Sunday , December 22 2024
enhindiurdu

انڈیا بنام بھارت کہیں نوٹ واپسی پر آخری مہر تو نہیں

ائین ہند کے ارٹیکل ایک میں تحریر یہ عبارتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ انڈیا اور بھارت دونوں نام ہمارے ملک کے ہیں۔ یعنی ان دو ناموں سے ہمارا دیش جانا جائے گا اور جانا جاتا ہے۔ حالانکہ عام طور پر یہ مانا گیا ہے کہ ہمارا وطن بھارت، انڈیا، ہندوستان اور اریہ ورت کے ناموں سے جانا جاتا ہے۔ اریہ ورت ہمارے ملک کا وہ نام ہے جسے اب ہاشیے پر بھی جگہ نہیں ملتی۔ یہ نام صفحات سے تقریبا پوری طرح غائب ہو چکا ہے۔ ہندوستان نام بھی اب جلسے، جلوس اور مشاعروں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ ہاں جذبات اور جنون کے سائے میں جب زندہ باد کے نعرے لگائے جاتے ہیں تب دل و ذہن اور زبان پر ہندوستان زندہ باد بے اختیار آجاتا ہے۔ ان سب کے باوجود ہمارے ملک کہ موجودہ حالات میں اریہ ورت اور ہندوستان کا کوئی چرچہ نہیں۔ ان دنوں اگر چرچہ ہے تو انڈیا بنام بھارت کا۔ انڈیا دیٹ از بھارت India that is Bharat آئین میں یوں ہی تحریر نہیں کر دیا گیا۔ آرٹیکل ایک کے تحت ان ناموں کو لے کر سویدھان سبھا کی چار اہم نشستوں میں اس پر چرچا اور بحث کیا گیا۔ 15 اور 17 نومبر 1948 کو دو دن اس پر بحث ہوئی۔ جبکہ اس بحث کی تقریبا ایک سال کے بعد 17 اور 18 ستمبر 1949 کو دوبارہ اس پر چرچا کیا گیا۔ان چار دنوں کی بحث کے بعد اخر کار 18 ستمبر 1949 کو انڈیا دیٹ از بھارت India that is Bharat یعنی ہمارے وطن عزیز کے ان دو ناموں کوائنی شکل دے دی گئی۔مرکزی حکومت کی جانب سے گزشتہ دنوں چار بار انڈیا کی جگہ بھارت تحریر کیے جانے کی بات سامنے ائی ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان دو ناموں سے ہمارا ملک آئینی طور پر جانا جاتا ہے پھر انڈیا کی جگہ بھارت لکھے جانے پر ہنگامہ کیوں؟ اس کے لیے چار مواقع پر تحریر کی گئی عبارتوں پر غور کرنا ضروری ہے۔ پہلا موقع جب جی 20 اجلاس کے موقع پر ملک کے صدر کی جانب سے ڈنر پارٹی کے دعوت نامہ پر پریسیڈنٹ آف انڈیا President of India کی جگہ پر پریسیڈنٹ اف بھارت President of Bharat تحریر کیا گیا۔ اس موقع پر موجود افسران کے لیے بھی انڈیا کی جگہ بھارت کا استعمال کیا گیا۔ وزیراعظم نریندر مودی کی حالیہ ساؤتھ افریقہ اور گریس کے دورے پر فنکشن نوٹس پر پرائم منسٹر اف انڈیا Prime minister of India کی جگہ پر پرائم منسٹر اف بھارت Prime minister of Bharat درج کیا گیا۔ چوتھی بار انڈیا بنام بھارت کا معاملہ تب سامنے ایا جب کل یعنی سات ستمبر کو ہونے والے انڈونیشیا دورے کہ فنکشن نوٹس پر انڈیا کی جگہ بھارت لکھا گیا ہے۔ ان تمام جگہوں پر انڈیا کی جگہ بھارت لکھنے پر اس لیے ہنگامہ ہوا کیونکہ یہ تمام نام انگریزی سے لکھے گئے ہیں اور جہاں ازادی کے ساتھ ہی انگریزی سے لکھے جانے والے مقامات پر انڈیا کا ہی استعمال ہوا ہے۔ یہ چار موقع اب تک کی روایت کے خلاف ہیں یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں اس معاملے کو لے کر ہنگامہ برپا ہے۔
عام طور پر سیاسی حلقوں اور اہل علم میں یہ تصور کیا جا رہا ہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے یہ واقعات ہمارے ملک کا نام انڈیا کو خارج کر صرف بھارت کیے جانے کی جانب اٹھنے والا قدم ہے۔ ایسا اس لیے بھی سوچا جا سکتا ہے کہ حکومت کو جگہوں کے نام بدلنے کی بڑی انوکھی عادت ہے۔ حکومت کے اچیومنٹ کی فہرست میں نام بدلنے کو بھی بڑے اہتمام کے ساتھ شمار کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کے ذریعے سڑکوں، محلوں، شہروں اور دیگر چیزوں کے نام بدلنے کا یا پہلا موقع نہیں بہت بار ایسا ہو چکا ہے۔لیکن کسی بھی نام کے بدلے جانے پر اتنے بڑے پیمانے میں سیاسی ہنگامہ نہیں ہوا۔ اج اچانک جو ملک کی سیاسی پارٹیاں جاگ گئی ہیں وہ کس خواب غفلت میں تھی جب مرکزی اور ریاستی حکومت کے ذریعے نام بدلنے کا اغاز ہوا تھا۔ شاید اس لیے یہ سیاسی پارٹیاں خاموش تھیں کہ جو نام بدلے جا رہے تھے ان سب کا تعلق مسلمانوں سے تھا۔
اب تک جتنی بار بھی کسی چیز کا نام بدلا گیا ہے وہ کسی نہ کسی صورت حکومت کے مفاد میں رہا ہے۔ سیاست ایک ایسا میدان عمل ہے جہاں کوئی بھی کام بغیر مفاد کے نہیں کیا جاتا ہے۔ انڈیا کو صرف بھارت کرنے کے پیچھے کیا مفاد ہو سکتا ہے یہ ایک اہم سوال ہے۔ جس کے تحت ملک کی معیشت پر غور کرنا لازمی ہے جب نوٹ بندی کی گئی تو حکومت نے کئی دعوے کیے اور اس کے فائدے گناہے لیکن اس کا حاصل یہ رہا کہ ہماری معیشت گھٹنوں کے بل ا گئی۔ ابھی حال ہی میں ہوئی کرناٹک کے ریاستی انتخاب کے بعد دو ہزار کی نوٹ بند کر دی گئی۔ جب نوٹ بندی کے بعد دو ہزار کا نوٹ جاری کیا گیا تھا تب بھی میں اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ ملک کی موجودہ معیشت پر اتنے بڑے نوٹ کا جاری کرنے کا کیا مطلب ہے۔ 2000 کا نوٹ 90 فیصد ملک کے عوام سے پہنچ کے باہر کی چیز ہے۔ دور دراز کے علاقے میں بے شمار ایسے لوگ ہیں جو دو ہزار کا نوٹ چھو بھی نہیں سکے اور یہ واپس لے لی گئی۔ بینکوں میں کہیں قطاریں نہیں دیکھی گئی گرامین بینک یعنی 70 فیصد بینکوں میں بہت کم لوگ دو ہزار کے نوٹ لے کر بینکوں تک پہنچ سکے۔ کیونکہ یہ ملک کی ایک بڑی آبادی کے پہنچ سے باہر کی چیز تھی۔ لہذا کوئی قطاریں نہیں لگی اور نہ ہی عوام اس پہ الجھ سکے۔ مرکزی حکومت ملک کا نام صرف بھارت کرنے میں اگر کامیاب ہو جاتی ہے تو تمام چیزوں سے انڈیا کا نام ہٹایا جائے گا ایسی صورت میں سبھی انڈین کرنسی میں انڈیا درج ہے۔ پھر ضرورت پیش ائے گی انڈیا کو بھارت میں بدلنے کی جس کے لیے نوٹ بندی تو نہیں کی جا سکتی ہے ہاں مگر نوٹ واپسی کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ انڈیا بنا بھارت نوٹ واپسی کی جانب اٹھنے والا ایک قدم ہو سکتا ہے۔

About Gawah News Desk

Check Also

اظہار رائے کی آزادی، نفرت انگیز تقاریر کی اجازت نہیں دیتی

اسد مرزا(دہلی)”سویڈن اور ڈنمارک میں انتہائی دائیں بازو کے عناصر کی طرف سے قرآن پاک …

Leave a Reply