لنگایت، ووکالیگا، سوشل انجینئرنگ، 4 فیصد مسلم ریزرویشن کا خاتمہ اور ڈبل انجن کی سرکار، کرناٹک چناؤ میں بی جے پی کا کوئی داؤ نہیں چلا۔ حتیٰ کہ عوام نے “مرکز میں مودی جی بیٹھے ہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ” اس بات پر بھی یقین نہیں کیا۔ کیونکہ کنسٹرکشن ٹھیکیداروں، اسکول، کالج کے مینجمینٹ کی 40 فیصد کمیشن اور تقرریوں میں بدعنوانی کی شکایتوں پر مودی جی نے کوئی توجہ نہیں دی۔ آخر بی جے پی کو مفت کی ریوڑیاں بانٹنے ککے لئے مجبور ہونا پڑا۔ حالانکہ وہ گجرات الیکشن میں عام آدمی پارٹی پر ریوڑیاں بانٹنے کا الزام لگا چکی ہے۔ پہلی مرتبہ بی جے پی کو دہلی کی چکا چوند سے باہر نکل کر غریبوں، دلتوں اور بی پی ایل خاندانوں کی بات کرنی پڑی۔
بی جے پی نے انتخابی عہد کے بجائے منشور جاری کر کرناٹک کے عوام کو لبھانے کی کوشش کی ہے۔ اس کے مطابق دس لاکھ بے گھروں کو گھر، ایس سی ایس ٹی گھر کی مکھیا خواتین کے لئے دس ہزار روپے کی پانچ سال کے لئے ایف ڈی، تیس لاکھ خواتین کے لئے مفت بس پاس، شہری غریبوں کو پانچ لاکھ گھر، روز آدھا لیٹر نندنی دودھ، بی پی ایل کارڈ ہولڈر کو پانچ کلو راشن، سال میں تین گیس سلنڈر دیئے جانے کے وعدہ کے ساتھ مسلمانوں کے 4 فیصد ریزرویشن کو ووکالیگا اور لنگایت میں آدھا آدھا بانٹنے، غریب خاندانوں کے ہندو زائرین کو کانسی، متھرا درشن کے لئے 25 ہزار روپے دینے اور مندروں کے منتظمین کی آزادی کے لئے کمیٹی بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ منشور میں اٹل اہار یوجنا کے تحت 15 روپے میں بھر پیٹ کھانا مہیا کرانے اور بیٹا کربا، سدی، تلوارا، پریوارا کو آدی واسی زمرے میں شامل کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔ کرناٹک میں بی پی ایل کارڈ ہولڈرز کی مجموعی تعداد 21 فیصد یعنیٰ 1.29 کروڑ ہے۔ آئی ٹی ہب کہلانے والے بنگلور شہر میں بھی بی پی کارڈ ہولڈر 20 فیصد سے زیادہ ہیں۔ بعض دیہی علاقوں میں یہ تعداد 40 فیصد کے قریب ہے۔
سوال یہ ہے کی ریاست اور مرکز میں بی جے پی کی حکومت کے ہوتے ہوئے کرناٹک کی حالت اتنی خراب کیسے ہوئی کہ یہاں کا ہر چوتھے شخص کو غریبی میں زندگی گزارنی پڑ رہی ہے۔ بقول پرینکا گاندھی گزشتہ چار سالوں کے دوران 6487 کسانوں، 1675 بے روزگاروں، قرض ادا نہ کر پانے یا کاروبار میں نقصان کی وجہ سے 3734 اور غریبی کی وجہ سے 542 لوگوں نے کرناٹک میں خودکشی کی ہے۔ وہیں راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے دور حکومت میں 40 کروڑ لوگ بے روزگار ہوئے اور 90 لاکھ چھوٹے کاروبار بند ہوئے ہیں۔ 42 فیصد نوجوان اس وقت بے روزگار ہیں۔ مہنگائی آسمان چھو رہی ہے 400 روپے کا گیس سلنڈر 1100 سو روپے کا کوکنگ آئل 60 روہے سے 200 روپے اور دال سبزیوں کی قیمت دو گنی تین گنی ہو گئی ہے۔ یہ سب کرپشن اور پونجی پتیوں کو ملک کے وسائل سونپ دینے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ وزیراعظم عوام کے مسائل کی بات کرنے کے بجائے صرف اپنی بات کرتے ہیں جیسے مجھے 91 بار گالی دی،یہ کہا وہ کہا وغیرہ۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی قیادت مسائل کا حل پیش کرنے کے بجائے الیکشن میں رعایتوں کا اعلان کرکے ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے
کانگریس نے کرناٹک میں کرپشن، مہنگائی، غریبی اور بے روزگاری کو بنیادی مدعا بنایا ہے۔ ہر میٹنگ میں پانچ وعدے دوہرائے جا رہے ہیں۔ ہر ماہ 200 یونٹ مفت بجلی، خواتین کو 2000 روپے ماہانہ، آنگن واڑی کارکن کو پندرہ ہزار، منی آنگن واڑی کو دس ہزار اور آشاکارکنوں کو پانچ ہزار تنخواہ دی جائے گی۔ ریٹائرمینٹ کے وقت آنگن واڑی کارکن کو 3 اور منی آنگن واڑی کو 2 لاکھ روپے دیئے جائیں گے۔ ہر بے روزگار گریجویٹ کو 3000 اور ڈپلومہ ہولڈر کو 1500 روپے ماہانہ دیا جائے گا۔ بی پی ایل خاندان کو ہر ماہ مفت دس کلو چاول وغیرہ۔ کانگریس کے ذریعہ اٹھائے گئے ایشوز کا بی جے پی کوئی جواب نہیں دے سکی۔ نتیجہ کے طور پر اس کے حق میں ماحول بن گیا۔ ہر طبقہ جے لوگ یہ ماننے لگے کہ بی جے پی ذات، کمیونل پولرائزیشن اور کرپشن کرنے والی جماعت ہے۔ وہ ترقی نہیں کر سکتی صرف لوگوں کو بانٹ کر فرقہ وارانہ بنیاد پر ووٹ حاصل کرتی ہے۔ فساد کرا سکتی ہے وہ کرپشن کو ختم نہیں کر سکتی۔ اس کے نزدیک الیکشن پہلے ہے باقی سب کچھ اس کے بعد۔ اس کا اندازہ کرناٹک انتخاب میں بھی ہوا۔ کشمیر میں چھ جوان شہید ہو گئے اور منی پور جلتا رہا لیکن وزیر داخلہ اور وزیر اعظم نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی، نہ اپنا کوئی پروگرام رد کیا۔ جوانوں کی شہادت پر کوئی ٹوئٹ تک نہیں کیا۔ البتہ راہل گاندھی نے بروقت جوانوں کی شہادت پر غم کا اور ان کے خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کیا۔
کرناٹک کی مقامی ایجنسی ایڈینا کمیونٹی کے سروے میں کانگریس کی انتخابی حکمت عملی کا اثر صاف دکھائی دیا۔ ایڈینا نے ایک ہزار سٹیزن جنرلسٹوں کے ذریعہ 224 سیٹوں میں سے 204 اسمبلی حلقوں کے 41 ہزار 169 لوگوں سے بات کرنے کے بعد اپنی رپورٹ پیش کی۔ اس نے سروے کی بنیاد پر کانگریس کو 134 سے 140 اور بی جے پی کو 57 سے 65 سیٹیں ملنے کا اندازہ لگایا۔ اس سروے سے ایک طرف کانگریس کچھ زیادہ ہی پر اعتماد ہو گئی۔ وہیں بی جے پی اپنے کمیونل ایجنڈے پر اتر آئی۔ مسلم ریزرویشن، یکساں سول کوڈ، این آر سی، کیرالہ اسٹوری، بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر، عتیق کا قتل، کانگریس کے ذریعہ مسلمانوں کی منھ بھرائی، دہشت گردوں کی ہمت افزائی اور کانگریس کے زمانہ کی بدعنوانیوں کو بی جے پی مدعا بنا رہی تھی۔ لیکن عوام اپنے مسائل کا بی جے پی سے حل معلوم کر رہے تھے۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، اسی دوران ہر الیکشن کی طرح اس بار بھی کانگریس نے بیٹھے بٹھائے پی ایف آئی بجرنگ دل پر پابندی کی بات کہہ کر مدعا دے دیا۔ نریندرمودی نے بجرنگ دل کو بجرنگ بلی سے جوڑ دیا۔ حالانکہ بجرنگ دل کا نام سیکڑوں واقعیات میں شدت پسند، مجرمانہ پس منظر والی تنظیم کے طور پر آ چکا ہے۔ لیکن بی جے پی نے بڑی بے شرمی سے نہ صرف بجرنگ دل کی حمایت کی بلکہ اسے بجرنگ بلی کی جے بولنے والی تنظیم بتایا۔ تازہ سروے بتا رہے ہیں کہ جو بی جے پی بیک فوٹ پر تھی وہ مقابلہ میں آگئی۔ بہر حال کرناٹک اسمبلی کے لئے ووٹ ڈالے جا چکے ہیں۔ تین دن بعد معلوم یو جائے گا کہ عوام نے اپنے ایشوز کو فوقیت دی یا مذہبی جذبات میں بہہ کر ووٹ دیا۔ کرناٹک کے لوگوں کا فیصلہ طے کرے گا کہ ملک میں آئندہ سیاست کی دشاَ اور دِشا کیا ہوگی۔
Check Also
ہندوستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے ذہن سازی۔غیر اخلاقی تعلقات سے پاک و صاف ماحول کی ضرورت
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے انتخابات اور منظورہ قراردادیںآل انڈیا مسلم پرسنل لا …
ایران۔ افغان سرحدی تصادم یا آبی جنگوں کا آغاز؟
اسد مرزا(دہلی)”ایران اور افغانستان کے درمیان حالیہ سرحدی جھڑپیں مقامی اور عالمی سطح پر مستقبل …