مسٹر کے چندر شیکھر راؤ تلنگانہ اور متحدہ آندھراپردیش کی تاریخ میں طویل عرصہ تک چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز رہنے کا نیا ریکارڈ قائم کرچکے ہیں۔ 2/جون 2023ء کو چیف منسٹر کی حیثیت سے 9سال مکمل کرکے دسویں برس میں قدم رکھ چکے ہوں گے۔ اس سے پہلے چندرا بابو نائیڈو متحدہ آندھراپردیش کے چیف منسٹر کی حیثیت سے 8سال 256دن تک خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان کے علاوہ کے برہمانندا ریڈی سات سال سات مہینے چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز رہے۔ جنوبی ہند میں کمارا سوامی کامراج کو مدراس اسٹیٹ کے چیف منسٹر کی حیثیت سے 9سال پانچ مہینے تک خدمات انجام دینے کا اعزاز حاصل رہا۔ چندر شیکھر راؤ دسمبر 2023ء میں منعقد ہونے والے اسمبلی انتخابات تک اس ریکارڈ کو پار کرلیں گے۔ کیوں کہ وہ 9سال سات مہینے تک اس عہدہ پر فائز رہیں گے۔ یوں توہندوستان میں 46 چیف منسٹرس 10سال تک عہدہ پر رہے۔ پون کمار چاملنگ 24سال سے زائد عرصہ تک (12/دسمبر 1994ء سے 27/مئی 2019ء تک) آسام کے چیف منسٹر رہے۔جیوتی باسو (بنگال)، نوین پٹنائک (اڑیسہ)، کیگونگ اپانگ (اروناچل پردیش)، لال تھانولا (میزورم)، ویر بھدرا سنگھ (ہماچل پردیش) 20سال سے زائد عرصہ تک چیف منسٹر رہے۔ نریندر مودی 12برس تک گجرات کے چیف منسٹر رہے۔ ممتابنرجی، جئے للیتا اور شیلا ڈکشٹ کو 10برس سے زائد عرصہ تک اس عہدہ پر فائز رہنے کا موقع ملا۔ کے چندر شیکھر راؤ اگر اگلے اسمبلی انتخابات میں اپنی پارٹی کو جو ٹی آر ایس سے بی آر اس بن گئی تیسری مرتبہ اقتدار دلاسکیں گے تو وہ کئی نئے ریکارڈس قائم کریں گے۔ اگر بی آر ایس تلنگانہ میں ہیٹرک کرتی ہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ کے ٹی آر چیف منسٹر کا عہدہ سنبھالیں گے اور کے سی آر قومی سطح پر اپنے آپ کو بی جے پی قیادت کے متبادل کے طور پر پیش کرنے کے ممکنہ کوشش کریں گے۔ ویسے قومی سطح پر انہوں نے کامیاب مہم چلائی ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین سے ان کی مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔ البتہ کانگریس سے ان کی مفاہمت کے آثار نظر نہیں آتے اور کانگریس سے اتحاد کے بغیر بی جے پی کا متبادل بننا مشکل ہے۔ کانگریس کی کرناٹک میں حالیہ شاندار کامیابی کے بعد تلنگانہ میں بھی کانگریسی حلقوں میں کچھ ہلچل پیدا ہوئی ہے۔ تاہم بی آر ایس کی جڑیں مضبوط ہیں۔ کانگریس میں تنظیمی صلاحیتوں کا فقدان نظر آتا ہے۔ بی آر ایس نے کئی فلاحی اسکیمات کو متعارف کروایا ہے اور باقاعدہ عمل آوری کا آغاز بھی ہوگیا ہے۔ بی آر ایس حکومت کے ترجمان کے مطابق گزشتہ 9برس کے دوران پانچ لاکھ کروڑ کی فلاحی اسکیمات کو روشناس کروایا گیا ہے جن میں کسانوں، دلتوں کے علاوہ برہمن سماج کے لئے اسکیمات قابل ذکر ہیں۔ اقلیتی طبقہ نے مسلسل مطالبہ کیا ہے کہ دلتوں بندھو اسکول کی طرح اقلیتوں کی فلاح و بہبود کی اسکیم کا اعلان کیا جائے مگر ایسا نہیں ہوا۔ دلت بندھو اسکیم کے تحت 119 اسمبلی حلقوں میں سے 100 حلقوں میں یہ اسکیم نافذ ہے جس کے لئے 1200کروڑ روپئے کا فنڈ مختص کیاگیا ہے جس کے تحت اپنی ذاتی تجارتی کاروبار کے لئے ہر دلت گھر کو 10لاکھ روپئے فراہم کئے جاتے ہیں۔
اسی طرح دلتوں میں 94کروڑ روپئے لاگت سے وہیکلس تقسیم کی گئیں جس سے وہ خود مکتفی ہوسکے۔ گورنمنٹ ہاسپٹلس کے کنٹراکٹ ایجنسیز میں بھی دلتوں کے لئے 16فیصد کوٹہ مختص کیا گیا ہے۔ اقلیتوں کے لئے اگر کبھی اعلان ہوا ہے تو عمل آوری سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ٹی آر ایس کی مسلم قیادت کمزور ہے۔ اقلیتوں سے متعلق جتنے بھی ادارے ہیں‘ ان پر تقررات سیاسی قربتوں یا مجبوریوں کے تحت کئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے موثر اقدامات نہیں ہوتے۔ اقلیتی اداروں کی کارکرگی کی وجہ سے اقلیتوں میں بڑی حد تک ناراضگی پائی جاتی ہے۔ ٹی آر ایس (بی آر ایس) کو اقتدار میں لانے کے لئے اقلیتوں نے بھی بڑا اہم رول ادا کیا ہے اور کے سی آر نے جناب محمد محمود علی کو ریاست کا پہلا نائب وزیر اعلیٰ اور پھر حکومت کی دوسری میعاد میں وزیر داخلہ کا قلمدان دے کر اقلیتوں کو یہ احساس دلایا کہ وہ اقلیت دوست ہیں اور ان کا بڑا پاس و لحاظ ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں سے کئے گئے وعدے‘ محبوب کے وعدے ثابت ہوئے جو کبھی وفا نہیں ہوئے۔ 12فیصد تحفظات کے اعلان پر بڑی معصومیت سے اقلیتوں نے یقین کرلیا۔ راج شیکھر ریڈی حکومت کے دور میں جو 4فیصد تحفظات فراہم کئے گئے جس سے متعلق قانونی لڑائی جاری ہے‘ اگر یہ بھی برقرار رہتا ہے تو بڑی بات ہے ورنہ 4فیصد تحفظات کو بھی خطرہ ہے۔ اقلیتوں کی فلاح و بہبود سے متعلق اداروں کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اخبارات کی حد تک یہ بڑے کارکرد ہیں۔ مگرحقیقت اس کے برعکس ہے۔ مسلمانوں کا یہ المیہ ہے کہ وہ ہر دور میں حکومت وقت کی افطار پارٹیوں سے بہل جاتے ہیں۔ چیف منسٹر نے جسے اپنے ہاتھ سے کھجور کھلادیا وہ اپنا بیڑا پار سمجھتا ہے۔ بی آر ایس اقتدار کے پہلے دہے کے موقع پر کانگریس میں جوش و خروش پیدا ہوا تاہم یہ جوش و خروش الیکشن میں برقرار رہتا ہے یا نہیں کہا نہیں جاسکتا۔ کہا جارہا ہے کہ پرینکا گاندھی اپنی دادی اندرا کا رول نبھائیں گی۔ راہول گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا کے دوران اپنی صلاحیتوں کا بہترین مظاہرہ کیا اور اسے منوایا۔ اگر پرینکا گاندھی تلنگانہ میں زیادہ سرگرم ہوجاتی ہے تو کانگریس کو تھوڑا بہت فائدہ ضرور ہوگا تاہم اقلیتوں کا ایک بڑا طبقہ بی آر ایس سے علیحدہ ہوکر کانگریس میں شمولیت اختیار کرسکتا ہے۔ جس سے کانگریس کے ووٹوں میں اضافہ تو ہوگا مگر ٹی آر ایس کو اقلیتوں سے تھوڑا بہت نقصان ضرور ہوسکتا ہے۔
بی آر ایس اور ایم آئی ایم میں قربتیں فاصلوں میں بدلنے کی خبریں ہیں‘ اس کی ایک وجہ صدر مجلس بیرسٹر اسدالدین اویسی کا ایک انگریزی اخبار کو دیا گیا انٹرویو اور کسی مقام پر ان کی تقریر ہے جس میں انہوں نے بی آر ایس کی جانب سے اقلیتوں کے لئے کئے جانے والے اقدامات کو ناکافی قرار دیا اور کہا کہ بی آر ایس حکومت کو اقلیتوں کے لئے بہت کچھ کرنا چاہئے جیسا کہ دلتوں کے لئے کیا گیا ہے۔ بیرسٹر اسدالدین اویسی کے بیان پر متضاد ردعمل کا اظہار ہورہا ہے۔ ویسے بھی ایم آئی ایم اور بی آر ایس کی ایک دوسرے کے خلاف تنقید ضروری ہے۔ کیوں کہ بی آر ایس کی بظاہر اقلیت دوستی کے پروپگنڈہ سے اگلے الیکشن میں اُسے نقصان ہوسکتا ہے۔ اس وقت اکثر و بیشتر کی ذہنیت سافٹ ہندوتوا سے آلودہ ہے۔ خود کانگریس نے بڑے سلیقے سے اپنے آپ کو مسلمانوں سے لاتعلق کرنا شروع کیا ہے۔ اس کے حالیہ پوسٹرس اور بیانرس سے مولانا آزاد کے علاوہ سرحدی گاندھی کی تصاویر پُراسرار طریقہ سے یا پھر منصوبہ بند طریقہ سے ہندوتوا ذہنوں کو خوش کرنے کے لئے غائب کردی گئی تھی۔ جس کا مسلمانوں پر اچھا اثر نہیں ہوا۔
کرناٹک میں چوں کہ بی جے پی حکومت نے اپنے پیروں پر خود کلہاڑی ماری، کرپشن اور فرقہ وارانہ شدت پسندی نے اُسے شکست سے دوچار کیا۔ ٹیپو سلطان شہید کے خلاف شرانگیز مہم، حجاب پر پابندی جیسے واقعات نے کا اثر تو ہواہی ہے۔ ویسے بھی مسلمان‘ بی جے پی کو ووٹ کم ہی دیتے ہیں۔ اس مرتبہ اکثریتی فرقے کا ایک بڑاطبقہ اس سے نالاں تھا اور پارٹی کے داخلی اختلافات نے بھی کانگریس کی کامیابی میں اہم رول ادا کیا۔ تلنگانہ کے حالات اس کے برعکس ہیں۔ یہاں کانگریس کو آکسیجن کی ضرورت ہے۔ گزشتہ الیکشن میں بھی کانگریس نے ہاری ہوئی لڑائی لڑی تھی۔ اب بھی خاطر خواہ کامیابی کی امید نہیں کی جاسکتی۔ اس کی نشستوں میں اضافہ ممکن ہے‘ تلنگانہ کی حد تک ٹی آر ایس کو کانگریس سے اتحاد کی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ اپنے بل بوتے پر الیکشن جیت سکتی ہے۔ تشکیل تلنگانہ سے پہلے کی بات کچھ اور تھی جب ٹی آر ایس اور کانگریس نے مل کر حکومت تشکیل دی تھی۔ آج بیساکھی کے بغیر بی آر ایس اپنی حکومت تشکیل دینے کے موقف میں ہے۔ البتہ قومی سطح پر بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے اپوزیشن اتحاد کانگریس کے بغیر ادھورا رہے گا۔ کیوں کہ اقلیتی اور سیکولر ووٹ تقسیم ہوں گے۔ بی جے پی اپنی حکمت عملی سے اپوزیشن اتحاد کو بڑی آسانی سے انتشار میں بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
جہاں تک کے سی آر کا تعلق ہے‘ غیر معمولی مطالعہ کے حامل کے سی آر جتنی اچھی تلگو بولتے ہیں انگریزی اور ہندی میں بھی اتنا انہیں عبور حاصل ہے۔ ماضی میں جنوبی ہند سے سوائے پی وی نرسمہا راؤ کے قومی سطح پر کوئی لیڈر کامیاب نہیں ہوا۔ نرسمہا راؤ کو کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ دیوے گوڑا بھی وزیر اعظم رہے مگر ان کی میعاد بھی بہت کم تھی۔ این ٹی راما راؤ ایک زبردست نیشنل لیڈر کے طور پر ابھرے اور ہندی سے ناواقفیت کی بناء پر وہ شمالی ہند میں اپنے قدم جما نہیں سکے اور یہ ان کی بدقسمتی رہی کہ جب انہیں وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہونا تھا‘ اس وقت ان کا تختہ اُلٹ دیا گیا تھا۔ اور پھر اس صدمہ سے وہ جانبر نہ ہوسکے۔ کے سی آر اپنی بامحاورہ ہندی اردو کی بدولت شمالی ہند کے علاقوں میں بھی کافی مقبول ہوئے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ شمالی ہند کے دوسری جماعتوں کے قائدین انہیں اپنے سے بلند مقام پر دیکھ سکیں گے یا نہیں۔ اس وقت قومی سطح پر جو اپوزیشن اتحاد ہے اس میں شامل ہر لیڈر خود کو دوسروں سے اہم اور بڑا سمجھتا ہے۔ کجریوال بھی خود کو مودی کے متبادل کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ممتابنرجی کو بھی ایک حلقہ وزیر اعظم کے عہدہ کے قابل سمجھ رہا ہے‘ ان کے درمیان کے سی آر اپنی پہچان کیسے بناپائیں گے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ اس وقت پہلا مرحلہ تلنگانہ میں بی آر ایس کی اقتدار میں برقراری یعنی اگلے الیکشن میں اکثریت کے ساتھ کامیابی ہے اس کے بعد ہی قومی سطح پر وہ کوئی قدم اٹھاسکتے ہیں۔
کے سی آر نے گزشتہ 9برس کے دوران اگرچہ کہ اقلیتوں کے دل پوری طرح سے نہیں جیتے مگر پروپگنڈہ مشنری نے پورے ملک میں انہیں ایک اقلیت دوست چیف منسٹر کے طور پر پہچان دی ہے۔ویسے دوسری ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کے مقابلے میں کے سی آر لاکھ درجہ بہتر ہیں۔ انہوں نے نہ صرف اپنے تقاریرمیں بلکہ اپنے تعمیراتی پراجکٹس میں بھی ہند ومسلم رواداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ حال ہی میں تلنگانہ سکریٹریٹ کی عمارت کو انہوں نے اسی انداز سے تعمیر کروایا جس طرز سے حیدرآباد کے نظام نے کئی عمارتوں کی تعمیر کروائی تھی۔ سکریٹریٹ کی عمارت میں بھی اسلامی فن تعمیر کی جھلک نظر آتی ہے۔ اب سکریٹریٹ کے قریب ٹوئن ٹاورس بھی تعمیر کئے جائیں گے جس سے شہر کے اس علاقے کی رونق دوبالا ہوجائے گی
کے سی آر کے لئے چیف منسٹر کے عہدہ پر 9سال کی تکمیل یقینا ایک سنگ میل ہے۔ اپنے سیاسی کیریئر کے دوران اَن گنت سنگ میل پار کرچکے ہیں۔ تشکیل تلنگانہ یقینا ان کا ایک کارنامہ ہے۔ اس کارنامہ کو تلنگانہ کے عوام کب تک یاد رکھتے ہیں‘ یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
Check Also
ہندوستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے ذہن سازی۔غیر اخلاقی تعلقات سے پاک و صاف ماحول کی ضرورت
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے انتخابات اور منظورہ قراردادیںآل انڈیا مسلم پرسنل لا …
ایران۔ افغان سرحدی تصادم یا آبی جنگوں کا آغاز؟
اسد مرزا(دہلی)”ایران اور افغانستان کے درمیان حالیہ سرحدی جھڑپیں مقامی اور عالمی سطح پر مستقبل …