Thursday , May 2 2024
enhindiurdu

نئی کانگریس، نئی قیادت اور نئے عزائم
ملک کےلئے ایک اچھی علامت

عبدالعزیز:9831439068
E-mail:azizabdul03@gmail.com
کرناٹک کے حالیہ اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کی شرمناک شکست اور کانگریس کی شاندار جیت سے بہت دنوں کے بعد انصاف پسند اور انسانیت نواز لوگوں نے راحت کی سانس لی۔ سنگھ پریوار کی جارحانہ و فرقہ وارانہ قیادت ایسے نشے میں ڈوبی تھی کہ بی جے پی کو ناقابل شکست سمجھتی تھی۔ مغربی بنگال میں بھی بی جے پی کی شکست سے سنگھ پریوار کی قیادت نے نہ کوئی سبق لیا اور نہ ہی اس کے نشے میں کوئی کمی آئی۔ کرناٹک کی شکست سے امید ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کچھ نہ کچھ سبق لینے کی کوشش کریں گے اور طاقت کے نشے میں بھی کمی واقع ہوسکتی ہے۔ دونوں شخصیتوں نے ریاست کرناٹک میں جس طرح ذات پات اور فرقہ پرستی کی سیاست پھیلانے کی کوشش کی اور اخلاق و دیانت کی ساری حدیں توڑنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ اس سے دونوں کو اگر شرمندگی نہیں ہوگی تو کم سے کم پچھتاوا تو ضرور ہوگا۔ دونوں نے ایسے بلند و بانگ دعوے کئے تھے کہ جس کی مثال سیاست میں مشکل سے ملتی ہے۔ کرناٹک کے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ اگر بی جے پی کی ڈبل انجن کی سرکار نہیں آئی تو کرناٹک بہت پیچھے چلا جائے گا اور تباہی اور بربادی ریاست کا مقدر بن جائے گا۔ کرناٹک کے عوام نے نہ صرف بی جے پی کو سبق سکھایا بلکہ دونوں قیادتوں کے سرِ پُرغرور کو چکناچور کردیا۔ سام، دام، ڈنڈ، بھید بھاو¿ بی جے پی کے لئے کرناٹک میں کچھ کام نہیں آیا۔ عوام نے نہایت عقلمندی اور بردباری سے ووٹ دیا اور ریاست کو تباہ ہونے سے بچالیا۔


یہاں بی جے پی میں اوپر سے نیچے تک بدعنوانی، بددیانتی کا دور دورہ تھا۔ فرقہ پرستی عروج پر تھی۔ مسلمانوں کی ناک میں دم کردیا تھا۔ حجاب جو کوئی مسئلہ نہیں تھا اسے بہت بڑا مسئلہ بناکر مسلمانوں اور اسلام کو نیچا دکھانے کی بھرپور کوشش کی۔ عدلیہ بھی حق و انصاف کا ساتھ دینے سے قاصر رہی۔ مسلمانوں نے صبر و تحمل سے کام لیا۔ خاص طور پر لڑکیوں کے سرپرست و والدین نے بھی ہمت اور حوصلے کا غیر معمولی مظاہرہ کیا۔ آج وہ لڑکیاں اور وہ گارجین جو اسلام کے وقار و مرتبے کو باقی رکھنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگادی تھی ، بی جے پی کے ہارنے سے بہت ہی خوش ہوئے ہوںگے۔ بی جے پی ’کانگریس مکت بھارت‘ کا خواب دیکھ رہی تھی لیکن کرناٹک میں شکست خوردگی سے ”جنوبی ہند بی جے پی مکت“ کی آواز کانگریس کی طرف سے بلند ہونے لگی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی جنوبی ہند سے دیر یا سویر بے دخل ہوجائے گی۔ 2018ءمیں بی جے پی کو 104سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ اس بار وہ 60، 65سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ تقریباً سیٹوں کی آدھی تعداد میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ کرناٹک میں اگر جنتادل سیکولر (JDS) کا وجود نہیں ہوتا تو بی جے پی کو دس پندرہ سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑتا۔


کانگریس کا حوصلہ یقینا بڑھا ہوگا اور اس کی نئی قیادت میں یقینا جان پڑی ہو گی۔ خاص طور پر راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کے وقار اور مرتبے میں اضافہ ہوگا اور ملک میں مقبولیت بھی بڑھے گی۔ کرناٹک کی انتخابی مہم سے ثابت ہوتی ہے کہ دونوں کو ریاست میں پیچھے رہ کر قائدانہ رول ادا کرنا ہوگا۔ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ توسیع و ترقی کا فلاحی اسکیموں سے گہرا تعلق ہے۔ نئی کانگریس کو جو پہلا سبق کرناٹک کی جیت سے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ریاستی قیادت اور آرگنائزیشن کی مضبوطی بہت ضروری ہے۔ کرناٹک میں کانگریس کے صدر ڈی کے شیوکمار اور سابق وزیر اعلیٰ سدارمیّا نے غیر معمولی کوشش کی اور محنت و مشقت میں کوئی کمی نہیں کی۔ دونوں میں جو رنجش تھی وہ بھی مہم کے دوران دیکھنے میں نہیں آئی۔ دونوں قیادتوں نے مل جل کر بی جے پی کی مقامی قیادت کو ابھرنے نہیں دیا۔ کانگریس کے نئے صدر ملکا رجن کھرگے مہم کے دوران کرناٹک میں کیمپ لگائے ہوئے تھے۔ اس طرح دیکھا جائے تو کانگریس کی نیچے سے اوپر تک کی قیادت نے بی جے پی کو ہرانے میں بہت بڑا رول ادا کیا۔ کانگریس کی مضبوط قیادت اور زبردست مہم نے کانگریس کو جیت دلانے میں مدد کی۔


لیکن اب کانگریس کو بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ریاست کو فلاحی ریاست بنانے کا وعدہ ہے اور معاشی بحران سے جلد از جلد نکالنا ہے۔ انتخابی منشور میں جو پانچ بڑی بڑی ضمانتیں مختلف شعبہ¿ حیات کے لئے دی گئی ہیں ان ضمانتوں کو بھی جس قدر جلد ہو پوری کرنے کی کوشش کرنی پڑے گی۔ کانگریس نے ایک بہت بڑا اعلان کیا ہے اور ایک بڑا رسک بھی لیا ہے وہ ہے ’بجرنگ دل‘ پر پابندی کا اعلان۔ اس سے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں نے کانگریس کو ایک جٹ ہوکر ووٹ دیا اور جے ڈی ایس کی طرف رخ نہیں کیا۔ کانگریس کو بجرنگ دل پر جلد سے جلد پابندی عائد کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ کانگریسی حکومت اگر اس میں ہچکچاہٹ محسوس کرے گی تو مسلمانوں کی امیدوں پر تو پانی پھر جائے گا لیکن کانگریس بھی وعدہ شکن پارٹی کہلائے گی۔ امید یہ ہے کہ کانگریس انتخابی منشور میں کئے گئے وعدوں کو پورا کرے گی اور کانگریس کی صفوں میں اتحاد بھی قائم رہے گا۔ بی جے پی کا پلان دو تھا کہ اگر کانگریس کو کم سیٹوں پر کامیابی ہوئی تو وہ توڑ جوڑ اور خرید و فروخت کی سیاست سے دوبارہ اقتدار پر قبضہ جمانے کی کوشش کرے گی۔ کانگریس کو اتنی بڑی تعداد میں سیٹوں پر کامیابی ہوئی ہے کہ بی جے پی کا پلان نمبر 2 ریزلٹ کے دن ہی کافورہوگیا۔ ریاستی اور قومی قیادت نے بادل نخواستہ شکست تسلیم کرلی۔


کرناٹک کے انتخابی ریزلٹ سے ملک کی سیاست پر بھی اثر پڑے گا اور اپوزیشن کے اتحاد میں بھی مضبوطی آئے گی اور ریاستی پارٹیاں جو کانگریس کی سربراہی کسی وجہ سے قبول نہیں کر رہی تھیں ان کو اب شاید قیادت قبول کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوگا۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے کانگریس کی جیت پر کشادہ دلی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ کرناٹک کے عوام کو مبارکباد دے کر محض رسم پوری کی ہے۔ حالانکہ ان کو معلوم ہے کہ عوام کو بی جے پی سے دور کرنے اور بی جے پی کی نفرت کی سیاست کو بدلنے یا ختم کرنے میں کانگریس کی قیادت نے زبردست رول ادا کیا ہے۔ کانگریس کی مضبوط قیادت کے بغیر مودی اور شاہ کو ہرانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس لئے کانگریس کو مبارکباد نہ دے کر محترمہ ممتا بنرجی نے بخالت کا ہی مظاہرہ نہیں کیا ہے بلکہ کانگریس کی سربراہی میں جو اتحاد ہوسکتا ہے اس سے بھی منہ موڑنے کی کوشش کی ہے۔ ممتا بنرجی کی مجبوری خواہ جو بھی ہو ان کو دیر یا سویر یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ کانگریس کے بغیر ملک میں بی جے کو اکھاڑ پھینکنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔ دوسری ریاستوں میں جو لوگ تیسرے محاذ کے بارے میں سوچ رہے تھے اب شاید ان کی یہ سوچ ختم ہوجائے اور سب مل جل کر 2024ءکے لئے تیاری کریں۔ یہ سبھی پارٹیوں کے لئے اور ملک کی سیاست اور جمہوریت کے لئے ایک بہتر قدم ہوگا۔
سبھی پارٹیوں کو معلوم ہے کہ بی جے پی کا محبوب نعرہ ہے :”کانگریس مکت بھارت“، ”اپوزیشن مکت بھارت“ اور ”مسلمان مکت بھارت“۔ کرناٹک کے بی جے پی کے کئی لیڈروں نے انتخابی مہم کے دوران اظہار خیال کیا تھا کہ مسلمانوں کا ووٹ بی جے پی کو نہیں چاہئے جبکہ ان کم عقلوں کو معلوم ہے کہ بی جے پی مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھتی ہے تو مسلمان کیا دشمنی بڑھانے اور ماب لنچنگ کرانے کے لئے بی جے پی کو ووٹ دیں گے؟ ایک اچھی بات مسلمانوں کی طرف سے ہوئی ہے کہ وہ یہ ہے کانگریس کے ایک ایم ایل اے نے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف بیان دیا تھا تو مسلمانوں کی سوجھ بوجھ والی قیادت نے کانگریس کے دونوں بڑے لیڈروں سے ملاقات کی اور ان سے کہاکہ اگر اس شخص کو ٹکٹ دیا گیا تو مسلمان اس کو ووٹ نہیں دیں گے۔ مسلمانوں کی اس وارننگ سے اس ایم ایل اے کو کانگریس نے ٹکٹ نہیں دیا۔ کرناٹک کے مسلمانوں کے اس قائدانہ رول کو دوسری ریاستوں میں نمونہ بنانا چاہئے۔ خاص طور پر مغربی بنگال میں ممتا بنرجی مسلم تنظیموں اور مسلم قیادتوں کو نظر انداز 2011ئسے کر رہی ہےں۔ زیادہ دن نہیں ہوئے کہ اسمبلی کے ضمنی الیکشن میں بالی گنج اسمبلی حلقہ سے بی جے پی کے سابق لیڈر بابل سپریو کو کھڑا کیا گیاتھا۔ مسلمانوں کی طرف سے آواز بلند ہوئی کہ بابل سپریو کا کردار آسنسول میں جب وہ ایم پی تھے اور مرکزی حکومت میں وزیر تھے تو بہت ہی گھناو¿نا تھا ان کی وجہ سے فرقہ وارانہ فساد برپا ہوا تھا اور امام مسجد مولانا رشیدی صاحب کے صاحبزادہ کو اغوا کرکے شہید کردیا گیا تھا۔ ممتا بنرجی نے مخالفت کے باوجود بابل سپریو کو کامیاب کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ مسلمانوں میں جو اتحاد تھا اسے بھی پارہ پارہ کیا اور ممتا بنرجی کو اپنے مقصد میں کامیابی ہوئی اور ایک مسلم اکثریتی حلقہ سے ایک فرقہ پرست سیاستداں کو جتا کر یہ باور کیا کہ وہ مسلمانوں کا کوئی وزن یا وقعت نہیں سمجھتی ہیں۔ میرے خیال سے دیر یا سویر ممتا بنرجی کو مسلمانوں کو نظر انداز کرنے کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔


اگر بنگال میں بھی کانگریس کی طرف سے ”بھارت جوڑو یاترا“ شروع کی جاتی ہے اور راہل گاندھی شریک ہوتے ہیں تو اس کا اثر بہت زیادہ پڑے گا۔ کرناٹک میں کامیابی کا ایک بہت بڑا فیکٹر راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘کو بھی جارہا ہے۔ کانگریس کو یہ مہم جاری رکھنی چاہئے اور ملک میں جہاں جہاں یہ یاترا نہیں ہوئی ہے وہاں وہاں اسے شروع کرنا چاہئے۔ اس سے ملک کی سیاست بدل سکتی ہے۔ فرقہ پرستی کی ٹانگ ٹوٹ سکتی ہے جیسے کرناٹک میں ٹوٹی ہے۔
بی جے پی، جمہوریت کےلئے خطرناک ہے
سپریم کورٹ نے مہا وکاس اگھاڑی حکومت کو گرانے میں گورنر کے ہر اقدام کو غلط قرار دیا ہے۔ ہمارا شروع سے ہی یہ الزام تھا کہ بی جے پی نے راج بھون کا غلط استعمال کرکے مہاراشٹر میں ایم وی اے کی حکومت گرائی گئی،سپریم کورٹ نے اس پر بھی مہرلگادی ہے کہ ریاست میں شندے-بی جے پی حکومت غیر آئینی و غیر قانونی ہے۔ عدالت کا یہ فیصلہ ریاستی حکومت کے منہ پر ایک زوردارطمانچہ ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس کے پیش نظروزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے، نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس اور اسمبلی کے اسپیکر راہل نارویکر کو اخلاقی بنیادوں پر فوری طور پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔یہ مطالبہ مہاراشٹر کانگریس کمیٹی کے صدر نانا پٹولے نے کیا ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کانگریس کے ریاستی صدر نانا پٹولے نے کہا کہ پہلے دن سے ہی بی جے پی نے ایم وی اے حکومت کو گرانے کی کئی کوششیں کیں اور راج بھون کا بھی غلط استعمال کیا۔


پٹولے نے کہاکہ ایم وی اے حکومت کو گرانے کے لیے گورنر سمیت تمام ایجنسیوں نے جو فیصلے لیے ہیں وہ غلط تھے۔ عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ شنڈے دھڑے کے ایم ایل اے بھرت گوگا¶الے کو وہیپ مقرر کرنا غلط تھا۔ سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے جو باتیں کہی ہیں اس سے صاف ہوجاتاہے کہ بی جے پی نے جمہوریت کو پامال کیا ہے۔ بی ج یپی نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ اقتدار کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ کانگریس مسلسل کہتی رہی ہے کہ تمام سرکاری ایجنسیاں مودی حکومت کے دبا¶ میں کام کر رہی ہیں اور یہ جمہوریت اور آئین کےلئے خطرناک ہے۔کانگریس کے ریاستی صدر نے کہا کہ اگرچہ ایکناتھ شندے حکومت کو کچھ راحت ملی ہے لیکن سپریم کورٹ کے ریمارک تشویشناک ہیں۔ بی جے پی کے ساتھ اتحاد میں ایکناتھ شندے کی تشکیل کردہ حکومت کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ اگرچہ تکنیکی طور پر یہ حکومت بچ گئی ہے، لیکن اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ اقتدار کے لیے بی جے پی اور ایکناتھ شندے نے جو اقدامات کیے ہیں وہ غیر آئینی ہیں۔ عدالت نے کہا ہے کہ 16/ ایم ایل ایز کی نااہلی کا فیصلہ اسپیکر کو لینا چاہیے۔ قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بلا تفریق غور و خوض کے بعد منصفانہ فیصلہ کریں گے۔ پٹولے نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کے اقتدار کے بھوکے رویے نے ملک میں جمہوریت کا قتل کیا ہے۔

About Gawah News Desk

Check Also

ہندوستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے ذہن سازی۔غیر اخلاقی تعلقات سے پاک و صاف ماحول کی ضرورت

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے انتخابات اور منظورہ قراردادیںآل انڈیا مسلم پرسنل لا …

ایران۔ افغان سرحدی تصادم یا آبی جنگوں کا آغاز؟

اسد مرزا(دہلی)”ایران اور افغانستان کے درمیان حالیہ سرحدی جھڑپیں مقامی اور عالمی سطح پر مستقبل …

Leave a Reply