محمد اعظم شاہد
ہمارے ملک کے موجودہ حالات کی ستم ظریفی پر رنج و ملال سے حاصل تو کچھ نہیں ہوگا، اگر ہم برہم ہوجائیں، اور ہمارے ساتھ ہو رہے ناروا سلوک کا رونا روتے رہ جائیں، اس سے بھی کیا ہوگا؟ فائدہ تو ان کو ہی ہوگا جو ہمیں طرح طرح سے پسماندہ رکھنے کی سازشیں آزماتے رہتے ہیں، حالات جو ہمارے روبرو ہیں وہ فوری طورپر کہاں سے بدل پائیں گے، بدلاؤ کیلئے ہمیں خود حالات کے تحت ہمارا محاسبہ کرتے ہوئے ہماری خامیوں کی نشاندہی کرنی ہوگی۔ اعتماد، اتحاد، بلند حوصلوں کے ساتھ آگے بڑھنے کیلئے اپنے تئیں اقدامات کرنے ہوں گے، معاشرے میں بسنے والے عام آدمی کو حالات کی سنگینی کا کوئی علم ہی نہیں ہے، وہ تو بس اپنی زندگی جینے کی جہد میں روز و شب الجھا ہوا ہے، حصول تعلیم کی اہمیت عام کرنے ملی ادارے فعال رول ادا کرسکتے ہیں، اکثر ان اداروں میں مجلسی تقریبات پر زور دیا جاتا ہے، جس کا حاصل کچھ بھی نہیں، ہمارے این جی اوز میں مخلص خدمت گزاروں کی ضرورت ہے جو اپنے معمولات سے فارغ ہوکر اپنے گرد و نواح کے لوگوں کا درد اپنے دل میں محسوس کریں۔ اور ان کی ممکنہ فلاح کا سامان کریں۔ ملک بھر میں ایسے اداروں کا کارگر رول رہا ہے، ایسے اداروں کا جال ہر طرف پھیلے ایسی کوششوں کی ضرورت ہے۔
حکومتوں کی غیر منصفانہ اور جانبدارانہ پالیسوں پر سوال اٹھانا اور حکومتوں کو جوابدہ رکھنا، باشعور اور ذمہ دار اپوزیشن کا کام ہے۔ جو اکثر توقعات پر پورا نہیں اترتا۔ شاید اپوزیشن کے طریقہ کار میں ہی کچھ خامیا رہ جاتی ہوں، ورنہ جمہوری نظام حکومت،ہر اعتبار سے ممکن ہے کہ جس طرح کی بھی حق تلفیاں ہوں اور متعصبانہ رویہ اگر کوئی بھی حکومت اس کی مرتکب ہو تو دستوری مراعات کے دائرے میں اس کے تدارک کیلئے اسے آمادہ کیا جائے، مگر موجودہ حکومت اپنے آمرانہ رویہ میں مگن ہے، اس کے روبرو کچھ بولنا پتھروں کے آگے فریاد کرنے جیسا ہے، ان حالات میں حکومت پر بھروسہ کئے ہاتھ دھرے بیٹھ جانا ہمارے اپنے مفاد کے تحفظ اور ہماری اپنی شناخت کیلئے انتہائی نقصان دہ رویہ ہے، اپنی پہچان اسی میں ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں کا صحیح اور مناسب استعمال کریں، تعلیم، صنعت و حرفت، تجارت اور فنون میں اپنی وراثت کو قائم رکھیں۔ ورنہ وہ وقت دور نہیں کہ ہم حرف غلط کی طرح مٹا دئے جائیں گے، حکومتوں پر بھروسہ کرنے کی روایت ہمارے ہاں پرانی ہے، یہ بھروسہ اور اعتماد اکثر وقت کے ساتھ اپنی وقعت کھو دیتا ہے۔ یہ اس لئے بھی کہنا پڑ رہا ہے کہ یو پی اے سرکار نے مرکز میں سچر کمیٹی سفارشات پر پوری ایمانداری کے ساتھ اگر بروقت اقدامات کئے ہوتے تو مسلمانوں کی معاشی، سماجی اور تعلیمی ترقی کی صورت مختلف ہوتی، مگر اب مودی حکومت میں یہ رپورٹ اور تمام سفارشات ردی خانے کی نذر ہوکر رہ گئے ہیں۔ اب اس رپورٹ اور سفارشات پر پارلیمنٹ میں نہ کوئی آواز اور نہ ہی کوئی مطالبہ سننے میں آتا ہے۔
اپنی مدد آپ کرنے کا قرینہ جب بھی جہاں بھی اپنے اندر عملی طورپر حرکت میں آئے گا، حالات بدلنے میں طرز فکر و عمل کارگر ثابت ہوگا، اس ضمن میں کتاب مبین میں سورہ الرعد میں ارشاد ربانی کو شعری پیرہن میں مولانا ظفر علی خان نے یوں پیش کیا ہے ……
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
یعنی آپ اپنی حالت بدلنے کی تدبیرہی سے تقدیریں بدل جاتی ہیں، محض ارمانوں سے اور رنجیدہ دل ہوکر شکوہ شکایت سے کچھ بھی نہ مل پائے گا، گزرتے وقت کے ساتھ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی معاشی، سماجی اور تعلیمی پسماندگی دلتوں اور پچھڑے ہوئے طبقات سے بھی کم تر ہے۔ اسکولوں میں ہمارے بچوں کا داخلہ قومی اوسط National Average سے انتہائی کم اور ڈراپ آؤٹ کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ واضح ہے کہ ہماری تعلیمی پسماندگی ہمارے معاشی افلاس میں اضافے کا باعث ہوگی، اسی لئے مسلمانوں میں تعلیم کی افادیت اور اہمیت روشن کرتے ہوئے مصلح قوم سرسید احمد خان نے بار بار تلقین کی تھی کہ علم کے خزانوں پر قبضہ جماؤ، زندگی کامیاب گزرے گی۔ حالات سے ہماری بے خبری نے ہم میں بے نیازی، کاہلی، عدم اعتماد و حوصلے اور بے توجہی عام کردی ہے، ان تمام خصوصیات کے باعث آج ہم رسوائے زمانہ ہیں۔ ہمیں لینے سے زیادہ دینے کے قابل بن جانا ہے۔ جو لوگ اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں سے زمانے کو Contribute کرتے ہیں، وہی قدر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں، نامرادیوں اور مایوسی کے خول سے نکل کر اپنے لئے اپنی دنیا آپ بنانے کی جب تک ہم میں جستجو اور امنگ نہیں ہوگی، ہم بے نام و نشان بن کر رہ جائیں گی۔
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سر آدم ہے، کن فکاں ہے زندگی (اقبال)
9986831777