Monday , April 29 2024
enhindiurdu

میرے بچپن کا رمضان اورعید

یہ آج سے تقریباً سینتیس(۷۳) سال پرانی بات ہے جب میں دس سال کا تھا اور شہر حیدرآباد کے ایک قدیم اور باوقار محلہ ملک پیٹ جو کہ میرا پیدائشی محلہ ہے، مقیم تھا اور آج بھی وہیں ہوں۔اس وقت قدیم ملک پیٹ ”سلام صاحب کے دواخانہ“ سے مشہوراور ایک سمٹاہوا محلہ تھا جس کی حدودمغرب میں ملک پیٹ ریلوے اسٹیشن پر ختم ہوجاتی تھیں تو مشرق میں ریس کورس کی مغربی دیوار پر ختم ہوجاتی تھیں۔ اس کے آگے پورے کھیت تھے اور آگے ہندوو¿ں کاشمشان شروع ہوجاتاتھا اور شمال میں اس کی حدود موسیٰ ندی پر ختم ہوتی تھیں۔ جبکہ اس سے بہت پہلے ہی کھیتوں میںنئے نئے مکانات بننے شروع ہوگئے تھے جس میںمسجد ضیا ءالحق کی تعمیر بھی شامل تھی اور پورے قدیم ملک پیٹ میں یہ چوتھی مسجد بن رہی تھی جبکہ اس سے پہلے مسجد قطب شاہی، مسجد عثمانیہ (پرنس باڈی گارڈ لائن) اور مسجد نور صرف یہ تین مساجد ہی موجود تھیں جبکہ آج سارے قدیم ملک پیٹ میں تیس سے زیادہ مساجد موجود ہیں۔حیدرآباد کے اکثر محلوں سے گزریں تو جگہ جگہ ہرے بھرے درخت نظر آتے اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں ہمارے وجود کو مَس کرتیں۔ اکثر ہم رکشوں میں سفر کرتے جن کے پردے لگے ہوتے تھے۔خواتین میں گوشے پردے کا یہ عالم تھا کہ اگر رکشے کو پردہ نہ ہوتا تواسے واپس کردیا جاتا۔ شام ہوتے ہی محلہ پر اندھیرے کار اج ہوتا۔ سڑکوں پر کہیں کہیں الکٹرک کے کھمبے ہوتے جن پر ساٹھ بتی کا گولا لائٹ کا لگا ہوتا یا کہیں کچھ اس سے بڑا۔ ٹیوب لائٹ کا تو کوئی تصور نہ تھا الا ماشاءاللہ۔
نماز عشا کےساتھ ہی گلیاں اور سڑکیں سنسان ہوجاتیں اور سکان محلہ اپنے اپنے گھروںمیںبند ہوجاتے۔ راتوں کو تو شاید ہی گھر سے باہر کوئی نکلتا۔ اس وقت محلہ کے مکانات انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے۔ لوگوں کے پاس پیسہ بہت کم تھا لیکن ان کے دل خلوص کے سمندر سے بھرے ہوئے تھے۔ ہرایک کے غم و خوشی کے موقع پر وہ ایسے ہوتے جیسے وہ پڑوس نہیں بلکہ رشتہ دار ہوں۔
رمضان کا مہینہ
ایسے ہی خوبصورت اورمحبت کے ماحول میں رمضان کا مبارک مہینہ آتا اور چلاجاتا لیکن جس رمضان کے مہینہ میں میں نے ہوش کے ساتھ پورے تیس روزے رکھے، وہ گرما کے مہینہ کا رمضان تھا۔ رمضان کے مہینہ کی بہارتو شب معراج کے گزرنے کے ساتھ ہی محسوس ہونے لگتی اور شب برا¿ت تو گویا رمضان المبارک کا باب الداخلہ ہوتی کیونکہ اس کے گزرتے ہی گھروں میں صاف صفائی کااہتمام ہوتا اور گھروں کو چونا پانی کرلیا جاتا۔ مساجد بھی رنگ و روغن سے مزیّن ہوجاتیں۔ اب بس چاند رات کا انتظار ہوتا۔ دو دن پہلے مسجد کے میناروں پر سائرن کس دیئے جاتے اور ان کو بجا کر دیکھ لیا جاتا انتیس شعبان کی مغرب کی نماز مسجد نور میںپڑھ کر ہم چھت پر چلے جاتے کہ چاند ماموں کا نظارہ کرسکیں اور اگرمطلع صاف ہوتا اور چاند نظر آجاتا اور مسجد سے سائرن بجادیاجاتا تو ہم سب بچے مارے خوشی کے چاند مبارک! رمضان مبارک کے نعرے لگاتے اپنے اپنے گھروں کو جاتے اور امی جان اور ابا جان کو سلام کرتے اور ان سے د±عائیں لیتے اور پھر تراویح کی تیاری شروع ہوجاتی۔
اگر انتیس (۹۲) کی شب چاند نظر نہیں آتاتو پھر تیس شعبان کی رات یکم رمضان قرارپاتی اور تراویح اسی رات سے شروع ہوتی۔
چارمسجدیں تھیں تو ہر مسجد میں سواپارے کا اہتمام ہوتا۔ آج کی طرح جگہ جگہ پنچ شبی شبینہ، سہ شبی شبینہ، یک شبی شبینہ کی بدعت کہیں نظر نہ آتی۔ تراویح کے اہتما م میں امی جان میرے لئے ابا جان اور چھوٹے بھائی کےلئے سفید ململ کے کرتے اور پائجامے سلوا کر تیار رکھتیں اور اذان عشاءکے ساتھ ہی ہم وہی کپڑے زیب تن کرکے نماز کیلئے جاتے۔مسجد مصلیوں سے کھچاکھچ بھر جاتی۔ جب تراویح شروع ہوجاتی اور سب رکعت باندھ لیتے تو ہم تو بچے تھے، ابھی ہم پر نماز ہی فرض نہیں ہوئی تھی تو تراویح کا کیا سوال ہے؟ اِدھر امام صاحب نے عبادت شروع کی، ا±دھر ہم شریروں نے شرارت کی نیت کرلی اور مسجد کے صحن میں موجود مولصری کے گھنے درخت پر چڑھ کر جھاڑ بندر کھیلنا شروع کردیا ، جب تک امام صاحب سلام نہ پھیردیتے۔ جو بچے تراویح کی اہمیت سے بالکل بیگانہ تھے، وہ امام صاحب کے ”التحیات“ میں بیٹھتے ہی جھاڑ سے اتر کر مسجد کے باہر بھاگ جاتے اور جنکے خون میں شرافت و شرارت کی آمیزش ہوتی، وہ آکر آخرصف میں انتہائی شرافت کے ساتھ نمازیوں میں شامل ہوجاتے اور ساری تراویح اسی طرح مکمل ہوتی۔ کبھی کبھی دوچار رکعت پڑھ بھی لیتے تاکہ مصلیوں کو شک نہ ہو کہ ہم بھی ان شریروں میں شامل ہیں۔ بالکل معصوم اور بھولی بھالی صورتیں بنائے ہر دو اور چار رکعت والی تسبیحات میں شامل ہوتے۔ کبھی کبھی کھیل کی دھن میں یہ دھیان نہ رہتا کہ امام صاحب نے سلام پھیر دیا ہے اور ہم جھاڑ پر ہی ہوتے اور ہمارا شورسن کر مو¿ذن صاحب یا کوئی مصلی ہم کو پکڑنے آتے تو ہم دھنا دھن جھاڑ سے کود کر رفو چکر ہوجاتے۔اگر کوئی بچہ مو¿ذن صاحب یا کسی مصلی کے ہتھے چڑھ جاتا تو وہ غریب سب کی طرف سے فرض کفایہ کا فریضہ انجام دے کر آنسو پونچھتا ہوا جب مسجد سے باہر آتا تو سب بچے اس کی اس عظیم قربانی پر (یعنی مارکھانے پر)سلام پیش کرتے۔ وہ اور غصہ ہوکر مارنے کیلئے سب پر چڑھ دوڑتا اور سب ادھر ا±دھر گلیوں میں بھاگ جاتے اور وہ غریب روتا ہوا اپنے گھر کی راہ لیتا۔ ایسا ہر روز نہیں ہوتا مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوجاتاتھا۔
تراویح کے ختم پر وتر ونفل کے بعدصلوٰة پکارنے کا اہتمام ہوتا۔ صحن مسجد میںصلوٰة سے مراد یہاں نماز نہیں بلکہ مختلف انبیاءکرام کے نام کے ساتھ ان کے القاب کو بلند آواز سے پکارنا ہوتا ہے مثلاً الصلوٰةوالسلام علیک یا حضرت سیدنا آدم صفی اللہ، نوح النجی اللہ، ابراہم خلیل اللہ ، اسماعیل ذبیح اللہ، موسیٰ کلیم اللہ،عیسیٰ روح اللہ اور آخر میں سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علےہ وسلم کا نام پکارا جاتا اور آپ کے نا م کو سب ہم آواز ہوکر پکارتے اور پھر فاتحہ ہوتی۔ہر بچہ یہ چاہتا کہ صلوٰة پکارے مگر صلوٰة پر ایک صاحب نگران ہوتے جو باری باری بچوں کو موقع دیتے اور چونکہ اللہ عزوجل نے اس فقیر کو بچپن ہی سے خوش آواز کی نعمت سے نوازا ہے۔ جب ہم صلوٰة پکارتے تو سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلیتے تو ہم کو تقریباً روزانہ صلوٰ پکارنے کا موقع ملتا۔
اباجان کا یہ معمول تھا اور زندگی کے اخیر لمحہ تک یہ معمول رہا کہ الحمداللہ وہ مسجد سب سے پہلے جاتے اور سب سے آخر میں مسجد سے نکلتے تھے۔اللہ عزوجل ان کی قبر کو نور سے بھردے آمین۔جب ہم صلوٰة پکارتے تو اباجان بھی سنتے اور خوش ہوتے۔ اس وقت تو ہم معصوم تھے اور ہرچیزثواب کی نیت سے کرتے تھے۔ ہم کو کیا پتہ تھا کہ کیا سنت ہے کیابدعت؟ ہم سمجھتے تھے کے صلوٰة بھی رمضان کریم کی عبادت کا ایک حصہ ہے۔ ابا جان خوب سمجھتے تھے کہ یہ ایک مروجہ بدعت ہے۔ جو لوگوں نے گھڑلی ہے‘قربان جائیں ان کی دوراندیشی کے کبھی بھی انھوں نے ہم کو صلوٰة پکارنے سے نہیں روکا۔ انہیںاس بات کا علم تھا کہ یہ بچوں کا شوق ہے اور معصوم بچوں کو اس سے روکاجائے تو پھر ہزاروں سوال ان کے ذہنوں میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور یقینا انہیں اس بات کا پورایقین تھا کہ ان کی تربیت بچوں میں سنت و بدعت کے فرق کو بہت جلد محسوس کرلے گی ‘ چنانچہ یہی ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب لوگوں میں قرآن وسنت سے آگہی ہونے لگی اور لوگ سنت و بدعت کے فرق کو سمجھنے لگے توہم ہی کیا آہستہ آہستہ سب کے دلوں میں سنت سے محبت اور بدعت سے دوری ہونے لگی اور یوں یہ بدعت ختم ہوتی چلی گئی اور آج شاید ہی کسی کسی مسجد میں یہ رائج ہے۔ میں آج بھی اس وقت کو یاد کرتا ہوں تو بے ساختہ ہنسی آجاتی ہے کہ بچپن میں ہم کن کن چیزوں کو عبادت سمجھ کر کیاکرتے تھے اور آج تک میںاس تحقیق میں ہوں کہ تراویح کے بعد ”صلوٰة علی الانبیاءکا موجد“ کون ہے؟ اللہ عز وجل ہم سب کو لمحہ اخیر تک اتباع قرآن و سنت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
سحری میں ہماری آنکھ اس وقت کھلتی جب سحری والے بابا اپنا ”سحری باجہ“ بجاتے ہوئے چیخ چیخ کر کہتے ”سحری کرو ا±ٹھو“ اور اس کے ساتھ بہت سارے جملے وہ کہتے جو اس وقت ہمیں یاد نہیں۔ کبھی سائرن کی آواز ہمیں بیدار کردیتی اور کبھی گہری نیند میں ہوتے تو امی ابا اُٹھادیتے۔ بستر سے ہم ا±ٹھ کر بیٹھتے مگر جیسے ہی امی ابا پلٹے ہم پھر سوجاتے اور بار بار یہی ہوتا۔ وہ اٹھاتے اور ہم ”ابی اٹھ روں“ بول کے پھر سوجاتے بلکہ کبھی کبھی ہلکی پھلکی دھنکی بھی ہوجاتی توسازو آواز کی کرامت سے ہم ہیبت میںا±ٹھ بیٹھتے اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کراِدھر ا±دھر دیکھنے لگتے پھر ڈانٹ پڑتی تو فوراً ا±ٹھ کر چلنے لگتے اور ضرورت سے فارغ ہوکر دونوں ہاتھ دھولیتے اور پھر شروع ہوتی انگلی اور دانتوں کی لڑائی۔ سب کے بائیں ہاتھوں میں فاروقی منجن ہوتا اور شہادت کی انگلی برش(Brush)کاکام کرتی بلکہ بعض بعض گھرانوں میںکوئلہ منجن بھی استعمال کیاجاتا تھا۔
گرمیوں کا زمانہ تھا اور ہمارے گھر میں چھوٹا ساآنگن تھا اور امی جان اسی آنگن میں ساٹھ بتی والے بلب کی روشنی میں دسترچن دیتی تھیں۔ اس وقت سحری کے کھانوں میںدہی کا استعمال ضرورکیاجاتا تھا کہ روزے میں پیاس نہ لگے اور روزہ آسان ہوجائے۔ جب ہم کھا چکتے توابا جان اصراراً دوتین گلاس پانی پلادیتے۔ اکثر تو میںامی جان اور اباجان ہی روزہ رکھتے اور جب نانی ماں گھر آتیں تو ان کے ساتھ بھی سحری کے مزے ہوتے۔ کبھی کبھی میرے چھوٹے بھائی محمد ظہیرالدین بھی روزہ رکھتے اور سحری کرنے کی ضد کرتے اور سحر کرلیتے مگردن چڑھتے ہی جب پیاس کی شدت ہوتی اور وہ بے چین ہوجاتے تو انہیں پانی پلوادیاجاتا اور کہا جاتا کہ بچوں کیلئے کھاتا پیتا روزہ ہوتا ہے اور اسی طرح دوسرے گھروں میں معصوم بچوں کے ساتھ یہی سلوک کیاجاتا۔ ابھی رات گہری ہی رہتی۔ سائرن کے ساتھ ہی ہم سحر ختم کرلیتے مگر بعض لوگ اذان تک کھانے کے قائل رہتے اور اذان تک کھاتے۔ سحر کے بعد نماز فجر کے بہانے ہم اندھیری گلیوں میں نکل کر کسی الّو کی طرح اپنے دوستوں کو تلاش کرتے،اگر کوئی مل جاتا تواس کے ساتھ مسجد میں جاکر جھاڑ کے نیچے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا میں منطقیں مارتے بیٹھ جاتے۔ اس طرح ہماری نماز فجر قضا ہونے سے بچ جاتی ورنہ اکثر بچے کیا بڑے بھی سحر کرکے سوجاتے تو پھر صبح ہی کی خبر لیتے اور ایک فرض پر دوسرے کو قربان کردیتے۔ نمازفجر کے بعد اکثر ہم کرکٹ کھیلتے اور کچھ دیر بعد گھر جاکر سوجاتے اور طلوع شمس کے ساتھ ہی روزگار کی تیاریاں شروع ہوجاتیں۔ آفس والے آفس جاتے ‘کاروبار والے کاروبار ‘ اساتذہ اور طلباءمدرسہ اور اسکول جاتے نظر آتے مگر سب میں ایک چیز مشترک ہوتی۔ کیا چھوٹا کیا بڑا‘ رمضان کے احترام میں سب کے سرپر ٹوپی ہوتی جس سے سارا محلہ ایک نورانی منظر پیش کرتا۔ رمضان مبارک کی پہلی رات گزری کہ د ن کا منظر بالکل بدل گیا۔ اب ہوٹلوں پر پردے نظر آنے لگے بلکہ بعض ہوٹلیں تو ظہر تک بند رہتیں۔ اسی ماحول کاحصہ ہوتے ہوئے جب ہم اسکول ادارہ¿ ملیہ جاتے تووہاں کا ماحول بھی بڑا حسین ہوتا۔ سب بچوں کے سروں پر ٹوپی جو کہ وہاں کے یونیفارم کا حصہ تھی اور آنکھوں میں سرمہ ہوتا اور جس بچہ کے انکھوں میں سرمہ ہوتا وہ روزہ دار سمجھا جاتا۔ اسکول میں سب ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے۔ رمضان مبارک ! رمضان مبارک! اور سب دوست آپس میں ایک دوسرے سے پوچھتے کہ تم روزہ ہو۔ جو بچے روزہ رکھتے وہ تو بڑے زور و شور سے جواب دیتے ”الحمد للہ“ اور جو بچے سحری نہ کرتے‘ وہ صاف کہہ دیتے ”الحمد لبا“اور جن بچوں کا روزہ اسکول آتے وقت کھل جاتا تھا‘ اگرچیکہ وہ سحری کئے ہوئے ہوتے تھے تو ان کا جواب مشکوک ہوتا اور وہ بچے ”الحمد“ کہہ کر خاموش ہوجاتے تو دوسرے ساتھی باربار اصرار کرتے کہ کیا ”الحمد الحمد“ کہتے ہو یا کہوالحمد للہ یا کہو الحمدلبا۔صاف صاف کہو تو وہ چڑچڑا ہوکر کہتا ”بولا نا ”لبا“ بو لکے۔ یعنی روزہ نہ رکھنے کا جواب تھا ”الحمد لبا“۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آیا یہ ”لبا“ کس زبان کا لفظ ہے اور اس کا موجد کون ہے؟ اس وقت بچہ بچہ روزہ رکھنے کا شوقین ہوتا اور روزہ رکھتا تو پوری امانت داری کے ساتھ۔اگرچہ اسکول کا زمانہ تھا اور اسکول کی ٹانکیوں میں پینے کا پانی رکھا ہوتا اور دن گرم ہونے کے ساتھ روزہ دار بچوں کے حلق سوکھنے لگتے مگر مجال ہے کسی معصوم کی کہ پانی کا ایک گھونٹ بھی حلق سے نیچے اترے۔ یہ وہ جذبہ تھاجس نے آج تک ہم کو روزے کا مہتمم بنا رکھا ہے۔ اللہ عزو جل سے د±عا ہے کہ زندگی کا آخری روزہ بھی ہم سے نہ چھوٹے اور یہ سب رضائے الٰہی کیلئے ہو۔ آمین۔
گرما میں اسکول آدھے دن کا ہوتا اور ہم چھوٹنے کے بعدگھر واپس ہوتے ہوتے ظہر ہوجاتی اور پھر نمازِظہر کیلئے مسجد چلے جاتے اور اکثر ایسا ہوتا کہ ہم نماز ِظہر کے بعد مسجد ہی میں رُک جاتے اور مصلیوں کے مسجد سے جانے کا انتظار کرتے جب سب مصلی چلے جاتے تو اب ہم مسجد میں بستر لگادیتے۔مسجد کی بچھی ہوئی جائے نماز ہی بستر کا کام کرتی اور ایک اور جائے نماز جو کہ تہہ کی ہوئی ہوتی سرہانے تکیے کاکام کرتی۔اس وقت گرمیاں شدت کی تھیں تو مسجد کے فرش کے ساتھ جائے نماز بھی گرم ہوجاتی۔ مسجد کی چھٹ پر Usha کمپنی کے پنکھے لگے ہوتے اور ان کی رفتار بھی کہیں آہستہ کہیںتیز ہوتی۔ ہم مسجدکی دیوار پر لگے سوئچ بورڈ Swicht Boardپر اپنی قسمت آزماتے کہ کونسا پنکھا تیز چل رہاہے اور پھر جب اپنی قسمت کھل جاتی تواس تیز پنکھے کے نیچے لیٹ جاتے۔اسوقت تو ایرکولر کابھی کوئی تصور نہ تھا تو (اے سی )A/C کانام بھی شاید ہم نے سنا ہوگا۔اللہ عزول نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نے جو ترقی کی ہے او ر اپنے وجود کو فرحت بخش رکھنے اور دھوپ کی تمازت سے بچنے کیلئے جو طریقے ایجاد کئے ہیں ‘ اس کی انتہا (اے سی) ایرکنڈیشنر ہے لیکن اس وقت ہمارے معصوم ذہنوں نے کس طرح ایر کنڈیشنر کی ایجاد کی تھی۔ اس کی تفصیل بھی ذر ا سن لیجئے۔
ہم مسجد میں تہ کر کے رکھی ہوئی سفید چادر جس کو(چاندنی) کہتے ہیں‘اس کوتختے ہٹاکر حوض میں ڈبوتے اور اچھی طرح ڈبوتے کہ ایک سوت کی جگہ بھی سوکھی نہ رہتی اور پھر اچھا نچوڑ کراس پنکھے کے نیچے آتے جو تیز چل رہا ہو اور سر سے پیر تک اپنے وجودکو ڈھانک لیتے۔ چنانچہ پنکھے کی وہ گرم ہوا جب چادر سے چھن کر ہمارے وجود کو مَس کرتی تواس میںہم وہ قدرتی ٹھنڈک محسوس کرتے جو شاید اے سی میں بھی نہ ہو۔کب ہم کو آنکھ لگ جاتی پتہ ہی نہ چلتا۔ عصرکی اذان سے پہلے مو¿ذن صاحب کے شورسے یا کبھی اذان کے ساتھ ہماری آنکھ کھلتی۔ اس طرح ہم قدرتی اے سی کے مزے لوٹتے اور روزہ ہمارا کسی قدر آسانی سے کٹ جاتا اور یہی عمل اگر مسجد میںنہ ہوتاتو گھر پر ہوتا۔
جیسے ہی نماز عصر ہوتی‘گھروں میںافطار کی تیاریاں تیز ہوجاتیں۔بازاروں میں گہما گہمی بڑھ جاتی۔ مستقل دوکانوں کے علاوہ کچھ رمضانی تاجر بھی سڑک پر مختلف پھلوں کی د±کانیں لگالیتے۔ بازاروں میں خورد نوش کی تمام اشیاءوہی ہوتیں جو ہم سال بھر کھاتے رہتے البتہ دو نعمتوں کا بازاروں میں اضافہ ہوجاتا اور وہ تھے کھجور اور دہی بڑے۔کھجور تو وہی پینٹ کھجور ہوتے جوہردوکان اور ہر بنڈی پر نظر آتے۔ آج کی طرح کئی قسم کے کھجور کہاں دستیاب ہوتے۔بس یہی پینٹ کھجور ہوتے اور چنے کی ا±بلی ہوئی دال جو ہر غریب و امیر کی افطاری کا حصہ ہوتی۔ الا ماشاءاللہ۔ مشروبات میں لیمو کا شربت اور شربت روح افزاءہوتا۔ اس وقت حلیم کا تو کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ اکثر عصر کی نماز کے بعد ہم بے حال ہوجاتے۔ پیاس شدت کی لگ رہی ہوتی اور ہم اندر باہر آتے اور ہر دومنٹ میں امی ابا سے وقت پوچھتے رہتے اور امی ابا کہتے کہ بیٹا اللہ کا ذکر کرو۔ افطار کے وقت د±عا ئیں قبول ہوتی ہیں تو ہاتھ میں تسبیح لئے گھر کے باہر بیٹھ جاتے اور سبحان اللہ ، الحمد اللہ، اللہ اکبر پڑھنے لگتے اور گلی سے گزرنے والوں کو سلام کرتے۔ بدلے میں ہم کو ان کی مسکراہٹیں اور محبتیں ملتیں۔ امی جان کا یہ معمول تھا کہ وہ پکوان کے وقت یا افطار کی تیاری کے وقت ٹیپ ریکارڈ میں شیخ عبدالباسط عبدالصمد رحمتہ اللہ علیہ کی قرا¿ت سنتیں یا شاہ بلیغ الدین رحمتہ اللہ علیہ کی رسول اللہ صلی اللہ علےہ وسلم کی سیرت مبارکہ اور صحابہ کی سیرت پر مشتمل کیسیٹس سنتیں تھیں اور جانے انجانے میں سنی جانے والی یہ قرائتیں اور بیانات ہی کا نتیجہ ہے کہ آج یہ قلم اس قابل ہوا کہ ملت اسلامیہ کوکچھ دے سکے اور وہی قراءتوں کا نتیجہ ہے کہ آج اس حلق سے اللہ عزو جل اپنے کلام کی خدمت لے رہے ہیں۔ اللہ عزو جل میرے والدین کی قبر کو نور سے بھردے۔آمین۔
عصر کی اذان کے بعد مسجد میں یہ منظر ہوتا۔ مو¿ذن صاحب سامان کے کمرے سے مٹی کی صحنکیں اور کلیا باہر نکالتے اور بچوں کو دھونے کیلئے دے دیتے۔ بچے بڑے شوق سے یہ ڈیوٹی انجام دیتے اور ہم بھی اکثر اس میں شریک ہوتے۔ افطار سے پہلے ہی سے مسجد کیلئے گھروں سے افطاری آنا شروع ہوجاتی۔ کہیں سے کھجور ‘موز کے ٹکڑوں کے ساتھ سیب کے ٹکڑے‘ دال‘ کہیں سے دہی بڑے وغیروغیرہ اور پھر اس افطار کی تقسیم پر ایک نگران مقرر ہوتا اور وہ سب برتنوں میںافطار کی مناسب تقسیم کردیتا اور مو¿ذن صاحب کیلئے ایک بڑے کنڈے میں افطاری بھیجی جاتی۔مغرب کا وقت شروع ہونے سے کچھ پہلے مسجد میں مصلیوں کیلئے ایک پلاسٹک کا لا ل دسترخوان بچھایا دیا جاتا اور افطاری رکھدی جاتی اور سائرن کے ساتھ ہی سب دعا ختم کرکے روزہ کھول لیتے۔
بعد عصر ایک دوسرے کے گھر افطاری بھیجی جاتی،ہم اکثر مسجد میں افطار کرتے مگر گھر پر بننے والی اور تحفہ میں آنے والی افطار کی ایڈوانس بکنگ کردیتے کہ امی ہم تراویح کے بعد ا س پر ہاتھ صاف کریں گے اور ادھر مسجد میں تراویح کے بعد اس افطاری کے کنڈے کو نمودار کیاجاتا جسے مو¿ذن کے گھر بھیج دیا گیا تھا اور اس افطار میں ان سب بچوں کا حصہ ہوتا جنھوں نے افطاری کی تیاری میں مدد کی تھی۔ اس طرح رمضان شریف آتے تو ہمارے مزے ہی مزے ہوتے۔ اب سارا رمضان یہی کچھ ہوتا رہتا۔(باقی آئندہ)

About Gawah News Desk

Check Also

Congress To Interact with Muslims and Christians Leaders On Socio-Economic Problems

Party to Release Minority Declaration after Dussehra Hyderabad, October 14: The Congress party will release …

دنیا بھر کے مسلمان جمعہ 13/اکتوبر کو ”یوم طوفان اقصیٰ“ کا اہتمام کریں گے۔ نماز …

Leave a Reply