Thursday , November 21 2024
enhindiurdu

پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج کانگریس کو بی جے پی سے ساڑھے نو لاکھ ووٹ زیادہ ملے ہیں

عبدالعزیز۔9831439068
آمریت کے مقابلے میں جمہوریت کا طرزِ حکومت زیادہ قابل قبول اور زیادہ مقبول ہے، لیکن جمہوریت میں بہت سی خامیاں بھی ہیں جسے وقتاً فوقتاً جمہوریت پسند بھی گناتے رہتے ہیں۔ ایک بڑی خرابی کا ذکر علامہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں کیا ہے ؎
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں …… بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
دوسری بڑی خرابی یہ کہ اگر متناسب نمائندگی (Propotional Repersentation) کی بنیاد پر انتخاب نہیں ہوتا تو عام طور پر اکثریت کی حکومت نہیں ہوتی ہے بلکہ اقلیت کی حکومت ہوتی ہے۔ ووٹ مختلف پارٹیوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں جس پارٹی کو دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں تھوڑا بہت بھی زیادہ ووٹ مل جاتے ہیں وہ کامیاب تصور کی جاتی ہے۔ حالانکہ سارے ووٹس اگر گنے جائیں تو کامیاب ہونے والی پارٹی سے زیادہ ووٹ اپوزیشن کے حق میں ہوتے ہیں
چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان جیسی تین ریاستوں میں بی جے پی کے کامیاب ہوجانے یا سیٹوں کے زیادہ ہوجانے کی وجہ سے بی جے پی کی گودی میڈیا میں واہ واہی ہورہی ہے۔ فرقہ پرست عناصر بھی اسی کام میں لگے ہوئے ہیں مودی جی بھی ہیٹ ٹریک کی بات کرنے لگے ہیں، یعنی وہ تیسری بار بھی ہندستان میں حکومت بنانے میں کامیاب ہونے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ راجستھان میں بی جے پی اور کانگریس کے ووٹوں میں صرف 2% کا فرق ہے۔ اگر آزاد امیدواروں کے ووٹوں کا فیصد جوڑ دیا جائے تو اپوزیشن کا ووٹ فیصد بی جے پی سے زیادہ ہے۔ چھتیس گڑھ میں دونوں پارٹیوں کے ووٹوں کا فرق 4%فیصد ہے۔ مدھیہ پردیش میں 8% ہے۔ تلنگانہ میں بی جے پی سے 26% زیادہ ووٹ کانگریس کو ملے ہیں۔ اگر پانچ ریاستوں کے ووٹوں کو جوڑ دیا جائے تو بی جے پی کو 4,81,33,463 ووٹ اور کانگریس کو 4,90,77,907ووٹ ملے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو ساڑھے نو لاکھ ووٹ کانگریس کو زیادہ ملے ہیں۔ اگر نریندر مودی اور راہل گاندھی کے درمیان لوگوں کے سپورٹ کی بات کی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ راہل گاندھی کو لگ بھگ دس لاکھ لوگوں کا سپورٹ نریندر مودی کے مقابلے میں زیادہ ملا ہے۔ بی جے پی اور کانگریس کے درمیان یہی بات کہی جائے تو کانگریس کو بی جے پی کے مقابلے میں ووٹ زیادہ ملے ہیں اور حمایت بھی زیادہ ملی ہے۔ گودی میڈیا اس حقیقت کو پس پشت ڈال کر مودی کی گارنٹی اور مودی کی ہیٹ ٹریک کی بات رات دن دہرانے میں مصروف عمل ہے۔ جہاں تک چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں جیت ہار کی بات ہے تو 2018ء میں تینوں ریاستوں میں کانگریس کامیاب ہوئی تھی لیکن لوک سبھا میں کانگریس کو تینوں ریاستوں میں بہت کم سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی‘ اس حقیقت کو بھی گودی میڈیا نظر انداز کر رہی ہے
اگر موجودہ الیکشن کے نتائج کے پیش نظر دیکھا جائے تو کانگریس کو پہلے کے مقابلے میں ان 5ریاستوں میں لوک سبھا کی زیادہ سیٹوں پر کامیابی ملتی نظر آرہی ہے۔ 2019ء میں مذکورہ ریاستوں میں بی جے پی کو 65سیٹوں پہ کامیابی ملی تھی جبکہ کانگریس کو صرف 6سیٹوں پر۔ موجودہ الیکشن کے نتائج کو دیکھا جائے تو بی جے پی کو 46 اور کانگریس کو 28 سیٹوں پر کامیابی ملتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس سے معلوم چلتا ہے کہ کانگریس کو پہلے سے زیادہ سپورٹ کی بنیاد مضبوط ہوئی ہے
جہاں تک 2024ء کے الیکشن کی بات ہے تو اس کے پیش نظر بی جے پی کو چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں زیادہ سیٹیں ملنا زیادہ ضروری ہے۔ اس کے مقابلے میں کرناٹک، بنگال، مہاراشٹر جیسی ریاستوں میں ’انڈیا‘ اتحاد کو زیادہ سیٹوں پر کامیابی کی ضرورت ہے۔ ان سب حقائق پر اگر نظر ڈالی جائے تو جو لوگ فرقہ پرستوں سے لڑ رہے ہیں یا زور آزمائی کر رہے ہیں ان کا حوصلہ بڑھنا چاہئے، پست نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی کانگریسیوں کی ہمت پست ہونی چاہئے بلکہ ان کا بھی حوصلہ بلند ہونا چاہئے۔ مذکورہ حقائق کے پیش نظر بی جے پی کو سیٹوں میں جو کامیابی زیادہ ملی ہے اس میں انکم ٹیکس، ای ڈی، سی بی آئی کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔ یہ ایجنسیاں بی جے پی یا مودی کی ماتحتی میں اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران پر قہر ڈھا رہی تھیں۔ الیکشن کو جب چودہ پندرہ دن باقی تھے تو ایجنسیوں کی سرگرمیوں میں اضافہ بھی ہوگیا تھا۔ کانگریسی لیڈران کی مہم میں بھی زبردست خلل ڈالی جا رہی تھی۔ بی جے پی یا مودی کی یہ چال تھی کہ مہم کی سرگرمی کانگریسی لیڈروں کی کم ہوجائے اور بی جے پی کے لیڈروں کی مہم کی سرگرمیاں تیز تر ہوجائیں۔ اس میں بھی بی جے پی کو اپنی کامیابی دکھائی دیتی ہے۔ اس چال سے یقینا بی جے پی کو تین ریاستوں میں فائدہ ملا ہے۔ میزورم اور تلنگانہ میں بی جے پی کو اس چال میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوئی
جنگ میں اور خاص طور پر سیاسی جنگ میں کہا جاتا ہے کہ ہر چیز جائز ہے۔ بی جے پی جنگ میں سب کچھ کرنا جائز سمجھتی ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کے علاوہ اپنی پارٹی کے لیڈروں کو بھی اگر وہ آڑے آتے ہیں تو ان کو بھی بخشتی نہیں ہے۔ اپوزیشن میں جو بدعنوان قسم کے لیڈر ہوتے ہیں اگر وہ بی جے پی میں چلے جاتے ہیں یا مودی کا دامن تھام لیتے ہیں تو ان کو بھی نجات مل جاتی ہے۔ اسی لئے بی جے پی کو ’واشنگ مشین‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ جو بھی بی جے پی میں جاتا ہے چاہے جتنا بھی بدعنوان ہو وہ دودھ کا دھلا ہوجاتا ہے۔ مہاراشٹر کے اجیت پوار کو بی جے پی جب وہ اپوزیشن میں تھے تو جیل میں دیکھنا چاہتی تھی اور جیل کی دھمکی دے رہی تھی لیکن جیسے ہی انھوں نے بی جے پی کا ساتھ دیا تو ان کی ایسی آؤ بھگت ہوئی کہ ان کو مہاراشٹر کا نائب وزیر اعلیٰ بنادیا گیا۔ بی جے پی دیگر ریاستوں میں بھی یہی چال چلتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ بی جے پی میں جیل کے ڈر سے یا دولت سے محروم ہونے کے خوف سے بی جے پی میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ہمنتا بسوا سرما کانگریس کے لیڈر تھے اس وقت ان پر بی جے پی کی طرف سے بدعنوانی کا الزام عائد کیا جارہا تھا۔ کانگریس چھوڑ کر جب وہ بی جے پی میں شامل ہوگئے تو انھیں آسام کا وزیر اعلیٰ تک بنا دیا گیا۔

About Gawah News Desk

Check Also

بی جے پی ہٹاؤ۔ دیش اور دستور بچاؤ

مولانا سجاد نعمانی کا حیدرآباد میں خطاب۔ رپورٹ محمد حسام الدین ریاضہندستان کے ممتاز ومایہ …

لوک سبھا عام انتخابات کامنظر نامہ

کرہ ارض کے سب بڑے جمہوری ملک ہندوستان میں آزادی کے بعد سے بہت اہم …

Leave a Reply