ایک بی جے پی ہی نہیں‘ کانگریس جیسی خودساختہ سیکولر جماعت نے بھی آہستہ آہستہ اپنی پالیسی بدل دی ہے‘ اس نے بھی اپنے اشتہارات میں مولانا آزاد کی تصاویر کو شامل نہیں کیا۔ حالیہ عرصہ سے نہ صرف مولانا آزاد بلکہ سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان کے علاوہ علی برادران
محمدعلی جوہر اور شوکت علی گوہر کی تصاویر بھی کانگریس کے اشتہارات میں شامل ہواکرتی تھیں اب بی جے پی سے مقابلہ کے لئے کانگریس نے فرقہ پرستوں کو خوش کرنے کی پالیسی اختیار کی ہے۔کانگریس کو اب بھی بی جے پی کے مقابلے میں کسی قدر سیکولر سمجھا جاتا ہے تاہم اس کے اپنے بعض قائدین پارٹی کا بیڑہ غرق کرنے کے درپے ہیں۔ راہول گاندھی کو پارلیمنٹ کے لئے نااہل قرار دیئے جانے کے بعد ان سے ہمدردی پیدا ہوگئی تھی مگرراجستھان کے چیف منسٹر اشوک گہلوٹ اور پارٹی میں ان کے حریف پائلٹ کے اس اعلان اور اقدام سے مسلمان ناراض اور کانگریس سے فاصلہ اختیار کرنے کے لئے مجبور ہیں کہ ان دو قائدین نے سزائے موت کے چار ملزمین کی رہائی کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسٹر نریندر مودی کی مقبولیت اور عوامی ہمدردی کی لہر کیلئے بھی کانگریس ہی کے بعض قائدین ذمہ دار ہیں۔
منی شنکر Aiyyerنے سب سے پہلے چائے والا کہا جس سے ہندوستان بھر میں چائے والوں کی ہمدردی مسٹر مودی کے ساتھ ہوگئی۔ ویسے بھی چائے بنانا کوئی معیوب پیشہ نہیں ہے۔منی شنکر Aiyyer ہی نے مودی کی ذات پات کی بات کہی‘ اس کا فائدہ بھی مسٹر مودی کو ہوا۔ اور جب راہول گاندھی نے بار بار چوکیدار چوکیدار کہنا شروع کیا تو مسٹر نریندر مودی نے ہندوستان بھر کے چوکیداروں کا کنونشن کروالیا۔اور راہول گاندھی بھی اگر پارلیمنٹ سے باہر ہوئے تو اپنی زبان کی لغزش سے۔ ایک قومی سطح کے اپوزیشن لیڈر وزارت عظمیٰ کے امیدوار کو ہر لفظ ناپ تول کر ادا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
Check Also
ہندوستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے ذہن سازی۔غیر اخلاقی تعلقات سے پاک و صاف ماحول کی ضرورت
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے انتخابات اور منظورہ قراردادیںآل انڈیا مسلم پرسنل لا …
ایران۔ افغان سرحدی تصادم یا آبی جنگوں کا آغاز؟
اسد مرزا(دہلی)”ایران اور افغانستان کے درمیان حالیہ سرحدی جھڑپیں مقامی اور عالمی سطح پر مستقبل …