قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام ‘اردو فکشن میں تقسیمِ ہند کا بیانیہ’ کے عنوان سے آن لائن مذاکرہ
نئی دہلی:قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام ‘اردو فکشن میں تقسیم ہند کا بیانیہ’ کے عنوان سے آن لائن مذاکرے کا اہتمام کیا گیا،جس میں ملک کے اہم فکشن نگاروں اور دانشوروں نے شرکت کی۔مذاکرے کے آغاز میں کونسل کے ڈائرکٹر پروفیسر شیخ عقیل احمد نے تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے شرکائے مذاکرہ اور مہمانوں کا استقبال کیا اور موضوع کا تعارف کرواتے ہوئے تقسیم ہند کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سماجی منافرت اور ادب اور فکشن میں اس کی عکاسی پر روشنی ڈالی۔انھوں نے کہا کہ تقسیم ہند کے موقعے پر جو نفرت مختلف قوموں کے درمیان پیدا ہوئی تھی اس کا سلسلہ کسی نہ کسی سطح پر آج بھی جاری ہے۔ایسے میں جس طرح ماضی میں ہمارے فکشن نگاروں اور تخلیق کاروں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے سماج کی رہنمائی کی کوششیں کی تھیں، اسی طرح آج بھی ملک کے تخلیق کاروں اور دانشوروں کی ذمے داری ہے کہ وہ بہتر اور انصاف پرور سماج کی تشکیل کے سلسلے میں غور و خوض کریں اور اپنی تخلیق و تدبیر کے ذریعے اس حوالے سے مطلوبہ کردار ادا کریں۔ شیخ عقیل نے کہا کہ آج کا موضوع گرچہ بہت پرانا ہے، مگر بعض اعتبار سے اس کی اہمیت آج بھی مسلم ہے، اسی لیے ہم نے اس پر مذاکرے کا فیصلہ کیا ہے۔آج کے ہمارے مہمانوں میں ہندوستان کے نمایاں فکشن نگار اور فکشن کے ناقدین شامل ہیں،اس لیے مجھے امید ہے کہ ان حضرات کی گفتگو سے موضوع کو سمجھنے اور ہندوستان ہی نہیں، تمام برصغیر میں وسیع تر سماجی ہم آہنگی کے قیام میں ہمیں رہنمائی ملے گی۔
مذاکرے میں حصہ لیتے ہوئے پروفیسر خالد اشرف نے کہا کہ تقسیم ہند ایک سدا بہار موضوع ہے،جس پر ناول اور افسانے دونوں بڑی تعداد میں لکھے گئے ہیں۔البتہ جو بڑے تخلیق کار ہوئے ہیں انھوں نے اس سانحے کو وسیع تر تناظر میں دیکھا اور اس کے تمام تر سماجی و سیاسی اسباب و عوامل کو پیش نظر رکھ کر اس موضوع کو برتا ہے،جبکہ چھوٹے تخلیق کاروں نے اپنے خاص مقصد و جذباتیت کے تحت کہانیاں لکھی ہیں۔ ناول نگار شبیراحمد نے کہا کہ یہ درست ہے کہ تقسیم ہند کے سانحے پر اردو میں بہت سے ناول اور افسانے لکھے گئے، مگر یہ سانحہ جتنا بڑا تھا اور اس کا دائرہ جتنا وسیع تھا،اسے دیکھتے ہوئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہم نے تقسیم ہند کے تمام پہلووں کا احاطہ کرلیا ہے،اب بھی اس کے بعض گوشوں پر اچھا فکشن لکھا جاسکتا ہے۔اسی طرح نئی نسل سابقہ تخلیقی نمونوں کو سامنے رکھ کر نئی راہ اختیار کرسکتی ہے اور پرانے موضوعات و مسائل کے ساتھ نئے مسائل کا بہتر تخلیقی اظہار کر سکتی ہے۔ سینئر تجزیہ نگار شمیم طارق نے کہا کہ یہ موضوع غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے اور اگر عنوان اردو فکشن کا بیانیہ کے بجائے المیہ ہوتا تو زیادہ بہتر ہوتا کیوں کہ اردو فکشن میں تقسیم ہند کے واقعات المیہ کے طورپر ہی بیان کیے گئے ہیں،مثال کے طورپر بیدی کے افسانے لاجونتی میں انسانی نفسیات کو پیش کیا گیا ہے۔ معروف فکشن نگار پروفیسر غضنفر علی نے کہا کہ تقسیم ہند کے سانحے پر لکھے گئے فکشن کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے اس کی مدد سے تقسیمِ ہند کی پوری تاریخ لکھی جاسکتی ہے۔ہمارے ناول نگاروں نے تقسیم کے اسباب و محرکات اور اثرات کا بھرپور احاطہ کیا ہے۔جہاں تک بیانیے کی بات ہے تو زیادہ تر اردو ناولوں کا بیانیہ مستحکم اور اچھا ہے، جبکہ کچھ ناولوں کا بیانیہ کمزور ہے ۔انھوں نے اس کی کچھ مثالیں بھی پیش کیں۔ پروفیسر اعجاز علی ارشد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ تقسیم ہند کے سانحے کو جن لوگوں نے بذات خود جھیلا اور بعد میں انھوں نے اس پر لکھا انھوں نے اسے المیے کے طورپر پیش کیا،جبکہ جو لوگ اس واقعے سے خود نہیں گزرے انھوں نے اسے محض ایک تاریخی واقعے کے طورپر پیش کیا۔انھوں نے کہا کہ ہجرت کے پچاس سال بعد ان مہاجروں کی نفسیات کیا ہے،اس پر بھی ہمارے فکشن نگاروں کو توجہ دینا چاہیے۔انھوں نے زوردیا کہ سماجی اعتبار سے تقسیم سے پہلے ہم جس طرح مشترکہ قدروں سے بندھے ہوئے تھے،خطے میں اس احساس کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔
آخر میں پروفیسر شیخ عقیل احمد کے اظہارِ تشکر کے ساتھ یہ مذاکرہ اختتام پذیر ہوا۔نظامت کا فریضہ ڈاکٹر زین شمسی نے انجام دیا۔ مذاکرے میں کونسل کے اسٹاف کے علاوہ بڑی تعداد میں اہل علم و ادب نے فیس بک لائیو کے ذریعے شرکت کی۔
(رابطہ عامہ سیل)