Thursday , November 21 2024
enhindiurdu

باباجی کا بلڈوزر کہاں ہے؟

ثانسان خیر و شر کا مجموعہ ہوتا ہے۔ وہ نہ تو خیر مجسم ہوتا ہے(انبیائے کرام علےہم السلام استثناءہیں) اور نہ شر مجسم۔ یوگی آدیتیہ ناتھ کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا شر کے معاملے بھی استثنائی صورتحال ہوتی ہے لیکن انہوں نے اپنی پولیس سے آگرہ ضلع میں گائے کو ذبح کرکے رام نومی پر ماحول خراب کرنے کی کوشش کا پردہ فاش کرکے اس خیال کو غلط ثابت کردیا۔ ان کا یہ اقدام قابلِ ستائش ہے۔ آگرہ پولیس کے مطابق اس سازش میں اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا کے قومی ترجمان سنجے جاٹ نے دیگر عہدیداروں کے ساتھ کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اس کا مقصد پرانی دشمنی نکالنے کی خاطر کچھ مسلم نوجوانوں کو پھنسانا تھا۔ چوری اور سینہ زوری کرنے والے اکھل بھارتےہ ہندو مہاسبھا کے عہدیدار گائے ذبح کرکے گوشت سمیت پولیس تھانے پہنچے۔ اس معاملے میں جتیندر کشواہا نے محمد رضوان، محمد نقیم اور محمد شانو کے خلاف مقدمہ درج کروادیا تاہم تفتیش سے معلوم ہوا کہ نامزد ملزمان کا جرم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ بھی پتہ چلا کہ سنجے جاٹ کی کچھ لوگوں سے دشمنی تھی اور وہ انہیں اس کیس میں پھنسانا چاہتا تھا۔ اس لئے ہندو مہاسبھا کے چار عہدیداروں کو گرفتار کرلیا گیا۔
سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے اس دھوکہ دہی کا پردہ فاش کرنے والے پولیس افسران کو ٹویٹ کرکے خراج تحسین پیش کیا کیونکہ آگرہ پولیس کے مطابق یہ سنگین معاملہ صرف ذاتی دشمنی تک محدود نہیں تھا۔ رام نومی پریڈ کے دوران اکھل بھارتےہ ہندو مہاسبھا کے کچھ ارکان نے فرقہ وارانہ تشدد بھڑکانے کے لئے یہ گﺅکشی کی تھی۔ پولیس نے بتایا کہ آگرہ کی سماجی ہم آہنگی کو خراب کرنے کے لئے رام نومی کے موقع پر گائے کو ذبح کیا گیا تھا۔ سنجے جاٹ امسال فروری میں مویشی لے جانے والی گاڑیوں کو روک کر تاوان بٹورنے کے الزام میں گرفتار ہوچکا ہے۔ اتر پردیش میں گائے ذبیحہ کے جرم کی زیادہ سے زیادہ 10 سال سخت قید اور 5 لاکھ روپے تک جرمانہ ہے۔ جاٹ پر تو امن و امان کو تاراج کرنے کا اضافی الزام بھی ہے۔ اس لئے جہاں بے شمار بے قصور لوگوں پر یو اے پی اے جیسے ظالمانہ قوانین لگا دےئے گئے اس کے بعد ان مستحقین کو بھی اس سے فیضیاب کیا جانا چاہئے۔ اترپردیش میں تو باباجی کا بلڈوزر بھی چلتا ہے اور اس کو چلاکر خوب تشہیر کی جاتی ہے۔ کیا یوگی جی کا بلڈوزر سنجے جاٹ اور اس کے ساتھیوں کے املاک کو روندے گا؟ اگر ایسا نہیں ہوا تو اس اقدام میں کجی رہ جائے گی۔
اس سے قبل اکتوبر 2020 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے ریاست کے اندر گﺅ تحفظ ایکٹ کے غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یوپی میں بے گناہوں کے خلاف اس قانون کا ناجائز استعمال کیا جارہا ہے۔ جسٹس سدھارتھ نے کہا تھا کہ جب بھی گوشت برآمد ہوتا ہے اس کی فورنسک لیب میں جانچ کرائے بغیر اسے گائے کا گوشت قرار دے دیا جاتا ہے اور بے قصور شخص کو ایک ایسے الزام میں جیل بھیج دیا جاتا ہے جو اس نے کیا ہی نہیں۔ گﺅ تحفظ ایکٹ کے تحت جیل میں قید رحیم الدین کی ضمانت عرضی منظور کرکے انہیں رہا کرتے ہوئے جسٹس سدھارتھ نے یہ بات کہی تھی کیونکہ ایف آئی آر میں عرضی گذار کے خلاف نہ کوئی خاص الزام تھا اور نہ وہ موقع واردات پر پکڑا گیا تھا نیز پولیس نے برآمد گوشت گائے کا ہی ہے یا کسی دیگر مویشی کا ہے یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کی تھی۔ گوشت کو فورنسک لیب بھیجنے کے بجائے ملزم کو اس جرم میں جیل بھیج دیا گیا تھا۔
ہندوستانی انتظامیہ میں سارے پولیس افسر نہ تو آگرہ کے آر کے سنگھ جیسے اورنہ ہی سارے جج جسٹس سدھارتھ کی مانند دلیر ہوتے ہیں۔ ستمبر 2021 میں الہ آباد ہائی کورٹ میں ہی جسٹس شیکھر کمار یادو کے سامنے 6ماہ سے جیل میں بند سنبھل کے جاوید کا قضیہ زیر سماعت آیا۔ ان پر اترپردیش ذبیحہ گﺅ قانون کے تحت کیس دائر کیا گیا تھا۔ جاوید کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف پولیس کی ملی بھگت سے جھوٹا کیس دائر کیا گیا ہے۔ وہ اس جگہ موجود بھی نہیں تھے جہاں مبینہ طور پر گائے ذبح کی گئی۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر کمار یادو نے ان کے دلائل مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بادی النظر میں وہ قصوروار نظر آتا ہے اور اگر انہیں ضمانت پر رہا کردیا گیا تووہ پھر اسی جرم کا ارتکاب کریں گے۔ اس سے سماج میں کشیدگی پیدا ہوگی گویا قیاس آرائی کی بناءپر ایک بے قصور انسان کو پھر سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ جج صاحب نے گائے کو ہندوستانی تہذیب کا اٹوٹ حصہ قرار دے کر مرکزی حکومت سے قانون سازی کرکے گائے تحفظ کو ہندوو¿ں کا بنیادی حق قرار دینے کی گہار لگا دی۔ اس مشورے کے حق میں انہوں نے جو نادر دلائل ارشاد فرمائے اسے پڑھ کر عدلیہ کے معیار پر ہنسی آتی ہے۔
جسٹس شیکھر کمار یادو نے 12صفحات پر مشتمل اپنے حکم نامے میں لکھا کہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے گائے کو قومی جانور قرار دیا جائے کیونکہ جب ملک کے کلچر اور ”آستھا“ کو چوٹ پہنچتی ہے تو ملک کمزور ہوجاتا ہے۔ جج صاحب نے کہا جب گائے کا بھلا ہوگا تبھی دیش کا بھلا ہوگا۔ ان مفروضات کے حق میں فاضل جج نے لکھا کہ گائے کے دودھ، دہی، مکھن، پیشاب اور گوبر پانچ چیزوں سے تیار ہونے والی ”پنچ کاویم“ کئی بیماریوں کے علاج میں مفید ہیں اور ہندو دھرم کے مطابق گائے میں 33 کروڑ دیوی اور دیوتاو¿ں کا واس (قیام) ہوتا ہے۔ اپنے اس دعوے کی تائید میں جسٹس یادو نے ہندوو¿ں کی مقدس کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ”گائے کا ذکر وید میں بھی ہے جو کہ ہزاروں برس پرانی ہے۔“ کاش کہ جج صاحب ویدوں کو پڑھتے تو انہیں پتہ چلتا کہ وہاں گائے کا ذکر قربانی کے حوالے سے ہے۔ ”رگ وید“ (منڈل:10، سوکت منتر:13) اس میں بیل کا گوشت پکانے اور اس کو کھانے کا تذکرہ ہے۔ رگ وید (10-85-13)گائے کا تذکرہ ہے۔ مہابھارت انوشاسن پرو، ادھیائے:88، شلوک :5، منوسمرتی :368 میں لکھا ہے گائے کا گوشت پیش کرنے سے ایک سال تک اور بڑے بیل کے گوشت سے 12سال تک بزرگوں کی روحوں کو سکھ شانتی پراپت ہوتی ہے۔
جسٹس یادو کے مطابق صرف ہندو ہی نہیں بلکہ مسلمان بھی بھارتی کلچر میں گائے کی اہمیت کو سمجھتے تھے اور بابر، اکبر اور ہمایوں جیسے بادشاہوں نے تہواروں کے موقع پر گائے کے ذبیحہ پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ جج صاحب نے اپنے پروچن میں کہا کہ ”آپ صرف زبان کے چٹخارے کے لئے کسی کی جان نہیں لے سکتے اور زندہ رہنے کا حق مارنے کے حق سے بالاتر ہے۔ گائے کا گوشت کھانا کبھی بھی بنیاد ی حق نہیں رہا ہے۔ بنیادی حق صرف ان کے لئے خصوصی مراعات نہیں ہے جو گائے کا گوشت کھاتے ہیں بلکہ ان کے لیے بھی ہے جن کی آمدنی کا ذریعہ گائے ہے اور جو گائے کی پوجا کرتے ہیں۔ جسٹس یادو نے دعویٰ کیا تھا کہ مسلمانوں کی اکثریت ملک میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی کے حق میں ہے حالانکہ اس پابندی کی مخالفت بنگال، کیرالہ، تمل ناڈو اور شمال مشرقی ریاستوں میں غیر مسلم بھی کرتے ہیں۔ کل ہی چھتیس گڑھ میں چار ہندو نوجوانوں کو گائے کا گوشت بیچتے ہوئے گرفتار کیا گیا ظاہر ہے ان کے خریدار بھی ہم مذہب ہوں گے۔ بیف برآمد کرنے والی بیشتر بڑی کمپنیاں غیرمسلموں کی ہیں۔ جج صاحب کی تحقیق کے مطابق عیسی مسیح نے ایک گائے یا بیل کو مارنا انسان کو قتل کرنے کے برابر قرار دیا ہے۔ بال گنگا دھر تلک نے کہا تھا کہ چاہے مجھے مار ڈالو لیکن گائے پر ہاتھ نہ اٹھاو¿۔ پنڈت مدن موہن مالویہ نے بھی گائے کے قتل کو ممنوع قرار دینے کی وکالت کی تھی اور خواجہ حسن نظامی نے گﺅ کشی کے خلاف تحریک چلائی تھی نیز بدھ مت کے پیروکار گائے کو انسانوں کی دوست بتاتے تھے، جبکہ جین مت کے ماننے والے تو گائے کو جنت قرار دیتے ہیں۔
گﺅ کشی کی مخالفت کرکے اپنے سبکدوشی کی زندگی میں عیش و آرام حاصل کرنے والے ججوں کی فہرست میں راجستھان ہائی کورٹ کے جج مہیش چند شرما بھی شامل ہیں۔ انہوں ریٹائرمنٹ سے ایک دن قبل ایک دلچسپ فیصلے میں گﺅ کشی کی سزا کو دس سال سے بڑھا کر عمر قید کرنے کی تجویز پیش کی۔ جسٹس یادو اور جسٹس شرما کو نہ جانے کن سائنس دانوں نے کہہ دیا کہ گائے واحد جانور ہے جو آکسیجن لیتی ہے اور آکسیجن ہی خارج کرتی ہے اور اس کا ذکر انہوں نے اپنے فیصلے میں کردیا۔ لوگ اگر اس پر یقین کرلیتے تو کورونا کے زمانے میں آکسیجن سلنڈر کی کمی کے دوران ہر مریض گائے سے لپٹ کر اپنی سانسیں درست کرلیتا۔ شرما جی نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کسی روسی سائنسدان کے مطابق گھر کی دیواروں پر گائے کے گوبر کا لیپ لگا کر تابکاری سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ جون 2017 کے فیصلے میں جسٹس شرما نے گائے کو ایک چلتا پھرتا اسپتال قرار دے کر کہا کہ گائے کا پیشاب سے نہ صرف جگر، دل اور دماغ صحت مند رہیں گے بلکہ پچھلے جنم کے گناہ بھی دھل جائیں گے۔ ان کا انکشاف تھا کہ گائے کا گوبر ہیضے کے جراثیم کو تباہ کرتا ہے۔گائے کا دودھ پینے سے کینسر نہیں ہوتا اورہڈیاں مضبوط رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ راجستھان کے ایک بی جے پی رہنما نے کورونا سے بچنے کے لیے خود کو گوبر سے لت پت کرلیا تھا۔ خدا نہ کرے سنجے جاٹ کا قضیہ کسی ایسے جج کی عدالت میں نہ چلا جائے ورنہ آگرہ کے پولیس کمشنر آرکے سنگھ کی ساری محنت پر پانی پھر جائے گا اور یوگی جی بھی حیرت سے دیکھتے رہ جائیں گے۔

About Gawah News Desk

Check Also

ہندوستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے ذہن سازی۔غیر اخلاقی تعلقات سے پاک و صاف ماحول کی ضرورت

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے انتخابات اور منظورہ قراردادیںآل انڈیا مسلم پرسنل لا …

ایران۔ افغان سرحدی تصادم یا آبی جنگوں کا آغاز؟

اسد مرزا(دہلی)”ایران اور افغانستان کے درمیان حالیہ سرحدی جھڑپیں مقامی اور عالمی سطح پر مستقبل …

Leave a Reply