Monday , April 29 2024
enhindiurdu

سر سنگھ چالک موہن بھاگوت جب کہتے ہیں کہ ’ہم سب کا ڈی این اے ایک ہے‘ تو بہت سارے لوگوں کو کنفیوژن ہوجاتا ہے۔ وہ عام طور پر اپنے سویم سیوکوں (رضا کاروں) سے مخاطب ہوتے ہیں اور ان کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے۔ اخبار میں جب سیاق و سباق سے کاٹ کر یہ جملہ شائع ہوتا ہے تو کچھ لوگ اس کی تعریف و توصیف کرنے کے لیے یہ نتیجہ نکا لتے ہیں کہ وقت کے ساتھ سنگھ نے اپنے آپ کو بدل لیا ہے۔ مخالفین ان کے پرانے بیانات یا گرو گولوالکر کے اقتباسات سے موازنہ کرکے اسے ابن الوقتی یا منافقت گردانتے ہیں حالانکہ یہ سب سمجھ کا پھیر ہوتا ہے۔ یہاں ڈی این اے سے مراد سوچ اور انداز فکر و عمل ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس بابت سارے سنگھیوں میں بلا کی مماثلت پائی جاتی ہے۔ ایوان پارلیمان میں اس کا اظہار رمیش بھدوڑی اپنی زبان سے کرتے ہیں۔ ڈاکٹرہرش وردھن اور روی شنکر پرشاد کے ذریعہ اس کی تائید قہقہہ لگا کر کی جاتی ہے۔ راجناتھ سنگھ’اگر برا لگا ہو تو‘کی شرط لگاکر اس پرافسوس کا اظہار تو کرتے ہیں مگر نہ بھدوڑی کومعافی طلب کرنے کا مشورہ دیتے ہیں اور نہ اس پر کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایوان کے صدر اوم بڑلا معطل کرکے جیل بھیجنے کے بجائے نرمی سے خبردار کرکے چھوڑ دیتے ہیں اور مودی و شاہ کی خاموشی بھی تعریف و توصیف کے زمرے میں آتی ہے۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ ان سب کا ڈی این اے ایک ہی ہے فرق صرف اسلوبِ اظہار کا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ممتاز عالم دین مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی نے رمیش بدھوری کی مذمت کرنے کے بجائے اس کا شکریہ ادا کیا کیونکہ اس نے اپنے اہانت آمیز بیان سے بی جے پی کا چہرہ بے نقاب کردیا۔مولانا کے مطابق بھدوڑی نے پورے ملک کو دکھا دیا ہے کہ وہ کون ہے، اس کی تعلیم و تربیت، اور زبان کیسی ہے نیز اقلیتوں کے حوالے سے سنگھیوں کی سوچ کیا ہے؟ ان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی ایم پی رمیش بدھوری نے اپنے بیان سے ملک کو دکھا دیا کہ وہ انسانی حقوق اور پارلیمنٹ کی کتنی پرواکرتاہے۔ مولانا نے کہا کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ جمہوریت کا مرکز کہلانے والی جگہ پر ایسی فحش اور گھٹیا زبان کا استعمال ہوگا۔ اس کے باوجود رمیش بدھوری کا شکریہ ادا کرکے انہوں نے کہا کہ ملک کو اس کی تقریر سے آر ایس ایس اور بی جے پی کی تعلیم و تربیت کا پتہ چل گیا۔ جمہوریت کے نئے مرکز میں ایسی زبان استعمال کر کے بھدوڑی نے مسلمانوں کے خلاف گالی گلوچ کالائسنس دے دیا ہے۔ بھدوڑی کے ساتھ مولانا نے حزب اختلاف کا بھی شکریہ ادا کیا جس نے اجتماعی طور پر اس گھناؤنے فعل کاارتکاب کرنے والے شخص کو نہ صرف معطل کرنے بلکہ اس پر تاحیات سیاسی پابندی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
مولانا سجاد نعمانی نے بی ایس پی ایم پی کنور دانش علی کو مستعفی نہ ہونے کی تلقین فرماتے ہوے کہا کہ ”آپ اس دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ کریں۔ میں چاہتا ہوں کہ جن لوگوں نے آپ کو اپنا قیمتی ووٹ دے کر ایوان میں بھیجا تھا وہ اس بار دوگنا ووٹ دے کر ایوان میں بھیجیں“۔ مولانا سجاد نعمانی نے ایسے مسلمانوں سے جو آر ایس ایس اور بی جے پی کی تعریف کرکے اْن سے جڑنے کی بات کرتے ہیں سوال کیا کہ اب راشٹریہ مسلم منچ کا ڈھول پیٹنے والوں کا ضمیر کہاں مرگیا ہے؟ انہوں نے ضمیر فروشوں سے پوچھا کہ وہ اعلان کیوں نہیں کرتے کہ “اب ہم مسلمان نہیں رہے”۔مولانا کے مطابق رمیش بدھوڑی کا اہانت ا?میز بیان آر ایس ایس اور بی جے پی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا۔انہوں سکھوں، عیسائیوں، بودھوں، دلتوں اور قبائلی برادری کے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ تمام باتوں کو بھول کر آنے والے ہر الیکشن میں بی جے پی کو سبق سکھائیں۔ مولانا نے کہا کہ گولوالکر اور ساورکر کو پڑھنے والے اس بیان سے حیران نہیں ہوں گے کیونکہ یہ ان کی تعلیمات کا حصہ ہے۔مولانا نے ووٹ کے ذریعے بی جے پی کو جواب دینے کے عزم کا اظہار کیا اور امید ظاہر کی کہ انڈیا الائنس کنور دانش علی کی مکمل حمایت کرے گا۔ ویسے راہل گاندھی کادانش علی ملاقات کر کے اپنی یکجہتی کا اعلان کرنا اپنے ا?پ میں تائید و حمایت ہے۔
سنگھ کا یہ ڈی این اے ایوان پارلیمان کے باہر بھی اپنے بال و پر نکالتا ہے۔ اس کے لیے کبھی نوپور شرما ٹیلی ویڑن پر نمودار ہو کر نبی? پاک? کی ذاتِ والا صفات پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کرتی ہے اور ذلت و رسوائی کی گھٹا ٹوپ اندھیرے میں گم ہوجاتی ہے۔ کبھی کوئی ترپتا تیاگی ہندو طلبا سے ایک مسلم طالب علم کو پٹواتی ہے۔ کبھی کوئی نرسنگھا نند مسلمانوں کے نسل کشی خواب دیکھتا ہے اور لوگوں کو اس کے لیے اکساتا ہے تو کبھی کوئی مونو مانیسر گائے کے نام پر جنید اور ناصر کا قتل کرواتا ہے۔اسی کی وجہ سے ٹرین کے اندر چیتن سنگھ نام کا درندہ صفت پولیس حوالدار اپنی پستول سے تین مسلم مسافروں کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان سب کے ڈی این اے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ان اقدامات میں بظاہر فرق نظر تو ا?تا ہے مگر اس کے پیچھے نفرت کی ایک ا?گ کارفرما و ہے جسے سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر ہوا دی جاتی ہے۔ نفرت کے یہ شعلے اب بے قابو اور بے سمت ہوچکے ہیں۔ اس ا?گ نے معاشرے میں ظلم و جبر کا بازار گرم کررکھا ہے۔ اس لیے جماعت اسلامی ہند نے بھی بی ایس پی کے رکن پارلیمنٹ کنور دانش علی کے خلاف پارلیمنٹ میں بی جے پی ایم پی رمیش بدھوڑی کی جانب سے استعمال کی گئی غلیظ، جارحانہ زبان کی مذمت کی ہے۔
جماعت اسلامی ہند کے میڈیا سکریٹری کے کے سہیل نے اپنے ایک اخباری بیان میں کہاکہ “لوک سبھا میں بی ایس پی کے رکن پارلیمنٹ کنور دانش علی کے خلاف بی جے پی کے ایم پی رمیش بدھوڑی کی طرف سے استعمال کی گئی زبان سے ہر مہذب ہندوستانی کو تکلیف ہوئی ہے اور اس نے پارلیمنٹ کے معیار اور وقار کو پست کیا ہے“۔ا ن کے خیال میں ایک رکن پارلیمنٹ کے خلاف نسلی گالیاں، اس کی مذہبی شناخت کو نشانہ بنانا اور توہین آمیز زبان استعمال کرنا ہندوستان کے پورے مسلم سماج سے نفرت کا واضح ثبوت ہے اور اس کا مقصد اسے ذلیل کرنا ہے۔ سہیل نے بدھوڑی کے جرم یعنی توہین آمیز ریمارکس کو ریکارڈ بک سے خارج کر نے اور اسے ا?ئندہ سخت کارروائی پر خبردار کرنے نیز وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے اظہارِ افسوس کو کافی نہیں سمجھا بلکہ ایک منتخب کردہ قانون ساز کے اس قدر گھٹیا اور شرمناک رویے پر بھدوڑی کو ایوان کے لیے نااہل قرار دینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
سنگھ پریوار کے ڈی این اے کا ایک پہلو ’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘ بھی ہے۔ دانش علی معاملے میں اب بی جے پی والے خود دانش علی پر اوٹ پٹانگ الزامات لگا رہے ہیں۔ رکن پارلیمان نشی کانت دوبے نے اسپیکر کو ایک مکتوب لکھ کر کہا کہ وہ بدھوڑی کے تبصرہ کی مذمت کرتے ہیں لیکن دانش علی کے نازیبا رویہ اور ریمارکس کے بارے میں بھی تحقیقات کرائی جانی چاہئے۔ دوبے نے الزام لگایا کہ علی نے وزیراعظم نریندرمودی کے خلاف ”انتہائی قابل اعتراض اور گستاخانہ“ تبصرہ کیا تھا، جس کی وجہ سے بدھوڑی غصہ میں آگئے تھے۔ اس کے علاوہ بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ روی کشن شکلا اور ہرناتھ سنگھ یادو نے بھی اسپیکراوم برلا سے ایوان میں علی کے رویہ پر اعتراض کرکے تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا۔ اسی دوران دوبے نے علی کو ایک عادی مجرم قرار دیا مگر سچائی یہ ہے ایک ماہ قبل پانچ خواتین ارکان پارلیمان نے بدھوڑی کے خلاف تحریری شکایت کی تھی اور سڑکوں پر تو اس کے خلاف گالی گلوچ سے ا?گے بڑھ کر مار پیٹ کے معاملات بھی درج ہیں۔ عادی مجرم تو دراصل رمیش بھدوڑی ہے جو بی جے پی کی پناہ میں وحشی درندہ بن چکا ہے۔ مختار عباس نقوی سمیت شکلا اس کو دانش علی کی کانگریس میں شمولیت کا منصوبہ بتایا لیکن سوال یہ ہے بھدوڑی اس سازش میں کیوں شامل ہوا؟
بی جے پی والے تو ڈرانے دھمکانے کی کوشش کرہی رہے تھے کہ دانش علی نیان کیخلاف پریس کانفرنس کرکے سنگین الزامات لگا کر چیلنج کردیا۔ انہوں نے کہا ایوان کے اندر زبانی طور پر ان کی لنچنگ کی گئی تھی اور اب باہر ہجومی تشدد کے لئے بیانیہ تیار کیا جارہا ہے۔ انہوں نے ا?گے بڑھ کر اسپیکر سے ان بے بنیاد الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔ وہ بولے حکمراں جماعت کے رکن رمیش بدھوڑی کو اکسانے کے الزام کو بے بنیاد ہے۔ انہوں نے بھدوڑی کے ”برے اور فرقہ پرستانہ“ تبصریکے خلاف معطلی جیسی سخت کارروائی کا مطالبہ کردیا۔ دانش علی نے بی جے پی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے رکن پارلیمنٹ کو سزا دینے کے بجائے اس کا دفاع کررہی ہے۔ ان کے مطابق اس بے بنیاد الزام کے سبب نشی کانت دوبے کے خلاف مراعات شکنی کا کیس بنتا ہے۔ ویسے ایوانِ زیریں کیصدر اوم برلا نے نشی کانت دوبے کو بھی وارننگ دی کہ اگر وہ اس قسم کا رویہ دوبارہ اختیار کریں گے توان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اس ساری اٹھا پٹخ میں بی جے پی کے چال، چرتر اور چہرے پر پڑی خوبصورت نقاب کو تار تار کردیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کیا اس بھیانک منظر کو دیکھ کر بھی ملک کا ووٹر کمل پر مہر لگائے گا یا اسے کوڑے دان کی نذر کردے گا؟

About Gawah News Desk

Check Also

انڈیا بنام بھارت کہیں نوٹ واپسی پر آخری مہر تو نہیں

ائین ہند کے ارٹیکل ایک میں تحریر یہ عبارتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ …

Leave a Reply