Thursday , May 2 2024
enhindiurdu

”باہر“کے خواب اور…..

سچ تو مگر کہنے دو ! ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

ہندوستان کے 14نوجوانوں کو روسی فوج میں دھوکہ سے بھرتی کرکے انہیں یوکرائن کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کے لئے مجبور کرنے کی اطلاعات ملی ہیں۔ ان میں سے دو کا تعلق تلنگانہ سے ہے اور تین کا تعلق کرناٹک سے ہے۔ ایک نوجوان لاپتہ بتایا جاتا ہے‘ اندیشہ ہے کہ وہ لڑائی میں کام آچکا ہے۔ تلنگانہ کے نارائن پیٹ ضلع سے تعلق رکھنے والے محمد سفیان جو دوبئی کی ہوٹل میں ملازم تھے‘ ان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس سے پتہ چلا ہے کہ دوبئی میں بیٹھا ایجنٹ بابا جو VLOG چلاتا ہے اس نے روس میں بہتر ملازمت کا پیشکش کرتے ہوئے روس روانہ کیا مگر وہاں جانے کے بعد انہیں فوجی تربیت دی جانے لگی اور یوکرین کی سرحد پر لڑنے کے لئے کہا گیا۔ یہ نوجوان جنگل میں رہ رہے ہیں جو روس اور یوکرائن کی سرحد پر واقع ہے۔ یقینا یہ بڑی دہلادینے والی خبر ہے۔ اگر ویڈیو وائرل نہ ہوتا تو سفیان کے گھر والے یہ سمجھتے کہ وہ کسی اچھی جگہ ملازمت کررہا ہے۔ انگریزی اخبار ”دی ہندو“ کی ایک رپورٹ کے مطابق جو 22فروری کو شائع ہوئی روسی فوج نے آرمی سیکوریٹی سنٹرس پر سیکوریٹی ہیلپرس کے طور پر 100 ہندوستانیوں کو بھرتی کیا ہے۔ یہ تعداد زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔ ان کے ساتھ ایک سال کا معاہدہ کیا گیا جس میں کسی قسم کی کوئی چھٹی نہیں لی جاسکتی۔ انہیں ڈیڑھ لاکھ تا دو لاکھ ہندوستانی روپئے بطور ماہانہ تنخواہ کی پیشکش کی گئی ہے۔ ان ہندوستانیوں کا سائیکومیٹرک ٹسٹ کیا جاتا ہے اور انہیں امکانی خطرات سے آگاہ کردیا جاتا ہے۔ اور پھر انہیں فوجی تربیت دی جاتی ہے۔ یوکرائن سے سرحد پر لڑنے کے لئے ہندوستان کے علاوہ پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال، ازبکستان، کرغزستان سے بھی نوجوانوں کو بھرتی کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ روس اور یوکرائن کے درمیان 24فروری 2022ء کو جنگ چھڑی تھی۔ اور اِن دو برسوں میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 61ہزار 260 یوکرائنی سپاہی ہلاک اور 50ہزار زخمی ہوئے ہیں۔ جبکہ یوکرائن ملٹری کادعویٰ ہے کہ اس کے تین لاکھ 83ہزار سپاہی ہلاک ہوئے ہیں اور ایک لاکھ 25ہزار لاپتہ ہیں۔ انہوں نے پانچ لاکھ روسی سپاہیوں کی ہلاکت کا بھی دعویٰ کیا ہے جبکہ دس ہزار یوکرائنی شہری ہیں اور 18500 زخمی ہوئے ہیں۔
مختلف ممالک کی افواج میں دوسرے ممالک کے سپاہیوں کی بھرتی کی جاتی ہے مگر یہ علی الاعلان ہوتا ہے۔ کسی ناگہانی سانحہ کی صورت میں اِن سپاہیوں کے ارکان خاندان کو ہر قسم کی امداد اور سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں اور غیر ملکی فوج میں خدمات انجام دینے والوں کو زیادہ ہی مراعات حاصل رہتی ہیں مگر دھوکہ سے سپاہی کے طور پر بھرتی کرکے ان کی جان جوکھم میں ڈالنا ہر اعتبار سے غلط اور غیر قانونی ہے۔ اس کے لئے سب سے پہلے دھوکہ باز ایجنٹ ذمہ دار ہیں۔ جو ضرورت مند نوجوانوں کو ایک اچھے، بہتر، شاندار مستقبل کا خواب دکھاکر ان کا استحصال کرتے ہیں۔ یہ نوجوان جو اپنے ارکان خاندان کی خوش حالی کے لئے خواب سجائے گھر، خونی رشتوں سے دور چلے جاتے ہیں۔ اور وہاں جاکر پتہ چلتا ہے کہ جو دیکھا تھا وہ خواب تھے اور ان کی تعبیر اس کی اُلٹ ہے۔
حال ہی میں شاہ رخ خان کی فلم ”ڈنکی“ اسی موضوع پر بنائی گئی ہے۔ اور برسوں پہلے دیوانند کی فلم ”دیس پردیس“ بھی ایسے ہی موضوع پر تھی۔ بہرحال! بعض فلمیں حقائق کو پیش کرتی ہیں۔ اور حقیقت میں فلموں جیسا کلائمکس نہیں ہوتا۔ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا تب سے ہم نے ”باہر“ جانے کے چکر میں ہزاروں نوجوانوں کو لٹتے ہوئے دیکھا۔ مکان اور زیورات گروی رکھ کر سودی قرضہ لے کر خلیجی ممالک یا مغربی ممالک جانے کا خواب دیکھا جاتا ہے۔ چند ایک کامیاب ہوجا تے ہیں اور بیشتر کے خواب بکھر جاتے۔ تعریف کرنی چاہئے نوجوانوں کی کہ وہ ہمت نہیں ہارتے۔ ٹھوکر پر ٹھوکر کھانے کے باوجود باہر کا چکر نہیں چھوڑتے۔ کل تک جاب ویزا یا آزاد ویزا کا چکر تھا۔ آزاد ویزا کے نام پر جس طرح سے بے وقوف بنائے جاتے رہے۔ وہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ دھوکہ کھانے کے باوجود نوجوانوں نے دیارِ غیر میں اپنی جوانی کو قربان کرتے ہوئے اپنے خاندانوں کو خوش حال رکھنے کی کوشش کی‘ نارائن پیٹ کے محمد سفیان اور دیگر 13نوجوان بھی ان میں شامل ہیں۔ کسی ملک کی فوج میں شامل ہونا برائی نہیں ہے۔ بہتر ہوتا کہ یہی نوجوان ہمارے اپنے ملک کی فوج میں شامل ہوتے جہاں اپنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کا موقع ملتا وہیں حب الوطنی کی سند بھی ملتی ساتھ ہی وہ تمام اعزازات اور مراعات سے بھی نوازے جاتے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے نوجوان اپنے وطن میں کام کرنا نہیں چاہتے کیوں کہ اسے یہاں پر مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ وہ اپنے وطن سے باہر ڈالر، پاؤنڈ، ریال، درہم کمانا چاہتا ہے اور کم وقت میں دولت مند بننا چاہتا ہے۔ جب دیارِ غیر میں قدم رکھتا ہے تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ اپنا دیس، اپنا ہی دیس ہوتا ہے اور پردیس میں وہ برسوں رہ کر بھی اجنبی ہی رہتا ہے۔ جسمانی طور پر وہ پردیس میں ہوتا ہے اس کا دل اور دماغ اپنے دیس میں دھڑکتا اور بھٹکتا رہتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ ملک سے باہر کم محنت‘ زیادہ پیسہ ملتا ہے۔ مگر اس پیسہ کے لئے اُسے کیا کیا قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ اپنے وطن اور اپنے گھر میں وہ گلاس اٹھاکر پانی بھی نہیں پیتا اور باہر جاکر اسے ٹائلیٹ بھی صاف کرنا پڑتاہے۔ جھاڑو بھی لگانی پڑتی ہے۔ اور یہ اُس وقت تک سلسلہ جاری رہتا ہے جب تک وہ اس کا عادی نہ ہوجائے اور اس کی قسمت کا ستارہ عروج پر نہ آئے۔ آج بھی ایسے بیشتر لوگ ہیں جو بیس بیس برس سے اپنے وطن واپس نہ لوٹ سکے۔ وہاں جاکر انہیں اپنے فیصلے پر یقینی طور پر پچھتاوا ہوتاہے مگر وہ واپس نہیں آسکتے۔ کیوں کہ انہیں قرض بھی ادا کرنا ہے‘ شرمندگی سے بھی بچنا ہے۔ جو محنت وہ بیرون ممالک میں کرتے ہیں اگر اُتنی ہی محنت اپنے وطن میں کرسکے تو خوشحالی یقینی ہوجاتی۔ ہم تعصب، امتیازی سلوک کی شکایت کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم کوئی مسابقتی امتحان میں شریک نہیں ہوتے ہیں‘ اگر ہوتے بھی ہیں تو سنجیدگی کے ساتھ محنت نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال تلنگانہ میں ایک سو مسلم نوجوانوں کو حکومت کی جانب سے سیول سرویسس امتحان میں شرکت کے لئے فری کوچنگ دی جاتی ہے مگرغلطی سے بھی آج تک کوئی بھی مسلم امیدوار منتخب نہیں ہوا۔ اس لئے کہ کسی کو دلچسپی نہیں ہے۔ جو محنت کرتے ہیں وہ‘ جو امتیازی سلوک اور تعصب کی شکایت کے بجائے خود محنت کرتے ہیں وہ آج اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ یہ سچ ہے کہ آمدنی کے وسائل ہمارے وطن میں محدود ہیں مگر دیانت داری کے ساتھ محنت کرنے والے کے گھر میں بھی افلاس اور نحوست نہیں ہے۔آٹو ڈرائیورس ہو کیاب ڈرائیورس، ٹیکنیشن، پلمبرس سے لے کر ہر محنت کش اور جو پڑھے لکھے ہیں‘ جن میں کمیونیکیشن اسکلس ہیں‘ جو عصری تقاضوں کی تکمیل کرتے ہیں آج ان کی ڈیمانڈغیر معمولی ہے۔ ہمارے اپنے وطن میں بھلے ہی ہاتھ تنگ ہیں مگر ماحول کی آزادی ہے‘ اور دیارِ غیر میں قدم قدم پر ذہنی غلامی کا احساس ستاتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ دولت کمانے کا جذبہ اِن احساسات پر غالب آجاتا ہے
بے شک بہت ساروں نے کافی دولت کمائی۔ عالی شان گھر بھی بنالئے، فارم ہاؤزس کے مالک بن گئے ہوں گے مگر تنہائی کا احساس ہمیشہ ڈنک مارتے رہتا ہے۔عالی شان مکانات ویران‘جن میں ضعیف والدین دروازے کو تکتے ہوئے زندگی گزار دیتے ہیں یا پھر اولڈ ایج ہاؤز میں رہنے کے لئے مجبور ہوجاتے ہیں۔ خیر یہ سب ہمارے اپنے خیالات ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے نوجوان اگر بیرونی ممالک نہ جاتے، قربانیاں نہ دیتے تو ان کے گھروں میں خوشحالی مشکل تھی۔ بہنوں کی شادیاں، ذاتی گھربھائی بہنوں کی اعلیٰ تعلیم کے خواب پورے نہیں ہوتے۔ محمد سفیان اور ان جیسے نوجوان ایسے ہی خوابوں کو پلکوں پر سجائے اپنے وطن سے رخصت ہوئے تھے۔ سفیان کے والد جناب ظہور الدین ڈرائیور ہیں۔ ایک چھوٹا بھائی محمد سلمان ہے اور دو بہنیں ہیں۔ خدا کرے کہ وہ صحیح سلامت واپس آجائیں۔
سفیان جیسے لاکھوں نوجوان بیروزگار ہیں اور وہ روزگار کی خاطرکچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہیں۔ چنانچہ ہندوستان نے اسرائیل کی درخواست پر ہیلپرس کے طور پر ہندوستانی نوجوانوں کو روانہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسرائیل نے ایک لاکھ ہندوستانی نوجوانوں یا مزدوروں کی مانگ کی ہے‘ جس کے لئے کئی لاکھ درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ ایک طرف عالم عرب سے دوستی‘ دوسری طرف اسرائیل سے بڑھتی قربت اور ظالم کا ساتھ دینے کی پالیسی وزیر اعظم مودی کے منظور نظر اڈانی جس نے تقریباً ہندوستان کو خرید لیا ہے‘ اس کی کمپنی ملٹری ڈرونس تیار کرتی ہے۔ حال ہی میں اس نے 20ملٹری ڈرونس اسرائیل کو روانہ کئے ہیں۔ اڈانی۔ایلبیٹ اڈوانسڈ سسٹمز انڈیا لمیٹیڈ کی جانب سے اسرائیل کو فراہم کئے گئے ہرمز ڈورنس‘ اسرائیل دفاعی فوج استعمال کرتی ہے جس سے 28ہزار ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ ان میں دس ہزار بچے شامل ہیں۔ ”دی وائر“ کی رپورٹ کے مطابق ورلڈ فیڈریشن آف ٹریڈ یونینس نے فلسطینی عوام کیساتھ یگانگت کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کی مذمت کی۔ جنہوں نے بین الاقوامی امن و قانون کے تحفظ کے نام پر فلسطینیوں کی نسل کشی کی حمایت کی ہے۔
واٹر ٹرانسپورٹ ورکرس فیڈریشن آف انڈیا نے اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیل کے لئے ہتھیار ’لوڈ‘ یا ’اَن لوڈ‘ نہیں کریں گے۔ فیڈریشن ہندوستان کی گیارہ بندرگاہوں کے 35ہزار ملازمین پر مشتمل ہے۔ پورٹ ورکرس جو لیبر یونین میں شامل ہیں‘ ہمیشہ سے فلسطین پر جنگ کے خلاف رہے ہیں۔ فیڈریشن نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور فیصلہ کیا کہ معصوم بچوں کی ہلاکتوں کے لئے استعمال کئے جانے وا لے مہلک ہتھیاروں کو وہ جہازوں میں لوڈ یا اَن لوڈ نہیں کریں گے۔ فیڈریشن نے فلسطین کی آزادی اور قیام امن کا مطالبہ کیا۔ فیڈریشن اور اس کے ارکان کے جذبہ انسانیت کو سلام کیا جانا چاہئے۔

About Gawah News Desk

Check Also

دو نابالغ بھائیوں کاقاتل ملزم واقعہ کے صرف دو گھنٹے بعد ہی انکاؤنٹر میں ہلاک

اتر پردیش کے بداویوں ضلع میں دو کمسن بھائیوں کے قتل اور پھر مبینہ پولیس …

ڈاکٹر محمد خواجہ مخدوم محی الدین

انچار ج صدر شعبہ اُردو ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اوپن یونیورسٹی ڈاکٹر محمد خواجہ مخدوم …

Leave a Reply