Monday , April 29 2024
enhindiurdu

… شاہ فیصلؒ سے عمران تک

عمران خان کو گرفتار کیا گیا، یہ کوئی اَنہونی بات نہیں تھی۔ اقتدار سے معزولی کے بعد سے ہر دن ان کی گرفتاری کا اندیشہ رہا کرتا تھا۔ کئی بار کوششیں بھی کی گئی تھیں جنہیں پی ٹی آئی کارکنوں اور عام پاکستانیوں نے ناکام بنادیا۔ القادر ٹرسٹ میں کرپشن کے الزام کے تحت احتساب بیورو (NAB) عدالت نے عمران خان کو گرفتار کیا۔ جس کے بعد اگر پاکستان جل اٹھا ہے تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں۔ کیوں کہ پاکستانی عوام کی اکثریت عمران خان کو جتنا جی جان سے چاہتی ہے۔ اُتنا ہی شریف برادران سے نفرت کرتی ہے۔ عمران خان اقتدار سے دور رہتے ہوئے بھی پاکستانیوں کے دلوں پر حکمرانی کررہے ہیں۔ اور شریف برادران مسند اقتدار پر رہتے ہوئے بھی چوروں کی طرح چھپ کر پھر رہے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کورکمانڈر ہیڈ کوارٹر پر حملہ ہوا۔ یہ پاکستانیوں کے غصہ کی انتہاء ہے۔ کیوں کہ انہیں اطلاع ملی تھی کہ عمران خان کو گرفتاری کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ جو پی ٹی آئی ارکان کے علاوہ عوام پاکستانیوں کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ شریف برادران چاہتے ہیں کہ عمران خان کے دور کا خاتمہ ہی ہوجائے۔ عوام کچھ دن احتجاج کریں گے، تشدد بھڑکائیں گے اور پھر مارشل لاء یا کرفیو سے بیزار ہوکر آہستہ بتدریج نارمل ہوجائیں گے۔ ناب عدالت سے گرفتاری کے بعد ریمانڈ کی مدت 14دن ہے۔ اس دوران اگر حکومت نے ہوش کے ناخن لئے تو ضمانت پر پاکستان کے سابق کپتان و وزیر اعظم کی رہائی ہوجائے گی۔ اگر ہٹ دھرمی پر رہیں گے تو کسی اور مقدمہ میں انہیں گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے ایک نجومی نے یہ پیشن گوئی کردی ہے کہ عمران خان ایک ہفتہ میں اللہ کو پیارے ہوجائیں گے۔ ویسے یہ ایک احمقانہ پیشن گوئی ہے کیوں کہ کس کی موت کب اور کہاں آئے گی یہ تو صرف قادر مطلق ہی جانتا ہے۔ ویسے کوشش کی جائے گی کہ کسی طرح سے ہمیشہ کے لئے عمران خان کا پتہ صاف کردیا جائے۔ پی ٹی آئی ارکان کب تک مقابلہ کرسکتے ہیں‘ کب تک وہ لاٹھی، گولی برداشت کرسکتے ہیں‘ یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ کیوں کہ پی ٹی آئی کے ارکان اور عام پاکستانی تو عمران خان کو چاہتا ہے‘ پی ٹی آئی کے قائدین دیانت دار اور قابل بھروسہ نہیں ہیں۔ عمران خان کو توشہ خانہ کیس کے بہانے سے اقتدار سے ہٹایا گیا تھا۔ اور اب القادر ٹرسٹ کرپشن میں ملوث ہونے کے الزام کے تحت گرفتار کیا گیا۔ القادر ٹرسٹ کے ٹرسٹی عمران کی خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی ہیں۔ اسی ٹرسٹ کے تحت عمران خان کی القادر یونیورسٹی قائم کی گئی ہے۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ اس ٹرسٹ کو اربوں ڈالرس کے ڈونیشن موصول ہوئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بحریہ ٹاؤن کی 450 کنال زمین کا عطیہ القادر یونیورسٹی کو دیا گیا۔ پاکستانی پنجاب میں کنال زمین کے پیمائش کا پیمانہ ہے۔ یہاں ایک کنال 605مربع گز یا 5400 مربع فٹ کے مساوی ہوتا ہے۔ جبکہ ایک مرلہ 30.5 مربع گز کے مساوی ہوتا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ زمین دراصل ملک ریاض کی ملکیت تھی‘ جو پی ٹی آئی اور ملک ریاض کے درمیان معاہدہ کے بعد القادر ٹرسٹ کے حوالے کردی گئی۔ ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کے بانی اور چیرمین ہیں جو پاکستان کے ساتویں امیرترین شخص ہیں‘ ڈیڑھ بلین ڈالرس کے مالک بتائے جاتے ہیں۔
جو بھی ہو یہ الزامات ثابت ہوں گے یا نہیں آنے والا وقت بتائے گا۔ البتہ یہ بات طے ہے کہ توشہ خانہ کیس اور القادر ٹرسٹ کیس کے بہانے عمران خان کا سیاسی کیریئر متاثر کردیا جائے گا۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ انہیں الیکشن میں حصہ لینے کے لئے نااہل قرار دیا جائے۔ شریف برادران کو آج کسی چیز سے خوف ہے تو وہ ہے الیکشن‘ آج کی تاریخ میں اگر پاکستان میں الیکشن ہوتے ہیں تو پاکستان تحریک انصاف بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔ جو نہ تو شریف برادران چاہتے ہیں اور نہ وہ مغربی آقا جن کے ہاتھ میں پاکستانی اقتدار کا ریموٹ کنٹرول ہے۔ عمران خان کے خلاف تحریک کب شروع ہوئی‘ یہ سب جانتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جب انہوں نے شانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی پر مغربی ممالک کے خلاف احتجاج کیا اور پھر جب امریکن ٹیلی ویژن نے ان سے سوال کیا تھا کہ کیا پاکستان‘ افغانستان کے خلاف فوجی کاروائی کے لئے اپنے اڈے فراہم کرے گا؟ جس پر عمران خان نے دوٹوک جواب دیا تھا ”Absolutely Not“۔ یہ الفاظ تیر بن کر مغربی دنیا کے دل کو چیر گئے۔ اور انہوں نے اپنی ہتک اور بے عزتی کا بدلہ لینے کے لئے باقاعدہ مہم چلائی اور پاکستان کے تمام اداروں کو عمران خان کے خلاف تیار کیا۔ عدالتیں انصاف نہ دے سکیں۔ اور قانون تو لاقانونیت کا درس دیتا رہا۔ اس طرح پاکستان کی تاریخ کا ایک عظیم، قابل اور جناح کے بعد دوسرا مقبول ترین وزیر اعظم اقتدار سے بے دخل کردیا گیا۔ پاکستانی عوام کو اس بات کا اندازہ تھا کہ عمران خان کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے اور اس کے پیچھے کونسی طاقتیں ہیں۔ چنانچہ اقتدار سے بے دخلی کے ایک سال تک وہ عمران خان کے شانہ بہ شانہ کھڑے رہے۔ انہوں نے ہر موسم کو جھیلا۔ راتوں کی نیند قربان کی۔ ریالیوں میں میلوں پیدل چلے۔ آنسو گیاس، لاٹھیوں کو جھیلا،لندن میں نواز شریف کے فلیٹ کا مسلسل گھیراؤ جاری ہے۔ اتنا عبرتناک حال آج تک کسی سابق وزیر اعظم کا نہیں ہوا۔ چاہے وہ لندن میں ہوں یا سعودی عرب میں‘ جہاں جاتے ہیں چور چور کے نعرے لگانے والے ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔اگر وہ پاکستانی عوام کے ہاتھوں لگ جاتے ہیں تو جانے کیا ہوگا۔
عمران خان نے پاکستان کو قرض کے دلدل سے باہر نکالنے کی کامیاب کوشش کی۔ ان کی اپیل پر بیرونی ملک میں مقیم پاکستانی تارکین وطن نے کافی مالی مدد کی۔ کیوں کہ انہیں پاکستان کی تاریخ میں پہلا وزیر اعظم نظر آیا جس نے وہاں کے تعلیمی نصاب میں قرآن وسنت کو شامل کیاہے۔ پاکستان کو اسلامی بنیادوں پر تربیت کے لئے ایک انقلابی قدم سمجھا گیا۔ تاہم نظام مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نظریہ کے ساتھ جس ملک میں پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا اس ملک میں اسلامی اقدار اور روایت کی دھجیاں اڑا دی گئی تھیں۔ عمران مدینہ ویلفیر اسٹیٹ کا نظریہ پیش کیا۔ ظاہر ہے کہ وہ لوگ جو پاکستان کو ایک آزاد اور روشن خیال ملک کے طور پر دیکھناچاہتے ہیں وہ بھلا ایک ایسی مملکت کیسے برداشت کرسکتے ہیں جہاں اسلامی قانون نافذ ہوگا۔ عمران خان نے ملک اور بیرون ملک میں کم از کم یہ تاثر ضرور دیا کہ وہ ایک اسلامی ملک کے سربراہ ہیں۔ یہی بات اسلام دشمن طاقتوں کو ناگوار گزری۔ عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی اپنے پڑوسی ملک ہندوستان سے تعلقات کو بہتر بنانے کے سلسلے میں بات کی اور اقتدار ہاتھ سے جانے کے بعد بھی انہوں نے ہندوستان کی پالیسیوں کی ستائش کی۔ عمران خان کے عزائم کو دیکھتے ہوئے ان کا تقابل شاہ فیصل سے کیا جارہا ہے جو سعودی عرب کی تاریخ میں سب سے بہترین حکمران تھے اور جن میں صحیح معنوں میں ایک اسلامی مملکت کے حکمران کے طور پر ساری دنیا کو احساس دلایا تھا۔ انہوں نے قبلہ اول کی بازیابی کے لئے مسجد اقصیٰ اور فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز تسلط کے خلاف جس شدت سے مہم چلائی وہ تاریخ کا ایک ناقابل فراموش باب ہے۔ شاہ فیصل شہید (1964-75) کا دورِ حکمرانی شاندار رہا۔ ملت اسلامیہ کے اتحاد کے لئے ان کی کاوشیں کبھی بھی فراموش نہیں کی گئیں۔ انہی کے دور میں سعودی عرب پسماندہ ترین ممالک کی فہرست سے خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوا۔ تعلیمی ادارو کا جال پھیلایا گیا۔ صنعتیں قائم کیں۔ جب وہ وزیر خارجہ تھے تو 1962ء میں انہوں نے ہی رابطہ عالم اسلامی کی بنیاد ڈالی جو مسلمانوں کی پہلی حقیقی تنظیم ہے۔ ترکی اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات ختم کروائے۔ 1967ء میں اسرائیل کے مقابلہ میں عربوں کی شکست کے بعد شاہ فیصل کی کاوشوں کی بدولت اسلامی اتحاد کی تحریک اور مستحکم ہوگئی۔ 1969ء میں مسجد اقصیٰ میں جب آتش زنی کا واقعہ ہوا تب تمام ممالک اسرائیل کے خلاف ایک تنظیم کے تحت متحد ہوگئے تھے اور 22تا 25ستمبر 1969ء کو مراقش نے پہلی مرتبہ مسلم سربراہان کی کانفرنس ہوئی جس کا مستقل دفتر جدہ میں قائم کیا گیا۔ عمران خان بھی ایسا ہی اتحاد چاہتے تھے۔ انہوں نے ملیشیا اور ترکی کے ساتھ مل کر ایک نیا اسلامی ملک قائم کرنے کی کوشش کی۔ 1973ء میں مصر اور اسرائیل کی جنگ کے دوران جب عرب ممالک نے سعودی عرب کی قیادت میں امریکہ اور مغربی ممالک کو تیل دینا بند کردیا تو افریقہ کے غیر مسلم ممالک نے بھی عربوں کی تائید کی تھی۔ امریکی صدر ایزن ہاور نے شاہ فیصل سے کہا تھا کہ اگر وہ تیل سپلائی بحال کردیں تو وہ اپنے طیارے میں ملک واپس جاسکتے ہیں‘ شاہ فیصل نے انہیں جواب دیا ہم بھی قبلہ اول میں نماز پڑھنے کے لئے بے چین ہیں شاہ فیصل کی اس اسلام پسند پالیسی مغربی ممالک کی آنکھوں میں کھٹکتی رہی اور پھر انہوں نے شاہ فیصل کو ان کے بھتیجے فیصل بن مساعد کے ہاتھوں شہید کروادیا۔ وہ 12ربیع الاول کا مبارک دن تھا۔
فیصل بن مساعد امریکن ایجنٹ تھا۔ اس کی گرل فرینڈ بھی امریکی ہی تھی۔ ڈرگس کا عادی تھا۔ بہرحال! مغرب کی آنکھوں میں جب کوئی کھٹکتا ہے تو اُسے راستہ سے ہٹادیا جاتا ہے۔ صدام حسین، معمر قذافی، محمدمرسی اور کس کس کی مثالیں دی جائیں۔
عمران خان بھی شاہ فیصل کے نقش قدم پر تھے۔ انہوں نے اپنے طور پر کوشش کی کہ خود کو بھی سدھاریں اور قوم کو بھی۔ مگر وہ پاکستانی قوم ہی کیا جو سدھر جائے۔
عمران خان نے اپنے ملک کے لئے جو قربانیاں دی ہیں وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ براڈفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا عہدہ اس شرط پر قبول کیا کہ اس جیسی یونیورسٹی پاکستان میں قائم ہو جس کی ڈگری براڈ فورڈ کے مماثل ہو‘ انہوں نے ایک نیا پیسہ بھی بطور تنخواہ یا معاوضہ نہیں لیا۔ عمران خان کا ماضی، ان کی جوانی کے حالات کیا تھیں وہ ان کا نجی معاملہ تھا۔ اور اللہ ان کو معاف کرنے والا ہے۔جہاں تک اپنے ملک اور قوم کی خدمت کا تعلق ہے‘ اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ چاہے وہ کرکٹ ٹیم کے کپتان کے طور پر ہو یا پی ٹی آئی کے قائد کے طور پر۔ شوکت خانم ہاسپٹل کے قیام کے لئے ان کی کاوشوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے بیرون ملک کچھ نہیں چھوڑا۔ جبکہ شریف برادران ہو یا آصف زرداری یا بھٹو خاندان‘ ان سب نے لندن اور دوسرے ممالک میں کروڑوں ڈالرس کی جائیدادیں خریدی ہیں۔ افسوس اور حیرت کی بات ہے کہ ایک طرف عمران خان کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا جارہا تھا تو اُسی وقت شریف برادران کو منی لانڈرنگ(حوالہ کیس) سے باعزت بَری کیا جارہا تھا۔ حالانکہ شریف برادران کے رشوت خوری، مالی بے قاعدگیوں کی فہرست بڑی طویل ہے۔
بہرحال وقت نے ہر کسی کو سبق سکھایا ہے۔ یہ وقت عمران خان کے لئے آزمائشی ہے۔ انہوں نے اپنی 70سالہ زندگی میں شہرت کی بلندی، دولت کی فراوانی، اقتدار، عوامی مقبولیت اور اقتدار سے دوری سب کچھ دیکھ لی۔ دوبارہ اقتدار پر آئیں گے یا نہیں‘ یا وہ زندہ بچیں گے یانہیں یہ تو بس آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ خدا خیر کرے۔

About Gawah News Desk

Check Also

Congress To Interact with Muslims and Christians Leaders On Socio-Economic Problems

Party to Release Minority Declaration after Dussehra Hyderabad, October 14: The Congress party will release …

دنیا بھر کے مسلمان جمعہ 13/اکتوبر کو ”یوم طوفان اقصیٰ“ کا اہتمام کریں گے۔ نماز …

Leave a Reply