تلنگانہ الیکشن… وقار داؤ پر
3/دسمبر کو کیا ہوگا؟ یہ سوال ہندوستان ہی نہیں‘ بلکہ ہندوستان سے باہر رہنے والے ہندوستانی خاص طور پر تلنگانہ کے تارکین وطن کے ذہنوں میں گونج رہا ہے۔ کیا کانگریس کے سی آر کے زیر قیادت بی آر ایس سے اقتدار چھیننے میں کامیاب ہوگی؟ یا بی آر ایس ہیٹ ٹرک کرنے میں کامیاب ہوگی؟ معلق اسمبلی کی صورت میں کون کس کے طرف ہاتھ بڑھائے گا۔ ایسے بہت سے سوالات ذہنوں میں گونج رہے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت کانگریس کی لہرسی چلتی محسوس ہورہی ہے۔ میڈیا بھی تبدیلی کے اشارے دے رہا ہے۔ اوپینین پول اکثر غلط ثابت ہوتے ہیں۔ رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے بہت سارے این جی اوز اور پیشہ ور سماجی جہدکار ریاست کے گاؤں گاؤں قصبہ قصبہ گھوم گھوم کر کسی ایک جماعت کے حق میں بات کرتے ہیں جس کے لئے انہیں اچھی خاصی رقم ملتی ہے۔ اگر اس کا اثر واقعی ووٹرس پر ہوتا ہے تو پھر بی آر ایس کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ اور یہ خطرہ خود کے سی آر نے مول لیا ہے۔ انہوں نے میڈیا نمائندوں کو ہی بہت بڑا دھکا یا دھوکا دیا ہے۔ صحافیوں کے لئے زمین الاٹمنٹ سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود پندرہ مہینے گزرنے کے بعد بھی اراضی صحافیوں کے حوالے نہیں کی گئی۔ اور پھر جب صحافیوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور اپوزیشن لیڈروں سے رابطہ قائم کیا تو بھری سبھا میں کے سی آر نے یہ دھمکی دی تھی کہ جو صحافی حکومت کے خلاف لکھ رہے ہیں‘ انہیں زمین نہیں ملے گی۔ اس سے وہ صحافی بھی ناراض ہوئے جو زمین الاٹمنٹ کے امیدوار نہیں تھے۔ ساری دنیا کو دھوکہ دیا جاسکتا ہے‘ انہیں ٹالا جاسکتا ہے مگر صحافیوں کے ساتھ کھلواڑ کسی کے بھی حق میں بہتر نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بی آر ایس کے خلاف اور کانگریس کے حق میں لہر چلنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ علیحدہ تلنگانہ کی تشکیل کے لئے اگر کانگریس کی مرکزی حکومت نے فیصلہ کیا تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسے فیصلہ کرنے کے لئے مجبور کرنے والی طاقت کے سی آر اور ٹی آر ایس کی تھی جنہوں بڑی کامیابی کے ساتھ تلنگانہ تحریک چلائی۔ کئی بار مرکز سے اور ریاستی حکومت کے عہدوں سے استعفے دیئے۔ دھرنا، بھوک ہڑتال، ریالیاں کیا کچھ نہیں کیا۔ اور پھر جو کام چناریڈی نہیں کرسکے‘ کے سی آر نے کردکھایا۔ تلنگانہ کی تشکیل کے بعد یقینا کے سی آر نے اپنے ارکان خاندان کے ساتھ سونیا گاندھی سے ملاقات کی۔ ان کے پیر چھوئے اور پھر اس طرح سے انجان ہوگئے گویا کہ پہچانتے ہی نہیں۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں۔ یہ ان کے مکمل اور پیشہ ور سیاست دان ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ سیاست دانوں سے وفاداری کا تصور بھی احمقانہ ہے۔ بہرحال 9سال یا لگ بھگ ایک دہائی کے دوران ٹی آر ایس نے جو اب بی آر ایس بن گئی‘ ایمانداری سے جائزہ لیا جائے تو کافی ترقیاتی کام کئے۔ ان کے پاس ہریش راؤ اور کے ٹی آر جیسے باصلاحیت، حرکیاتی جواں سال لیڈر ہیں۔ ہریش راؤ جن کے بارے میں یہ کہا جاتا رہا ہے کہ وہ کے سی آر کے جانشین ہوسکتے ہیں‘ اور یہ بھی اندیشے ظاہر کئے جارہے تھے کہ کے ٹی آر کو زیادہ اختیارات اور اہمیت دینے کی وجہ سے ہریش راؤ اندرونی طور پر ناراض ہیں۔ تاہم کے سی آر نے بہت ہی خوش نصیبی کے ساتھ اس معاملے کو بظاہر سلجھادیا ہے۔ آگے کیا ہوگا‘ سیاست میں کچھ نہیں کہا جاسکتا!
ٹی آر ایس یا بی آر ایس حکومت نے دنیا کے سب سے بڑے آبپاشی پراجکٹ کا افتتاح کیا۔ دھان کی ریکارڈ پیداوار کو 70لاکھ ٹن سے ساڑھے تین کروڑ ٹن تک پہنچانا ان کے اہم کارناموں میں ہے۔ بجلی، زراعت، دیہی ترقی پر اس حکومت نے ترجیح دی۔ بجلی کی پیداوار کی صلاحیت کو 7ہزار میگاواٹ سے بڑھاکر 24ہزار میگاواٹ کیا گیا۔ حیدرآباد کو عالمی سطح پر ایک تیزی سے ترقی کرتے ہوئے شہر اور آئی ٹی مرکز کے طور پر اُجاگر کرنے کا سہرا بھی بی آر ایس حکومت کے سر جاتا ہے۔ روزگار کی فراہمی میں یہ حکومت خاطر خواہ طور پر کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ البتہ آئی ٹی سیکٹر میں دس برس کے دوران ملازمین کی تعداد 3.23 لاکھ سے 9لاکھ پہنچ گئی ہے اور آئی ٹی ایکسپورٹ بھی 57ہزار 258کروڑ سے 2.41 لاکھ تک پہنچ گیا ہے۔ اپنی صنعتی پالیسی سے تلنگانہ حکومت نے 40 بلین ڈالرس کی سرمایہ کاری حاصل کی ہے۔ بی آر ایس حکومت نے سرکاری اسکولس اور گورنمنٹ ہاسپٹلس کے معیار کو بہتر بنانے میں بڑا اہم رول ادا کیا اور کووڈ کے دوران گورنمنٹ ہاسپٹلس نے اپنے فرائض خوبی سے انجام دیئے۔ 204 تلنگانہ مائناریٹی ریسیڈنشیل اسکولس کا قیام بھی کے سی آر یا بی آر ایس حکومت کا اہم کارنامہ ہے کیوں کہ پروفیشنل کالجس کے لئے ضروری ہے کہ پرائمری اور ہائی اسکولس کے لیول سے طلبہ کامیاب ہو۔ البتہ بعض کالجس کے بے ایمان اور بددیانت انتظامیہ کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے 50کے قریب مائناریٹی پروفیشنل کالجس بند ہوئے جس سے کافی نقصان ہوا۔ شادی مبارک اسکیم کا آغاز وائی ایس آر کے دور سے ہوا تھا۔ امدادی رقم میں کے سی آر نے اضافہ کیا ہے جو قابل تحسین ہے۔ اس کے باوجود اگر تلنگانہ کے عوام اس حکومت کے خلاف ہوتے ہیں جس کی بدولت تلنگانہ علیحدہ ہوا تو پھر اس کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟ یہ ایک انسانی فطرت ہے کہ ایک عرصہ بعد یکسانیت سے اُکتا جاتی ہے۔حکومت چاہے کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو‘ ایک وقت آتا ہے جب عوام اس سے زیادہ بہتر حکومت چاہتے ہیں اور اکثر بعد میں انہیں پچھتاوے کا احساس بھی ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں کے مسائل، کسانوں کے مسائل سے اکثر تختے الٹ جاتے ہیں۔ بی آر ایس کا تختہ الٹے گایا نہیں چند دن میں معلوم ہوجائے گا۔ یہ بات یقینی ہے کہ کانگریس کی طاقت میں اضافہ ضرور ہوگا۔ البتہ بی جے پی لاکھ کوششوں کے باوجود اگلے دس برس تک اپنی طاقت میں اتنا اضافہ نہیں کرسکے گی جس سے کسی بھی جماعت کی حکومت پر وہ اثر انداز ہوسکے۔ حالانکہ بی جے پی کی طاقت میں اضافہ کے لئے مودی، امیت شاہ، یوگی کے بشمول کئی سرکردہ قومی سطح کے قائدین بار بار دورے کررہے ہیں‘ یہ اور بات ہے کہ بھیڑ کو اکٹھا کرنے کے لئے انہیں بہت زیادہ دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں اور کانگریس نے پیش قیاسی کی ہے کہ بی آر ایس اگر خطرہ میں آجائے تو بی جے پی کا دامن تھام سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو کوئی تعجب نہیں ہوگا‘ کیوں کہ آج کے سی آر مسٹر مودی اور بی جے پی کی لاکھ مخالفت کررہے ہوں گے‘ مگر جب جب ضرورت پیش آئی انہوں نے بی جے پی کا سہارا لیا۔ جہاں تک کانگریس کا تعلق ہے‘ اُتم کمار سے قیادت حاصل کرنے کے بعد ریونت ریڈی نے کانگریس میں نیا جوش ولولہ پیدا کیا۔ان کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ فائٹر ہیں‘ مقابلہ کرنا جانتے ہیں۔ اس کا ثبوت یہی ہے کہ وہ کے سی آر کے خلاف کاماریڈی سے مقابلہ کررہے ہیں‘ اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ وہ جیتیں گے یا ہاریں گے۔ بعض ایجنسیوں کے سروے کے مطابق کاماریڈی میں بھی کے سی آر کو سخت مقابلہ درپیش ہے۔ اور گجویل میں بھی جہاں سے بی آر ایس سے منحرف ہوکر بی جے پی میں شامل ہونے والے ایٹالا راجندر ان کے خلاف ہیں‘ وہاں بھی کے سی آر کا وقار داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اس سے پہلے تمام تر سرکاری مشنری کے استعمال ہونے کے باوجود بی آر ایس ایٹالا راجندر کو ضمنی انتخابات میں شکست نہیں دے سکی تھی۔ کانگریس کے لئے یہ انتخابات اس لحاظ سے اہم ہیں‘ کہ اُسے اس بات کا یقین ہے کہ اس کی حکومت ہوگی‘ چنانچہ کئی سابق اور موجودہ ارکان پارلیمان اسمبلی حلقوں سے مقابلہ کررہے ہیں۔ کانگریس نے اپنے منشور میں بہت سارے وعدے کئے ہیں۔ ان میں اقلیتوں سے بھی کئی وعدے، کئی تیقنات شامل ہیں۔ جس کی وجہ سے اقلیتوں کا ایک بڑا طبقہ اس کی طرف مائل ہے۔ اگر کانگریس اقتدار حاصل کرتی ہے تو یہ دوسرا موقع ہوگا جب وہ کسی علاقائی جماعت کو اقتدار سے بے دخل کرے گی۔ اس سے پہلے کانگریس نے 2004ء میں تلگودیشم پارٹی کو اقتدار سے بے دخل کیا تھا۔ یاد رہے کہ 1983ء میں این ٹی راما راؤ کی زیر قیادت تلگو دیشم پارٹی نے اپنے قیام کے صرف 10ماہ کے اندر 294 میں سے 202 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے ایک تاریخ رقم کی تھی۔ چندر بابو نائیڈو نے اپنے خسر کا تختہ پلٹنے کے بعد کے 1999ء کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرتے ہوئے حکومت تشکیل دی تھی‘ اور آج جس طرح سے ریونت ریڈی پوری ریاست کا دورہ کرکے کانگریس کے حق میں فضا ہموار کررہے ہیں‘ 2004ء میں وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ اور انہوں نے بھی پولنگ سے پہلے ہی اپنے حلف برداری کی تاریخ کا اعلان کیا تھا۔
کرناٹک کے ڈپٹی سی ایم شیواکمار نے باقاعدہ اعلان کیا ہے کہ تلنگانہ میں کانگریس کی حکومت 9دسمبر کو حلف لے گی۔ پولنگ کے آغاز سے لے کر پولنگ کے اختتام تک کیا ہوسکتا ہے‘ کوئی نہیں کہہ سکتا۔ 3دسمبر کے نتائج کس کے حق میں ہوں گے‘ یہ کہنا مشکل ہے۔
تلنگانہ بالخصوص حیدرآباد کی سیاست مجلس اتحادالمسلمین کے ذکر کے بغیر ادھوری رہ جاتی ہے۔ بلاشبہ مجلس اپنی جگہ ایک طاقت ہے جس نے حیدرآباد میں اپنا سکہ جمارکھا ہے۔ اس وقت 9حلقوں سے اس کے امیدوار میدان میں ہیں۔ مجلس نے بیرسٹر اسدالدین اویسی کی قیادت میں کل ہند سطح پر اپنی پہچان بنائی ہے۔ بیرسٹر اویسی ہر پلیٹ فارم سے اپنے آپ کو منواچکے ہیں۔ اور بلاشبہ صرف حیدرآباد ہی نہیں‘ بلکہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے سیاسی ترجمان ہیں۔ کل ہند سطح پر مسلم قائدین اور رہنماؤں کی کمی نہیں ہے‘ مگر انگریزی عبور نہ ہونے اور سیاسی بصیرت اور فراست کی کمی نے اسداویسی کا قد ان قائدین کے مقابلے میں بلند کررکھا ہے۔ مجلس پر باربار یہ الزام عائد کیا جاتا رہا کہ وہ ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں جہاں مجلس کا زیادہ اثر نہیں ہے‘ اپنے امیدوار میدان میں اُتارتے ہیں جس سے بعض جماعتوں کو نقصان ہوتا ہے اور بعض کو فائدہ پہنچتا ہے۔ یہ الزام میں کس حد تک صداقت ہے یا یہ بہتان ہے‘ یہ خود اویسی صاحب زیادہ بہتر جان سکتے ہیں۔ البتہ اگر قوم میں کسی قسم کی غلط فہمی یا بدگمانی ہے تو اُسے دور کرنا بھی ضروری ہے‘ کیوں کہ آج کادور انفارمیشن ٹکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹلیجنس کا دور ہے۔ ایک دور تھا جب‘ مجلس کے لئے لوگ جان نثار کرنے کے لئے تیار رہا کرتے تھے‘ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں‘ مگر وقت کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل میں ہر جماعت سے دلچسپی کم ہوتی جارہی ہے۔ جس کا ثبوت رائے دہی کی فیصد تناسب میں ہر مرتبہ ہونے والی کمی ہے۔بدگمانی کیوں پیدا ہوتی ہے؟ اس کا جائزہ لینے اور محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ ہمارا یہ ایقان ہے کہ مجلس حیدرآباد کے مسلمانوں کی سیاسی طاقت ہے۔ اس میں اضافہ کی ضرورت ہے۔ جو لوگ دور ہوئے ہیں‘ انہیں اپنے اعلیٰ کردار و اخلاق اور گفتار سے قریب کرنے کی ضرورت ہے۔ الیکشن کے نتائج چاہے کچھ ہوں‘ مسلمان رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی امتی ہیں‘ عفو و درگزر بھی سنت رسول ہے۔ امید ہے اس پر عمل کیا جائے گا!
Check Also
نئی نسل کی تباہی کے ذمہ دار کون؟
ماہِ مقدس رمضان المبارک سے متعلق موضوع پر کچھ لکھنے کا ارادہ تھا، مگر علماء …
عدلیہ‘ فوج‘ تعلیم اور میڈیا،بی جے پی کا سایہ
کولکتہ ہائی کورٹ کے جج ابھیجیت گنگوپادھیائے گنگولی نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دیا اور …