Monday , April 29 2024
enhindiurdu

اجلاس میں ہندوستان کا چین مخالف رویہSCO

”SCOاجلاس میں ہندوستان کا چین مخالف رویہSCO
کے حالیہ دفاعی سربراہی اجلاس میں ہندوستانی وزیر دفاع نے سرحدی خلاف ورزیوں پر چین کو سختی سے آڑے ہاتھوں لیا اور زور دے کر کہا کہ چین اور ہندوستان کے تعلقات سرحدوں پر امن و سکون کی بنیاد پر مبنی ہیں۔“
گزشتہ ہفتے دہلی میں، شنگھائی تعاون کونسل(SCO) کے وزرائے دفاع کے اجلاس میں، ہندوستان نے اپنے قریبی پڑوسی چین کے خلاف بہت سخت رویہ اپنایا۔ دراصل یہ سخت رویہ حالیہ عرصے میں ہندوستانی سرحدی علاقے میں چین کی طرف سے سرحدی خلاف ورزیوں کے معاملے پر اس کی فوجی سرگرمیوں کے بعد سامنے آیا ہے۔ کیونکہ چین کے ساتھ کئی مرتبہ کی بات چیت کے باوجود چین کی جانب سے سرحدی خلاف ورزیوں کو ابھی تک نہیں روکا گیا ہے۔
ہندوستان کا سخت رویہ
چین کے وزیر دفاع لی شانگفو 2020 میں دونوں ملکوں کے درمیان لداخ کے علاقے میں ہونے والی سرحدی جھڑیوں کے بعدیعنی کہ تقریباً تین سال کے عرصے کے بعد ہندوستان آئے ہیں۔ یاد رہے کہ ان جھڑپوں میں 20 ہندوستانی اور چار چینی فوجی مارے گئے تھے اور دونوں ملک جنگ کے بہت قریب آگئے تھے۔ درحقیقت ہندوستان کو چین کی جانب سے اس طرح کی دراندازی کی کوئی بھنک نہیں تھی۔
ہندوستانی وزیر دفاع نے لی شانگفو کے ساتھ اپنی ملاقات میں چین پر سرحدی جارحیت کا الزام لگایا، جس نے دو طرفہ تعلقات کی ”پوری بنیاد کو ختم کر دیا“، کیونکہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر مذاکرات ابھی بھی تعطل کا شکار ہیں۔ عموماً ایسا نہیں ہوتا ہے کہ آپ اپنے ملک آنے والے کسی سینئر وزیر سے اس لہجے میں بات کریں لیکن سرحدی تنازعے پر چین کی مکمل بے حسی نے ہندوستانی حکومت کو یہ سخت رویہ اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
مارچ 2023میں، چین نے اروناچل پردیش میں 11 مقامات کے ”نام بدلنے“ کے اپنے منصوبے کا اعلان کیا، جس کے تحت اس کا دعویٰ ہے کہ یہ سب علاقے تبت کا حصہ ہیں یعنی کہ چین کے کنٹرول میں۔ جب ہندوستانی وزیر داخلہ نے اسی ہفتے ہندوستانی علاقائی دعوے پر زور دینے کے لیے سرحدی علاقے کا دورہ کیا تو بیجنگ نے جوابی حملہ کرتے ہوئے اس دورے کو اپنی علاقائی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا۔
سرحدی تنازعہ
حال ہی میں، کچھ علاقوں میں چینی فوجیوں کے واپس جانے کے باوجود بھارتی فوجی افسران اور دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی بھی تقریباً 1500 مربع کلومیٹر علاقہ چینی فوج (پی ایل اے) کے زیر قبضہ ہے۔ لداخ میں تنازعہ کے دو اہم علاقے ڈیمچوک اور ڈیپسانگ ہیں، جن پر پہلے بھارتی فوجی گشت کرتے تھے لیکن اب ان پر پی ایل اے کے فوجیوں کا قبضہ ہے۔ دونوں علاقے ہندوستان کے لیے حکمت عملی کے لحاظ سے اہم ہیں، لیکن کئی دور کی بات چیت کے باوجود اس مسئلے پر ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور چینی فوجی لداخ میں موجود ہیں اور ساتھ ہی چین کی طرف سے بھی اس مسئلے کے حل کی طرف کوئی جھکاؤ نظر نہیں آتا۔
لداخ میں سرحد کے قریب رہنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہسرحدی مذاکرات میں، نئی دہلی نے بیجنگ کو بفر زون بنانے پر اتفاق کرتے ہوئے زمین چین کو سونپ دی تھی – جہاں اب کوئی بھی فریق گشت نہیں کر سکتا – پہلے یہ زمین بھارت کے قبضے میں تھی، خاص طور پر متنازعہ پینگونگ وادی میں تسو اور چشول کے علاقے، لیکن اب ان پر چین کا قبضہ ہے۔ یعنی کہ اس معاملے میں اصل ہار بھارت ہی کی ہوئی ہے۔
درحقیقت، یہ اس وجہ سے ہوا کہ ہندوستان اس علاقے کے لیے چین کی تسلط پسندانہ حکمت عملی کو پہلے نہیں بھانپ سکا اور جب تک ہندوستان نے اس پر کوئی ردِ عمل ظاہر کیا تب تک چین ایک بڑے علاقے پر قابض ہوچکا تھا۔ چین متنازع علاقے میں نئی شاہراہیں، ریلوے لائنیں، پل، فضائی پٹی اور جدید ترین فوجی اڈے، جدید رہائشی بلڈنگیں اور 5G ٹاورز تعمیر کررہا ہے، جب کہ بھارت نے تاریخی طور پر چینی سرحد کے قریب علاقوں کو ترقی دینے سے ہمیشہ گریز کیا،تاکہ کسی اشتعال انگیزی کو روکا جا سکے۔ وہ پیچھے رہ گیا اور اسی وجہ سے ہندوستان کے سرحدی علاقوں کے باشندے آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور ساتھ ہی غریب بھی۔
ماضی قریب میں بھارت نے اپنی سابقہ غلطیوں کو درست کرنے کے لیے چین کے ساتھ سرحد کے قریب انفراسٹرکچر پر اپنی توجہ دوگنی کر دی ہے۔ جنوری 2023 میں ہندوستانی وزیر دفاع نے 27 بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ ان منصوبوں کا مقصد سرحدی انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانا ہے، ان منصوبوں کے تحت ہندوستان سرحدی علاقوں میں 37,500 میل سڑکوں، 350 میل پلوں، 19 ہوائی اڈوں اور چند سرنگوں کی تعمیر میں تیزی لا رہا ہے۔
اس ہندوستانی انفراسٹرکچر میں تیزی لانے کا اندازہ زوجیلا ٹنل کی تعمیر سے لگایا جاسکتا ہے۔جو کہ ہمالیہ رینج میں تقریباً 3,000 میٹر کی اونچائی پر، لداخ کو ہمہ موسمی رابطہ فراہم کرنے کے لیے 8 میل لمبی سرنگ کی تعمیر کے ذریعے واضح ہے۔ بھارت 1.4 بلین ڈالر کی رقم خرچ کرکے اس سرنگ کو جلد از جلد مکمل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔
ایس سی او دفاعی اجلاس
اگرچہ شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (SCO)دوطرفہ مسائل کے لیے ایک موزوں پلیٹ فارم نہیں ہے، تاہم اس مرتبہ وزرائے دفاع کی میٹنگ میں پالیسی کی ترجیحات کو اجاگر کیا گیا، جہاں ہندوستان نے دہشت گردی پر توجہ مرکوز کرائی، وہیں روس نے مغرب کے انڈو پیسیفک تصور اور کواڈ جیسے علاقائی گروپوں کی تخلیق پر اپنی تنقید کا اعادہ کیا۔
دفاعی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے راج ناتھ سنگھ نے اعادہ کیا کہ علاقائی تعاون کے ایک مضبوط” فریم ورک کو “ان کے جائز مفادات کا خیال رکھتے ہوئے تمام رکن ممالک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے اور اسے فروغ دینا چاہتا ہے۔
دریں اثنا، چینی وزیر دفاع نے صدر جن پنگ کے ‘گلوبل سیکیورٹی انیشیٹو’ کی حمایت کی اور کہا کہ بیجنگ SCO کے دیگر اراکین کے ساتھ مل کر گلوبل سیکیورٹی انیشیٹو کو نافذ کرنے کے لیے تیار ہے۔جس کا اصل مقصد چین اور ہندوستان کے سمندری علاقوں میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی کاوشوں کو روکنا بھی ہے اور ساتھ ہی عالمی سطح پر چین کو نمبر ایک عالمی طاقت بنانا بھی ہے۔
روسی وزیر دفاع جنرل سرگئی شوئیگو نے ابھرتے ہوئے سیکیورٹی منظر نامے کو امریکی تسلط کے تحت لانے کی کوشش کے لیے مغرب اور خاص طور پر امریکہ پر نشانہ سادھا۔ روس نے ہمیشہ امریکہ کی مخالفت کی ہے، جس کی مغرب نے حمایت کی ہے اور جس کے ذریعے چین کو گھیرنے کی کوشش قرار دیاجاتا ہے۔ روسی وزیر نے اپنے اس یقین کا اظہار کیا کہ SCO کی عالمی اور علاقائی سلامتی کے چیلنجز کے حوالے سے ”آزاد پالیسیاں“عالمی برادری کے لیے ایک نئے بلیو پرنٹ کا کام کر سکتی ہیں۔ انہوں نے ابھرتے ہوئے کثیر قطبی بین الاقوامی نظام کے ایک اہم ستون کے طور پر ایس سی او کے کردار کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا، جو کہ برابری، باہمی احترام اور بین الاقوامی قانون کی تعمیل کے اصولوں پر مبنی بین ریاستی تعلقات کو فروغ دیتا ہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں)

About Gawah News Desk

Check Also

Congress To Interact with Muslims and Christians Leaders On Socio-Economic Problems

Party to Release Minority Declaration after Dussehra Hyderabad, October 14: The Congress party will release …

دنیا بھر کے مسلمان جمعہ 13/اکتوبر کو ”یوم طوفان اقصیٰ“ کا اہتمام کریں گے۔ نماز …

Leave a Reply