Thursday , November 21 2024
enhindiurdu

کیا ہے کانگریس کی انتخابی حکمت عملی

لوک سبھا انتخابات 2024 کی تیاری کے لئے بلائی گئی میٹنگ میں کانگریس کے تمام سینئر لیڈر، جنرل سکریٹری، ریاستی یونٹوں کے صدور اور نگراں شریک ہوئے۔ میٹنگ میں تمام ریاستی انتخابی کمیٹیاں تشکیل کرنے، وار روم بنانے اور موزوں متوقع امیدواروں کے نام پارٹی سربراہ کو بھیجنے کے لئے کہا گیا ہے۔ سینئر لیڈران کی کمیٹی نے لوک سبھا انتخاب میں ”پورے فوکس“ کیلئے 255 پارلیمانی حلقوں کی پہچان کی ہے۔ یہ دس بڑی ریاستوں، نارتھ ایسٹ کے سات اور مرکز کے زیر انتظام صوبوں کی سیٹیں ہیں۔ جانکار ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ وہ سیٹیں ہیں جہاں کانگریس کو جیت دکھائی دے رہی ہے۔ ایسے میں پارٹی کوئی موقع چھوڑنا نہیں چاہتی۔ کانگریس اعلیٰ کمان کی طرف سے سبھی ریاستی لیڈران کو گٹھ بندھن میں شامل جماعتوں کے ساتھ سیٹوں کی تقسیم کو لے کر بات چیت میں نرم رخ اپنانے اور بیان بازی سے بچنے کو کو کہا گیا ہے۔ نجی طور پر پارٹی لیڈران نے کہا کہ ”انڈیا“ اتحاد کے ساتھیوں کے ساتھ سیٹوں کی تقسیم کا فیصلہ اس مہینے کے آخر تک ہو جائے گا۔
جن 255 سیٹوں پر کانگریس اکیلے الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ان میں ان ریاستوں کی سیٹیں شامل ہیں جہاں کانگریس بی جے پی یا ریجنل پارٹیوں کے بیچ سیدھا مقابلہ ہے۔ ان ریاستوں میں انڈیا اتحاد میں شامل کسی پارٹی کا کوئی دخل نہیں ہے۔ ان میں مدھیہ پردیش، راجستھان، کرناٹک، آندھرا پردیش، تلنگانہ، اڑیسہ، چھتس گڑھ، ہریانہ، اتراکھنڈ، ہماچل پردیش کے ساتھ گوانارتھ ایسٹ کی سبھی ریاستیں شامل ہیں۔ لکشدیپ کو چھوڑ کر مرکز کے زیر انتظام سبھی صوبوں میں کانگریس اکیلے الیکشن لڑے گی۔ اس طرح دس ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام 6 صوبوں میں کانگریس کا اپنے دم پر الیکشن میں اترنے کا ارادہ ہے۔ اس کے علاوہ نو ریاستوں میں کانگریس اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر چناؤ لڑے گی۔ ایک اندازے کے مطابق لوک سبھا کی 545 سیٹوں میں سے آدھے سے زیادہ سیٹوں پر کانگریس اپنے امیدوار اتار سکتی ہے۔ اترپردیش، بہار، جھارکھنڈ، کیرالہ، تمل ناڈو، مغربی بنگال، دہلی، پنجاب اور مہاراشٹر وغیرہ میں کانگریس سیٹوں کی تقسیم کے ساتھ انتخابی میدان میں اترے گی۔
پچھلے الیکشن میں کانگریس جن سیٹوں پر دوسرے نمبر پر تھی وہ وہاں کسی طرح کا تال میل نہیں چاہتی۔ ان سیٹوں پر کانگریس اپنے امیدوار اتارنے کے موڈ میں ہے۔ اتحادی ساتھیوں سے سیٹوں کا بٹوارہ کانگریس دو پارلیمانی انتخابات اور اس کے بعد ہوئے اسمبلی چناو کی بنیاد کرے گی۔ کانگریس کے سینئر ممبران کی کئی دن چلی میٹنگ میں گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد سیٹوں کی تقسیم کا فارمولہ طے کیا گیا ہے۔ پارٹی کے ریجنل لیڈران کا خیال تھا کہ گٹھ بندھن سے فوری طور پر تو کانگریس کو فائدہ ہوگا لیکن اس کا دور رس کانگریس کو نقصان ہوگا۔ جن سیٹوں پر کانگریس اپنا دعویٰ چھوڑ دے گی وہاں ہمیشہ کے لئے اس کا دعویٰ ختم ہو جائے گا۔ اس سے قومی سطح پر کانگریس کا دائرہ سکڑ جائے گا۔ اس پر اعلیٰ کمان کا کہنا ہے کہ گٹھ بندھن کرکے اگر کانگریس 2024 میں اقتدار حاصل کر سکتی ہے تو اسے قربانی دے کر بھی اتحاد کرنا چاہئے۔ کیونکہ سوال الیکشن جیتنے ہارنے کا نہیں بلکہ آئین اور جمہوریت کو بچانے کا ہے۔ ہم یہ قربانی دینے کو تیار ہیں۔
سیٹوں کی تقسیم کو لے کر سب سے زیادہ رسہ کشی اترپردیش میں ہوگی۔ کانگریس یہاں 15 سے 20 سیٹوں پر الیکشن لڑنا چاہتی ہے۔ جبکہ اکھلیش یادو 65 سیٹیں اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ کانگریس کو 8 سے 10 سیٹیں دینا چاہتے ہیں اور ریجنل پارٹیوں کو 5 سے 7 سیٹیں دینے کے موڈ میں ہیں۔ کانگریس کی ریاستی اکائی کے کئی بڑے لیڈر 35 سے 40 سیٹیں چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب سماجوادی پارٹی بی ایس پی کو زیادہ سیٹیں دے سکتی ہے تو کانگریس کو کیوں نہیں؟ کانگریس نے 2009 میں یوپی سے 21 سیٹیں جیتی تھیں۔ حالانکہ تب اور اب کے حالات اور زمینی حقیقت کافی بدل چکی ہے۔ اس وقت آر این پی سنگھ، جتن پرساد، انو ٹنڈن، سنجے سنگھ اور جگدمبیکا پال کانگریس کے ساتھ تھے۔ کانگریس وہ سیٹیں بھی چاہے گی جن پر وہ پچھلے الیکشن میں نمبر دو پر تھی۔ ان میں کانپور، فتح پور سیکری اور امیٹھی شامل ہے۔ ذرائع کے مطابق اس کے علاوہ اناؤ، سہارنپور، لکھنؤ، بریلی، فرخ آباد اور لکھیم پور کھیری کی سیٹ پر کانگریس اپنے امیدوار اتارنا چاہتی ہے۔ حالانکہ یوپی میں کانگریس کے پاس مضبوط امیدواروں والی سیٹوں کی تعداد 10 سے 12 ہی رہ گئی ہے۔ پارٹی کو اتنی ہی سیٹوں پر صبر کرنا پڑ سکتا ہے۔
یوپی کے بعد مہاراشٹر دوسری سب سے زیادہ سیٹوں والی ریاست ہے۔ یہاں سیٹوں کی تقسیم کو لے کر پینچ پھنس سکتا ہے۔ کانگریس مہاراشٹر میں 20 سیٹوں پر الیکشن لڑنا چاہتی ہے۔ جبکہ شیو سینا 23 سیٹوں پر چناؤ لڑنے کا دعویٰ کر رہی ہے۔ این سی پی بھی کم سیٹوں پر الیکشن لڑنا نہیں چاہتی۔ حالانکہ این سی پی اور شیو سینا میں ٹوٹ ہو چکی ہے۔ اس لحاظ سے پچھلا الیکشن سیٹوں کی تقسیم کی بنیاد نہیں ہو سکتا۔ اس لئے کانگریس یہاں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے۔ مغربی بنگال میں بھی کانگریس پس وپیش میں ہے۔ وہ ابھی تک طے نہیں کر پائی ہے کہ اسے لیفٹ کے ساتھ گٹھ بندھن کرنا ہے یا ٹی ایم سی کے ساتھ۔ ممتا لیفٹ کے ساتھ اتحاد کرنے کو تیار نہیں ہوں گی۔ کانگریس بہرام پور، جنوبی مالدہ کے علاوہ دارجلنگ، پرولیا، رائے گنج اور شمالی مالدہ سمیت چھ سیٹوں پر چناؤ لڑنا چاہتی ہے۔ جبکہ ممتا بنرجی کانگریس کو تین سے زیادہ سیٹیں دینا نہیں چاہتی۔ دہلی اور پنجاب میں سیٹوں کی تقسیم کا فیصلہ آسان نہیں ہوگا۔ دہلی میں کانگریس کی ریاستی اکائی عام آدمی پارٹی کے ساتھ اتحاد کے حق میں نہیں ہے۔ لیکن کانگریس کی مرکزی لیڈرشپ گٹھ بندھن کا فیصلہ کر چکی ہے۔ کچھ لیڈران کا ماننا ہے کہ کانگریس کو ہریانہ اور یوپی کی سرحد سے لگی سیٹوں پر الیکشن لڑنا چاہئے۔ جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ کانگریس ان سیٹوں پر چناؤ لڑے جہاں اس کے پاس مضبوط چہرے ہوں۔ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ دہلی میں اسے 3 سے 4 سیٹیں مل سکتی ہیں۔ پنجاب میں کانگریس نے پچھلے الیکشن میں آٹھ سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان ”پنجاب میں ایک تھی کانگریس“ کی بات کہہ چکے ہیں۔ کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے لیڈران کی حالیہ میٹنگ میں عآپ نے کانگریس کے سامنے ایسی شرائط رکھ دیں جن پر فی الحال سیٹوں کی تقسیم کا فیصلہ مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ بڑا مسئلہ ایک دوسرے کو ووٹ ٹرانسفر کرانے کا بھی ہے۔
بہار میں کانگریس محض ایک سیٹ جیتی تھی۔ اس کی اتحادی آر جے ڈی کو ایک بھی سیٹ نہیں ملی تھی۔ اس مرتبہ جے ڈی یو بھی اتحاد میں ہے۔ کانگریس وہ تمام 9 سیٹیں تلاش کرے گی جہاں اس نے پچھلا الیکشن لڑا تھا۔ یہاں 5 سے 6 سیٹوں پر کانگریس مان سکتی ہے۔ جھارکھنڈ میں آر جے ڈی کے الیکشن لڑنے سے سیٹوں کی تقسیم میں مشکل آسکتی ہے۔ کانگریس ہزاری باغ، رانچی، دھنباد کھونٹی، جمشید پور، چترا، پلامو، سنگھ بھوم، لوہر دگا سیٹ پر اپنا امیدوار اتار سکتی ہے۔ پلامو اورچترا سیٹوں کی مانگ آر جے ڈی بھی کر رہی ہے۔ کیرالہ میں پچھلے فارمولہ کے مطابق ہی کانگریس اور مسلم لیگ الیکشن لڑیں گے۔ بی جے پی 2024 کے الیکشن میں رام مندر، سی اے اے، این آر سی اور وکست بھارت کے بہانے اپنی اسکیموں کی بنیاد پر ووٹ مانگے گی عام لوگوں تک پہنچنے کیلئے اس نے وکست بھارت سنکلپ یاترا نومبر 2023 میں شروع کی تھی جو 26 جنوری کو مکمل ہوگی۔ اسی کے ساتھ لو کش یاترا بھی چل رہی ہے جو 22 جنوری کو ایودھیا پہنچے گی۔ یہ اور اس سے قبل بی جے پی کئی یاترائیں بھارت جوڑو یاترا کا جواب دینے کے لئے نکال چکی ہے۔

About Gawah News Desk

Check Also

بی جے پی ہٹاؤ۔ دیش اور دستور بچاؤ

مولانا سجاد نعمانی کا حیدرآباد میں خطاب۔ رپورٹ محمد حسام الدین ریاضہندستان کے ممتاز ومایہ …

لوک سبھا عام انتخابات کامنظر نامہ

کرہ ارض کے سب بڑے جمہوری ملک ہندوستان میں آزادی کے بعد سے بہت اہم …

Leave a Reply