Thursday , May 2 2024
enhindiurdu

تاریخ فراموش کرنا سنگین جرم ہی تو ہے!

تعلیم کو اپنے رنگ میں رنگنے کے لئے آر ایس ایس منصوبہ بند کوششیں کرتی آئی ہے۔ جب جب بی جے پی مرکز ےا پھر رےاستوں میں برسر اتقدار آئی تب تب تعلےمی نصابی کتابوں میں ترمےمات اور چند حصے حذف کرنے کی کوشیں ہوئی ہےں۔ این سی ای آر ٹی NCERT کی نصابی کتابیں جو CBSE نصاب تعلیم میں پہلی تا بارہویں جماعت تک پڑھائی جاتی ہےں‘ ان نصابی کتابوں میں ہندوتوا نظرےات کی شمولیت کے لئے بی جے پی حکومتوں کی اےماءپر ترمےمات اور کچھ حصے حذف کرنے کا چلن عملی طور پر ہوتا رہا ہے۔ 2017ءاور 2019ءمیں تاریخ کی نصابی کتابوں میں اُلٹ پلٹ ہوتی رہی ہے۔ کتابوں کی ضخامت کم کرنے اور طلبہ کو علوم کے سےکھنے میں آسانی Student’s Friendly نصاب کے نام پر گزشتہ سال سماجےات اور تاریخ کی نصابی کتابوں سے کچھ حصوں کے خلاف Deletion کئے جانے کا اعلان ہوا تھا۔ ج واز ےہ بتاےا گےا تھا کہ منطقی طور پر Logically نصاب کو عصری تقاضوں کے تحت از سر نو ترتیب دےا جائے۔ ابھی چند دن قبل این سی ای آر ٹی نے بارہویں جماعت کی تاریخ کی کتاب کے نصاب سے ہندوستان کی تاریخ وسطی Medieval History کے باب میں مغلےہ دورِ حکومت کی تاریخ کو نصاب سے حذف کررہا ہے۔ مغل شہنشاہ مسلمان تھے اور ان کے کارناموں، فتوحات، اصلاحات، رواداری، ترقی و تعمےرات کے حقائق سے نئی نسل کو گمراہ کرنے کی مذموم کوششیں کی گئی ہے۔ اس اقدام کی مذمت میں ملک کے نامور مورخین بشمول رومےلا تھاپر اور پروفےسر عرفان حبےب نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لےتے ہوئے اس کو تاریخ کے ساتھ سےاسی کھلواڑ قرار دےا ہے۔ اور اپنی فکر جتاتے ہوئے کہا ہے کہ نئی نسل کو نصاب میں چھیڑ چھاڑکرکے گمراہ کیا جارہاہے۔ طلبہ کو اپنے ملک کی تاریخی وراثت سے اور اس کے ارتقائی سفر سے لاعلم کےا جارہا ہے جو مجرمانہ اقدام ہے۔ نےتاجی سبھاش چندر بوس جو آزاد ہند فوج کے اعلیٰ کمانڈر کی حیثیت سے ۶۲ستمبر ۳۴۹۱ءکو رنگون (برما‘ اب موجودہ مےانمار) کا شہر ےانگان پہنچے اور وہاں انہوں نے آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے مزار پر حاضری دی اور اپنا خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ بہادر شاہ ظفر نہ صرف آزادی کی پہلے جنگ کے ہیرو تھے بلکہ عظیم مغل خاندان کے آٓخری حکمران تھے جس نے ہندوستانی تاریخ میں ایک شاندار اور قابل فخر باب کا اضافہ کےا تھا۔ نےتاجی کے اےسا کہنے کے پےچھے مغل سلطنت کے دور میں ہندوستان میں سےاسی، اقتصادی، حکمت عملی اور فنی مےدانوں میں ترقی کے علاوہ آپسی مےل ملاپ کی تہذیب کی جو ترقی تھی ان پہلوﺅں کی جانب توجہ مبذول کرانا تھا۔ آر ایس ایس جو مغلوں سے متعلق نصابی کتابوں سے اسباق ہٹائے جانے کی ذمہ دار ہے وہ نےتاجی کے آدرش اور بصےرت کا دَم بھرتی ہے۔ مگر ان کے علمی نظرےات سے دوری اختےار کرتے ہوئے اپنے اےجنڈے کے تحت تعلیم کے شعبہ کی زعفرانیت پر اپنی توانائیاں صرف کررہی ہے۔ تجزےہ نگار پنکج سرےواستو نے اس ضمن میں مرہٹہ حکمران شےواجی مہاراج کا اورنگ زیب کے نام لکھے ایک خط کا تذکرہ کےا ہے جس میں شےواجی نے اکبراعظم کو ’جگت گرو‘ قرار دےتے ہوئے ہندوﺅں اور مسلمانوں کو ایک بتاےا ہے۔ شےواجی نے لکھا تھا کہ ”اکبر نے اس عظیم رےاست پر ۲۵سال تک اتنی احتےاط اور عمدگی سے حکومت کی کہ تمام فرقوں کے لوگوں کو خوشی اور مسرت ملی۔ ملک کے تمام آبادی پر ان کی نظر ایک جےسی تھی۔ اس صلح کل کے روےے کی وجہ سے سب نے انہیں ”جگت گرو“ کا خطاب دےا تھا۔ ےہی وجہ تھی کہ وہ (اکبر) جدھر بھی دےکھتے فتح ان کا استقبال کرتی تھی۔ قرآن اللہ کا کلام ہے۔ اس میں اللہ کو مسلمانوں کا نہیں‘ پوری کائنا کا خدا کہا گیا ہے۔ ہندو مسلم ایک ہےں“
واضح ہے اگر طلبہ ان واقعات کو پڑھےںگے تو ملک میں مذہبی منافرت کے ماحول پر سوال اٹھائےںگے۔ مگر آر ایس ایس سوال کرنے کی سبھی رجحان سے خوف زدہ ہے۔ وہ (آر ایس ایس) ”وچارک“ (علم سے آراستہ ہنرمند) نہیں چاہتی بلکہ اِسے ”پرچارک“ (اپنے نظرےات عام کرنے والا) چاہئے۔ ےعنی آر ایس ایس اپنے سنائے ہوئے قصے کہانیوں کو بھلے اس کے تاریخی شواہد ےا ثبوت نہ بھی ہوں تو اس کو تاریخ سمجھےں اور ےہی کچھ سےکھےں جو سکھاےا جائے۔ اس طرح وہ (آر ایس ایس) نوجوانوں کو ’حکم کی تعمیل کرنے والے‘ بنانا چاہتی ہے نہ کہ حقائق، منطقی اصولوں اور تنقیدی سوچ کے امکانات سے ابھرنے والے سوالات اٹھانے والے۔
تاریخ کے ساتھ اپنی مرضی کے مطابق اپنے بنےاد پرست ہندوتوا اےجنڈے کو عام کرنے اےن سی ای آر ٹی کی بارہویں جماعت کی تاریخ کے نصاب میں جمہوریت کی افادےت اور عظمت اور عوامی تحرےکات سے متعلق اسباق بھی ہٹائے (Delete) جارہے ہےں۔ مہاتما گاندھی کے ہندومسلم رواداری نظرےات، مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کے ’سنگھ‘ سے تعلقات اور اس پر سردار پٹیل کی جانب سے لگائی گئی پابندی، تحریک آزادی میں آر ایس ایس کی عدم شمولیت اور برطانوی سامراج کی طرفداری جےسے تاریخی موضوعات بھی ہٹائے جارہے ہےں۔ مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے پچاس سالہ دورِ حکومت میں اس کے درباری راج مان سنگھ، تودرمل، بےربل جےسے نورتن کا تذکرہ آئے گا۔ اس کے حریف رانا پرتاپ سنگھ کا ساتھ حکےم خان سور دکھادےںگے۔ اورنگ زیب کے دربار میں راجہ جئے سنگھ اور جسونت سنگھ ملےںگے۔ اور اورنگ زیب سے ٹکرّ لےنے کے شےواجی کی فوج میں توپ خانے (اسلح) کے سربراہ ابراہیم خان بحری فوج کے سربراہ دولت خان اور سفےر کے طور پر قاضی حےدر کے نام ملےںگے۔
اب بھلا آر ایس ایس اور اس کی پیداوار بی جے پی کو ملک کی اس عظیم گنگاجمنی تہذیب کی روایت بھلا کےسے راس آئے گی۔ وہ (آر ایس ایس) تو انگریزوں کی تقلید میں مذہب کے نام پر ملک میں نفرت کو بڑھا دے کر جارحانہ قوم پرستی کو فروغ دےنا چاہتی ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی نصابی کتابوں میں اپنے ایک طرفہ فےصلوں سے ملک و قوم کے مفاد میں جو ترمےمات اور تارےخی حقائق کو حذف کرنے کے اقام کررہی ہے وہ ملک کی بنےادی مشترکہ تہذیب و ثقافت کے برعکس ہے۔

About Gawah News Desk

Check Also

ہندوستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے ذہن سازی۔غیر اخلاقی تعلقات سے پاک و صاف ماحول کی ضرورت

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے انتخابات اور منظورہ قراردادیںآل انڈیا مسلم پرسنل لا …

ایران۔ افغان سرحدی تصادم یا آبی جنگوں کا آغاز؟

اسد مرزا(دہلی)”ایران اور افغانستان کے درمیان حالیہ سرحدی جھڑپیں مقامی اور عالمی سطح پر مستقبل …

Leave a Reply