہٹ سے ان کے دل تڑپیں گے اور آنکھیں نم ہوں گی اُس دن سے ایک ذہنی اور فکری انقلاب پیدا ہوگا۔ اور پھر اسلام دشمن طاقتوں کو پناہ کی ضرورت محسوس ہوگی۔ وہ دن آئے انشاء اللہ۔

لنچنگ محض شہر کی سڑکوں یا دیہاتوں کے کھیتوں اور پگڈنڈیوں تک محدود نہیں رہی‘ بلکہ اب یہ ہر شعبہ حیات میں عام ہونے لگی ہے۔ آج سے نہیں بلکہ صدیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے‘ 1857ء کے غدر میں بھی تو حرامی انگریزوں کی لنچنگ کے شکار مسلمان ہی ہوئے تھے۔تقسیم وطن کے بعد ہر دو طرف ایسے واقعات ہوئے اور اس کے بعد سے لے کر آج تک 70برس کے دوران ہجومی تشدد کہاں نہیں‘ کونسا شہر بچ ہوا ہے؟ کہیں مذہب کے نام پر دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے غنڈوں نے سیاسی غنڈوں کی سرپرستی میں کہیں نسل کشی کی تو کہیں ان کی معیشت کو تباہ و تاراج کرکے انہیں نفسیاتی طور پر کمزور بنانے کی کوشش کی۔ جلگاؤں، احمدآباد، ممبئی، میرٹھ، سورت، بھاگلپور،جمشیدپور، حیدرآباد، مظفرنگر اور…….

مگر بڑا سخت جان ہے یہ مسلمان! دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوتا ہے۔ موت کے برحق ہونے کا یقین اسے جینے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔ اس کی اسی خوبی سے اسلام طاقتیں پریشان اور خوفزدہ ہیں۔ چنانچہ ہر دور میں انہوں نے پہلے مسلمانوں کی کردار کشی کی۔ کبھی مؤرخین نے تاریْخ کو مسخ کرکے آنے والی نسلوں کو مسلمانوں سے متنفرکیا۔ یہودیوں کی زیر تسلط ہالی ووڈ نے ایسی فلمیں بنائیں جس سے مسلمانوں کی تضحیک کی گئی اور اس سے نفرت میں اضافہ بھی ہوا۔ جب ٹیلی ویژن کا دور شروع ہوا اور جب ہر گھر میں اس کا رواج عام ہوا تب تو اسلام دشمن طاقتیں اس کا خوب استعمال کیا۔ آج دنیا بھر میں شاید ہی کوئی ٹی وی چیانل ہوگا جو اسلام اور مسلم دشمن نہ ہو۔ منصوبہ بندطریقہ سے ایسے پروگرامس تیار کئے جاتے ہیں جن سے اسلامی تعلیمات‘ اور قوانین کے خلاف رائے عامل ہموار کئے جاسکیں۔ ایسے غیر ضروری مسائل پر مباحث کروائے جاتے ہیں جس میں زیادہ تر نام کے مسلمانوں کو جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں جو اسلامی شعائر کے پابند نہیں‘ انہیں پیش کیا جاتا ہے۔ اور پھر یہ سب مل کر مسلمانوں اور اسلامی تعلیمات کی تضحیک کرتے ہیں۔ غلطی سے کبھی کوئی بہتر عالم دین ٹی وی شو میں آجائیں اور حق بات کہنے لگے تو ان کا حشر مفتی ارشدالقاسمی کے جیسا ہوتا ہے جنہیں منصوبہ بند طریقہ سے ٹی وی چیانل کے میزبانوں نے پھانسا۔ بہت پہلے شاہی امام سید احمد بخاری سے ایک ٹی وی چیانل نے ایک مشہور فلمی ادکارہ کے ایک ریمارکس سے متعلق رائے جاننی چاہی تو شاہی امام نے اس لائیو ٹی وی شو پر بڑی جرأت کے ساتھ کہہ دیا تھا کہ وہ ناچنے گانے والی طوائفوں کی کسی بات پر اپنی رائے دینا نہیں چاہتے۔ اُس پر بڑا ہنگامہ ہوا مگر شاہی امام اپنے موقف پر قائم رہے۔ اس کے بعد ٹی وی چیانلس نے ان سے رابطہ ختم کرلیا۔حالیہ عرصہ کے دوران بیہودہ قسم کے نام نہاد مسلمانوں کوجو نہ تو دین کے ہیں نہ دنیا کے مختلف ٹی وی مباحث پر پیش کیا جارہا ہے مولانا ارشدالقاسمی کے واقعہ کے بعد ان مسلم نمائندوں (ان میں مسلم سیاستدان شامل نہیں) کو ٹی وی شوز کا بائیکاٹ کرنا چاہئے کچھ پیسوں اور تھوڑی سی شہرت کے لئے اپنی قوم، اپنے مذہب کی رسوائی کا سبب نہ بنیں‘ ورنہ ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ان افراد کا سماجی بائیکاٹ بھی ممکن ہے۔

ٹی وی شوز میں لڑائی جھگڑا، دھول دھپے نئی بات نہیں۔ گذشت سال پاکستان کے مشہور ٹاک شو میں ایک عالم دین نے بھی ایک ماڈل کی پٹائی کردی تھی بلکہ ایسے الفاظ بھی استعمال کئے جو ناقابل اشاعت ہیں۔ سیاستدان آپس میں لڑتے ہیں‘ اینکرس میں جھڑپیں ہوتی ہیں بلکہ آپ کو یادہوں کہ تین چار برس پہلے ایک ٹی وی شو کے دوران ایک مشہور اینکر نے ایک مشہور سیاستدان سے کچھ چبھتے ہوئے سوال کئے تو غصہ سے بپھرے ہوئے ایک سیاستدان دان نے لائیوٹی وی شو کے دوران واک آؤٹ کیا اور وہ سیاستدان کون ہیں آپ اچھی طرح جانتے ہیں…..۔ بہرحال مسلمانوں کی لنچنگ سڑکوں سے نکل کر ٹی وی اسٹوڈیو تک پہنچ گئی ہے۔ ہمارا کام ہے کہ ہم احتیاط برتیں!

About Khaled Shahbaaz

Syed Khaled Shahbaaz is a Yudhvir Gold Medalist in Mass Communication and Journalism from Osmania University and a Computer Science engineer from Jawaharlal Nehru Technological University, with over 2500 articles under his pen. Shahbaaz has interviewed the who's who personalities including ministers, bureaucrats, social entrepreneurs and distinguished community leaders. He writes for several publications in and outside India including the Saudi Gazette, and was briefly associated with the Deccan Chronicle. He held important positions at the likes of QlikView Arabia, SAP, STC Technologies and TNerd.com among others. He may be reached on +91-9652828710 or syedkhaledshahbaaz@gmail.com.

Check Also

دو نابالغ بھائیوں کاقاتل ملزم واقعہ کے صرف دو گھنٹے بعد ہی انکاؤنٹر میں ہلاک

اتر پردیش کے بداویوں ضلع میں دو کمسن بھائیوں کے قتل اور پھر مبینہ پولیس …

ڈاکٹر محمد خواجہ مخدوم محی الدین

انچار ج صدر شعبہ اُردو ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اوپن یونیورسٹی ڈاکٹر محمد خواجہ مخدوم …

Leave a Reply