Monday , April 29 2024
enhindiurdu

ورلڈکپ2023ء۔سیکوریٹی ایک چیالنج

سچ تو مگر کہنے دو ! ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے……
پاکستانی کرکٹ ٹیم کو وارم اَپ اور دوسرے میچس کے لئے ہندوستانی ویزا مل گیا، خدا کا شکر ہے۔ ہندوستان کی میزبانی اور پاکستانی ٹیم کی شرکت دلچسپی میں کئی گنا اضافہ۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ہندوستان پورے ٹورنمنٹ کی مکمل طور پر میزبانی کررہا ہے۔ اس سے پہلے 1987ء، 1996ء اور 2011ء میں اس نے مشترکہ طور پر میزبانی کی تھی۔ 5/اکتوبر سے ورلڈ کپ ٹورنمنٹ کا آغاز ہورہا ہے۔ 10میزبان ہندوستان کے علاوہ پاکستان، انگلینڈ، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، سری لنکا، ساؤتھ افریقہ، نیدر لینڈ، افغانستان اور بنگلہ دیش کی ٹیمیں 46دن کے دوران 48میاچس کھیلیں گی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ 1975 اور 1979ء کی ورلڈ کپ چمپئن ویسٹ انڈیز ٹورنمنٹ میں حصہ لینے کی اہل نہ ہوسکی۔ ورلڈ کپ 2023ء کا افتتاحی میاچ 2019ء کے چمپئن انگلینڈ اور رنراَپ نیوزی لینڈ کے درمیان احمدآباد کی نریندر مودی اسٹیڈیم میں ہوگا جس میں ایک لاکھ 32ہزار افراد کی گنجائش ہے۔ فائنل میاچ بھی 19نومبر کو اسی اسٹیڈیم میں کھیلا جائے گا اور ٹورنمنٹ کا سب سے اہم ترین میاچ جو 14اکتوبر کو روایتی حریف ہند پاک ٹیموں کے درمیان کو ہوگا جس کے آن لائن تمام ٹکٹس صرف ایک گھنٹہ میں فروخت ہوچکے ہیں۔ ٹورنمنٹ کے میاچس احمدآباد، بنگلور، چینائی، دہلی، کولکتہ، دھرم شالہ (ہماچل پردیش)، حیدرآباد، لکھنؤ، ممبئی اور پونہ میں کھیلے جائیں گے۔ سیمی فائنلس ایڈن گارڈن کولکتہ اور وانکھیڑے اسٹیڈیم ممبئی میں ہوں گے۔ اگر پاکستان سیمی فائنل میں داخل ہو تو میاچ ایڈن گارڈن میں ہوگا اور ہندوستان سیمی فائنل میں داخل ہو تو وانکھیڑے اسٹیڈیم میں ہوگا۔ ہندپاک دونوں ٹیمیں ایک دوسرے کیخلاف سیمی فائنل میں ہو تو یہ میاچ بھی ایڈن گارڈن میں کھیلا جائے گا۔
جہاں تک چمپئن شپ سے متعلق پیشن گوئیوں کا تعلق ہے‘ اس وقت ہندوستانی کرکٹ ٹیم جو تینوں فارمٹ ونڈے، T20 اور ٹسٹ میں ICC رینکنگ میں نمبر1 ہے‘ ہاٹ فیوریٹ ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ وہ تیسری مرتبہ ورلڈ کپ جیتے گی۔ اس سے پہلے کپل دیو کی قیادت میں 1983ء اور دھونی کی قیادت میں 2011ء میں اس نے ورلڈ کپ جیتا ہے۔ آسٹریلیا جس نے ہندوستان کے خلاف ونڈے میاچس میں کمزور مظاہرہ کیا ہے‘ سب سے زیادہ مرتبہ چمپئن رہی ہے۔ اس نے 1987ء 1999ء 2003ء 2007ء اور 2015ء میں ورلڈ کپ جیتا ہے۔ اب بھی اس ٹیم کے بارے میں مثبت رائے ہے۔ کیوں کہ ورلڈ کلاس بیاٹرس، آل راؤنڈرس اور بولرس پر مشتمل یہ ٹیم کبھی بھی کسی بھی ٹیم کے خلاف غیر معمولی حیرت انگیز مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پیاٹ کمنس کی قیادت میں اسٹیو اسمتھ جیسا غیر معمولی بیاٹر اور اس کے ساتھ ڈیوڈ وارنر جیسا آل راؤنڈر، کیمرون گرین جیسا کھلاڑی جسے ایکشن میں دیکھنے کے لئے شائقین بے تاب ہیں۔ اُسی طرح جوز بٹلر کی قیادت میں موجودہ چمپئن انگلینڈ کی ٹیم اپنے ٹائٹل کا دفاع کرنے کی حتی الامکان کوشش کرے گی۔ بیرسٹو، اسٹوکس، معین علی، عادل رشید، جوروٹ، سیام لیونگسٹن، ٹاپلے جیسے کھلاڑی اس ٹیم کی مضبوطی کا ضامن ہے۔ نیوزی لینڈ ٹورنمنٹ کی بدقسمت ترین ٹیم ہے‘ جو سات مرتبہ سیمی فائنلس اور ایک مرتبہ 2019ء میں فائنل تک پہنچی‘ فائنل بھی امپائر دھرماسینا کے غلط فیصلہ کی وجہ سے ہار گئی۔یہ بہترین متوازن ٹیم ہے جس پر کرکٹ شائقین نے بازی لگارکھی ہے۔ سری لنکا اگر ایشیا کپ فائنل میں ہندوستان کے خلاف 50رن کے حقیر ترین اسکور پر آؤٹ نہ ہوتی تو اس سے متعلق بھی کافی اچھی رائے تھی اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اس نے پاکستان جیسی ٹیم کو شکست دی اور اس میں تقریباً سبھی کھلاڑی ورلڈ کلاس کے ہیں جو کسی بھی قسم کی بولنگ کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور اپنی بولنگ سے مخالف ٹیم کے لئے مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔ اس ٹیم میں مقابلے کا جذبہ ہے۔ جس کا مظاہرہ پاکستان کے خلاف کیا گیا۔ ہندوستان کے خلاف فائنل میں اس کی بدترین کارکردگی ایک سوالیہ نشان ہے۔ یقینا محمد سراج نے اپنے کیریئر کی بہترین اور تباہ کن بولنگ کی۔ روہت شرما اگر فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے تو سراج کو ایک دو وکٹ اور مل جاتے۔ بہرحال سری لنکا کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اس میں کپتان شانکا وائس کیپٹن کوشل منڈس کے علاوہ نسانتا، کرونا رتنے، ڈی سلوا، رجیتا کے علاوہ 21سالہ ڈونت ولالیج جیسے بہترین کھلاڑی شامل ہیں جو کبھی بھی کھیل کا پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔
بنگلہ دیش نے حالیہ عرصہ کے دوران اپنے آپ کو منوایا۔ شکیب الحسن کی قیادت میں یہ ایک نئے عزائم بلند حوصلوں سے سرشار ٹیم ہے۔ کرکٹ میں کو کب کونسی ٹیم کردکھائے گی یہ کہا نہیں جاسکتا۔ یہ سچ ہے کہ افغانستان کی ٹیم نے جو پہلی مرتبہ ورلڈ کپ میں حصہ لے رہی ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ اگرچہ کہ اس سے خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی مگر ٹیم کی مجموعی طور پر کارکردگی اس بات کا اشارہ ہے کہ آنے والے برسوں میں افغانستان ایک طاقتور اور ناقابل شکست ٹیم بن کر ابھرے گی۔ افغانستانی ٹیم سب سے اہم خصوصیت اس کی فٹنس ہے۔حشمت اللہ شاہدی، رحمان اللہ گرباز، ابراہیم زدران، رحمت شاہ، نجیب اللہ زدران، محمدنبی نے بین الاقوامی سطح پر اپنے آپ کو منوایا ہے۔
نیدر لینڈ کی ٹیم کے لئے یہ پہلا اور انوکھا تجربہ ہوگا۔ اس کے تین چار کھلاڑی ایسے ہیں جنہوں نے ونڈے کرکٹ میں 2000 رن بنائے ہیں اس میں ثاقب ذوالفقار اور شارز احمد کا تعلق پاکستان سے اور وکرم سنگھ اور تیجا کے آ باء واجداد کا تعلق ہندوستان سے ہے۔ یہ ایک ایسی ٹیم ہے جس میں ہندپاک کھلاڑی بھی کھیلیں گے۔ بہت زیادہ اچھی توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتیں مگر انہیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔ ساؤتھ افریقہ سے بہت زیادہ امیدیں تو وابستہ نہیں ہیں‘ یہ ٹیم چار مرتبہ سیمی فائنل تک پہنچی ہے۔ ڈی کوک،مارکرام، ڈیوڈ ملر، لنگی نگڑی، رباڈا، تبریز شمسی جیسے بہترین کھلاڑی، ٹمبا باوما کی قیادت میں مقابلہ کیلئے تیار ہیں۔ اب آیئے ہندپاک ٹیموں کا جائزہ لیتے ہیں۔
بابر اعظم کی قیادت میں پاکستانی ٹیم اگرچہ کہ ا یک متوازن و مستحکم ٹیم ہے مگر حالیہ عرصہ میں بالخصوص ایشیا کپ میں اس کی کاردگی انتہائی خراب رہی۔ خود بابر اعظم اپنے پورے فارم میں نظر نہیں آئے۔ سری لنکا اور ہندوستانی کھلاڑیوں نے شاہین آفریدی کی سحر کو توڑ دیا۔ ورنہ تمام ٹیموں پر شاہین آفریدی کا نفسیاتی خوف طاری تھا۔ ایک پروپگنڈہ جاری تھا کہ محمد عامر کو پاکستانی ٹیم میں شامل کیا جائے گا‘ عامرپر میچ فکسنگ کی پاداش میں پانچ سال کے لئے پابندی عائد تھی انہیں دوبارہ موقع دیا گیا تھا مگر انہوں نے مصباح الحق اور انضمام الحق پر ذہنی اذیت پہنچانے کا الزام عائد کرتے ہوئے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تھا۔ سوشیل میڈیا پر مہم چلائی جارہی تھی کہ عامر ریٹائرمنٹ واپس لیں اور سلیکٹرس انہیں ورلڈ کپ میں شامل کریں۔ تاہم انضمام الحق نے انہیں ٹیم میں شامل نہیں کیا البتہ کہا کہ پاکستانی ٹیم کے دروازے کھلے ہیں۔ عامر ریٹائرمنٹ واپس لیں‘ لیگ میاچس میں اچھی پرفارمنس دکھائیں تاکہ انہیں ٹیم میں شامل کیا جاسکے۔ انضمام الحق کا یہ اچھا فیصلہ ہے۔ انہوں نے ٹیم میں ان کھلاڑیوں کو بھی شامل کیا جن کی ایشیا کپ میں پرفارمنس ان کے معیار کے مطابق نہیں تھی۔ شاداب خان، فخرزماں،سلمان علی آغا کے ساتھ ساتھ حسن علی کو شامل کرکے انہیں چونکا دیا۔ سعود شکیل اور عبداللہ شفیق بہترین بیاٹسمین ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو منوایا ہے۔ افتخار احمد، محمدنواز نے بھی ایک آل راؤنڈر کے طور پر کافی نام کمایا۔ حارث رؤف ایک بہترین ہندوستان ابھرتے بولر ہیں پاکستانی کھلاڑی کے خلاف شاید نفسیاتی اثر کے تحت وہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ نہیں کرپاتے۔
پاکستانی ٹیم کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہر دور میں یہ ٹیم آپسی اختلافات کی وجہ سے انتشار کا شکار رہی ہے۔ اس ٹیم کو ہندوستان کی سرزمین پر کھیلنا سب سے بڑا چیالنج ہے کیوں کہ یہ ٹیم چاہے کسی بھی ملک کے ٹیم کے خلاف کھیلے تماشائیوں کی اکثریت اس کے خلاف نعرے لگاتی رہے گی۔ بابر اعظم نے البتہ ہندوستان کے لئے روانہ ہونے سے پہلے کہا کہ احمدآباد میں کھیلنے کیلئے وہ بے چین ہیں۔ ویسے تماشائی خود بھی ہند۔پاک ٹیموں کو ایک دوسرے خلاف دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ پاکستانی ٹیم کے برخلاف ہندوستان ٹیم نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا ہے۔ ورلڈ کپ کی تاریخ میں اب تک پاکستان ہندوستان کے خلاف کوئی میاچ نہیں جیت سکا۔ اور سات میاچس ہندوستان نے ہی جیتے ہیں۔ ایشیا کپ میں 200 سے زائد رنو ں سے شکست نے یقینی طور پر پاکستانی ٹیم کے حوصلے پست کئے ہیں۔ ہندوستانی ٹیم کو ہوم گراؤنڈ، ہوم کراؤڈ سے کافی مدد ملے گی۔ ویسے بھی ہندوستانی ٹیم روہت شرماکی قیادت میں بہترین کھلاڑیوں کے ساتھ اپنے کیریئر کے بہترین فارم میں ہیں۔ ہاردک پانڈیا اور رویندر جڈیجہ جیسے آل راؤنڈر، بابر اعظم کے لئے مستقل خطرہ شبھمان گل، سریاس ایر،ایشان کشن، سوریہ کمار یادو اور تجربہ کار ویراٹ کوہلی تیسری مرتبہ ورلڈ کپ حاصل کرنے کیلئے یقینی طور پر اپنی تمام تر صلاحیتوں کو استعمال کریں گے۔ محمد سمیع، محمدسراج، جسپریت بمرا، اکشرپٹیل،شردھل ٹھاکرکچھ دکھانے کیلئے بے چین ہیں۔ بیشتر سابق کھلاڑیوں نے جن میں کرائس گیل، ہاشم آملہ، شعیب اختر، عرفان پٹھان شامل ہیں‘ ہندوستان کے چمپئن بننے کے امکانات کو بہتر بتایا ہے اور گیل و آملہ نے ہند۔پاک، انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ جیسے چار ٹیموں کے سیمی فائنل تک پہنچنے کے روشن امکانات بتائے ہیں۔ البتہ عرفان پٹھان نے پاکستان کو سیمی فائنل تک پہنچنے نہیں دیا۔
ورلڈ کپ جینے والی ٹیم کو 40لاکھ ڈالرس، رَنر اَپ کو 20لاکھ ڈالرس، سیمی فائنل تک پہنچے والی ٹیموں کو 8لاکھ ڈالرس تک کی رقم ملے گی۔ رقم سے زیادہ ورلڈ کپ چمپئن ہونے کا اعزازاس سے زیادہ اہم ہے۔ ہندوستانی ٹیم آج کی تاریخ میں چمپئن بننے اہل نظر آتی ہے۔ موسم اور حالات اس کے لئے سازگار ہیں۔ آسٹریلیا، انگلینڈ نیوزی لینڈ اور ساؤتھ افریقہ کے لئے کافی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ جبکہ پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش اور افغانستان کے لئے ہندوستان ہی کی طرح حالات سازگار ہوں گے۔ صرف انہیں شائقین کی خاطر خواہ حمایت حاصل نہیں ہوگی۔ جس کا نفسیاتی طور پر کھلاڑیوں پر اثر ہوتا ہے۔ ورلڈ کپ ٹورنمنٹ کی میزبانی ہندستان کے لئے ایک بہت بڑا چیالنج ہے۔9 مالک کے کھلاڑیوں کی سیکوریٹی، ان کے رویہ اہمیت کا حامل ہے۔ چوں کہ اس سے سفارتی تعلقات پر اثر پڑتا ہے۔G20 کی میزبانی آسان تھی اس لئے بھی دہلی کے ایک بڑے حصے کو پانچ دنوں کے لئے بند رکھناپڑا۔ دس شہروں بالخصوص احمدآباد، ہماچل پردیش، ممبئی اور پونے میں پُرامن طریقہ سے میاچس کا اہتمام آززائی ہوگا۔ امید ہے کہ اس آ زمائش میں ہم کامیاب ثابت ہوں گے۔

About Gawah News Desk

Check Also

جسپرت بمرہ ا نے قبول کیاتحفہ

ایشیاء کپ کے دوران شاہین شاہ آفریدی کی جانب سے جسپرت بمراہ کو بیٹے کی …

محمدسراج… ایشاء کپ کا ہیرو

سراج….. سراج……. اور…. سراجہر زبان پر محمد سراج کا نام‘ کیوں نہ ہوویرسراج نے اپنی …

Leave a Reply