Sunday , December 22 2024
enhindiurdu

ملک کا نام نہیں…..سوچ کوبدلنے کی ضرورت

محمدجمیل اختر جلیلی ندوی
تبدیلی ایک ضرورت ہے؛ اس لئے تبدیلی ہونی چاہئے، کیاآپ دیکھتے نہیں کہ بہت سارے ڈاکٹرس مختلف قسم کے امراض کے شکارلوگوں کومشورہ دیتے ہیں کہ آپ جگہ کوتبدیل کریں، آب وہوا بدلے گی توآپ ٹھیک ہوجائیں گے؛ لیکن یہ تبدیلی مثبت ہونی چاہئے، منفی نہیں؛ کیوں کہ مثبت تبدیلی انسان کوصحت مندبناتی ہے، جب کہ منفی تبدیلی اسے بیمار کردیتی ہے۔
ہمارے ملک میں گزشتہ کئی برسوں سے تبدیلیوں کاسلسلہ جاری ہے، ایسی ایسی تبدیلیاں کہ عقل حیران رہ جائے اور سوچنے پر مجبور ہوجائے کہ ان تبدیلیوں کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن جب حکمرانِ وقت اپنے آپ کوبھگوان کادرجہ دے دیں توپھروہ کسی کی نہیں سنتے، دنیا ادھر سے اُدھر ہوجائے، کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی، وہ ایسی تبدیلیاں لے کرآتے ہیں‘ جونہ ان کے لئے مفیدہوتی ہیں اورنہ ہی ملک کے لئے؛ لیکن ہٹ دھرمی اوراناکے خول میں اس قدرگھس جاتے ہیں کہ ان کو اس کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتاکہ ہم جوچاہیں، کریں، ہم کسی کی نہیں سنتے؛ لیکن ایسے حکمرانوں کویہ بات یادرکھنے کی ہے کہ دنیااوردنیاوالے سب کوایک دن فناہے، بقاکسی کونہیں ہے یہاں۔
اس دنیاکے اسٹیج پرکتنے فرعونِ مصرآئے، جنھوں نے اپنے آپ کو”سب سے بڑا رب“ کہا؛ لیکن وہ پانی کے زیروبم میں ڈوب گئے اوران کادعوی دھرا کادھرا رہ گیا، نماردہئ کامدان نمودارہوئے، جنھوں نے خدائی کادعویٰ کیا اور کہاکہ میں بھی لوگوں کومارتااورجلاتاہوں؛ لیکن جب موت کے آکٹوپس نے دبوچاتودَم مارنے کے قابل بھی نہیں رہے، قیصر وکسریٰ آئے؛ لیکن نام ونشان مٹ گیا، ابرہہ آیا، جس نے کعبہ کوڈھانے کے لئے مکہ پرچڑھائی کردی؛ لیکن خودکاجسم پورپورکٹ گیااورمٹی میں رَل مل گیا، خلاصہ یہ کہ جوبھی اس دنیا میں آیا ہے، خواہ اس کی سلطنت کتنی ہی وسیع کیوں نہ ہو؟ اس کی حکومت کاکتناہی دبدبہ کیوں نہ ہو؟اس کے حکم کے ایک اشارہ پرچلنے والوں کی تعداد کتنوں ہی کیوں نہ ہو؟ سب خاک میں مل گئے:
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے
ہاں توبات چل رہی تھی اپنے ملک کے اندر تبدیلی کی، کتنے سڑکوں کے نام بدل دیئے گئے، کتنے اسٹیشنوں کے نام تبدیل کردیئے گئے،کتنے حقوق اوررائٹس بدل دیئے گئے، کتنے قوانین بدل دیئے گئے؛ لیکن سوال یہ ہے کہ ان تبدیلیوں سے کیافائدہ ہوا؟ آب و ہوا بدلی؟ لوگ بدلے؟ لوگوں کے مزاج بدلے؟ لوگوں نے اس تبدیلی سے کتنی ترقی کی؟ سڑکوں کے نام بدلنے سے کیا ان سڑکوں پرہونے والی چوریاں رک گئیں؟ ان سڑکوں پرہونے والی چھینا جھپٹی کم ہوئی؟ ان سڑکوں پرہونے والی ایوٹیزنگ رک گئی؟ ان سڑکوں پربھیک مانگنے والوں کی کمی ہوگئی؟ ان سڑکوں پرہونے والی عصمت دریاں تھم گئیں؟ ان سڑکوں پرچلنے والے تہذیب وشرافت کے دائرہ میں آگئے؟ معمولی معمولی بات پر اٹھنے والے جھگڑے رک گئے؟ ان سڑکوں کے اردگرد رہنے والے تعلیم یافتہ اورانٹلکچول بن گئے؟کیالوگوں کی سوچ بدل گئی؟ ان کے دلوں میں نفرت کی بجائے محبت کاجذبہ پیداہوگیا؟ کیااس سڑک کے کنارہ گندے کپڑوں میں بچے کنچے کھیلتے نظرنہیں آرہے ہیں؟کیاوہاں پانی کے لئے اب لائن نہیں لگنی پڑتی؟ کیاوہاں کی بجلی غائب نہیں ہوتی؟ کیااس سڑک پرگڑھے پڑے ہوئے نہیں ہیں؟ کیااس سڑک کی نالیاں صاف ہوگئیں؟ کیااس سڑک کی نالیوں سے گندہ پانی ابل ابل کرنہیں نکل رہا اورہرراہ چلنے والے کامنھ نہیں چڑارہا؟ کیااس سڑک کوکبھی الکٹرک والے، کبھی کیبل والے اورکبھی ڈرینج والے کھود کھود کرخراب نہیں کررہے ہیں؟ اگریہ سب نہیں ہورہا ہے تو پھر تبدیلی مبارک اورکامیاب ہے؛ لیکن اگریہ سب ویسے کاویساہی ہے توپھرنام کے بدلنے کاکوئی فائدہ نہیں۔
اس وقت زوروشورسے یہ خبرگردش میں ہے کہ اب (INDIA) کانام تبدیل کرکے (BHARAT) رکھ دیاجائے گا، سوال ہے کیوں؟ اس کی ضرورت کیا ہے؟ کیوں کہ اس کے تودونوں نام پہلے سے ہی ہیں، بھارت کے آئین میں یہ بات درج ہے، دفعہ نمبر(۱) کے نمبر(۱) میں ہے:
India, that is Bharat, shall be a Union of States. (The Constitution of India, P.No:33)
اب بتایاجائے کہ جس کاپہلے سے ہی ”بھارت“ نام ہو، اب دوبارہ ”بھارت“ بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ توتحصیل حاصل اورلایعنی کام ہے، پھر یہ اتناآسان بھی نہیں ہے؛ کیوں کہ آزادی کے بعد؛ بل کہ پہلے سے ہی ہرہرچیز میں انڈیالکھاگیاہے، جب بھی انگریزی میں لکھا گیا، انڈیالکھا گیا، ہندی میں زیادہ تربھارت لکھا جاتارہا ہے، اردومیں ہند یاہندوستان لکھاجاتاہے، اگرہرجگہ سے ”انڈیا“ کوہٹانے کی کوشش کی گئی توہوسکتا ہے کہ یہ ملک پھرسے غلام بن جائے؛ کیوں کہ ۷۴۹۱ء میں جس ملک کوآزادی ملی تھی، وہ انڈیاتھا، کاغذات میں یہی لکھاگیاہے، لہٰذا بھارت کے غلام ہونے کادعوی کیاجاسکتا ہے۔
پھریہ بات بھی قابل غورہے کہ نام کی تبدیلی مفت میں نہیں ہوگی، www.urduduniya.inکے مطابق اس کے لئے ۴۱/ہزارکروڑکابوجھ ملک پرآئے گا، افریقی نژاد انیلکچول پراپرٹی قوانین کے ماہروکیل مسٹرڈارین اولیویئیونے بتایاکہ اگرانڈیاکانام بھارت کیاجاتاہے توایسی صورت میں ہندوستان پر۴۱/ہزار۴۰۳کروڑ کابوجھ عائد ہوگا، یہ اندازہ سوازی لینڈ کا نام تبدیل کرکے ایسواتنی کئے جانے پرہوئے خرچ سے لگایاگیاہے، جس پر ۰۶ملین ڈالرخرچ کرنے پڑے تھے، اگریہ اندازہ صحیح ہے اورقیاس یہی ہے کہ صحیح ہوگا؛ کیوں کہ ملک کے پاسپورٹ، سپریم کورٹ، سی بی آئی، الیکشن کمیشن آف انڈیا، آربی آئی وغیرہ کے علاوہ تمام قومی تعلیمی اداروں اوردیگرمقامات، جہاں لفظ”انڈیا“ کااستعمال ہوا ہے، ان سب کوتبدیل کرناہوگا، ہندوستان میں ۸۲/ ریاستیں،۸/مرکزی زیرانتظام علاقہ، ۶۶۷ اضلاع کے علاوہ ۶لاکھ ۰۴ہزارمواضعات ہیں،ہرجگہ اس نام کوبدلنا ہوگا، ایک خبرکے مطابق ”الٰہ باد“کو ”پریاگ راج“ کرنے پر۰۰۳کروڑ روپے خرچ کئے گئے۔
سوچئے اورسرپکڑکربیٹھ جایئے کہ ہم عوام پرمختلف قسم کے ئیکسیز عائدکرکے ہماراجینادوبھرکردیاگیاہے، مہنگائی نے ہرایک کی کمرتوڑکررکھ دی ہے اوریہ اقتدارپربیٹھے ہوئے لوگ بلاضرورت اوربلاوجہ کروڑہاکروڑروپے پانی میں بہادے رہے ہیں؛ لیکن افسوس! کوئی ان پربات کرنے والا نہیں، میڈیا، جس کاکام تھا عوام تک صحیح جان کاری پہنچانے کا، وہ دم ہلانے کے سواکوئی کام نہیں کررہا ہے۔
اس وقت ملک میں بے روزگاری بڑھی ہوئی ہے، اگران کروڑہاکروڑ رپیوں کواس کے مٹانے کے لئے خرچ کیاجاتا توملک سے بے روزگاری ختم ہوجاتی؛ لیکن ایسانہیں کرسکتے؛ کیوں کہ سیاسی روٹیاں جوسیکنی ہے، اب انڈیاکوبھارت بنانے کامقصد بھی یہی سیاست ہے، اپوزیشن نے اپنے اتحادکانام ”انڈیا“ قراردیاہے، جس کی وجہ سے حکمراں طبقہ میں کھلبلی مچی ہوئی ہے اوراسی کھلبلی میں یہ سب الٹی سیدھی حرکتیں کی جارہی ہیں۔
نام بدلنے سے کچھ نہیں ہوگا، انڈیامیں سالوں سے موب لنچنگ جاری ہے، تہواروں میں آگ لگانے کام کیاجارہا ہے، اقلیتوں کومستقل طورپرہراساں کیاجارہا ہے، مسلمانوں کوہرجگہ نشانہ بنایاجارہا ہے، ان کے پرسنل لاء پرمداخلت کی جارہی ہے اورسب سے بڑھ کریہ ہے کہ پورے ملک میں نفرت کازہربودیاگیاہے، مسلمان نام کوایک چڑ بنادیاگیاہے، اب اگرانڈیاکوبھارت کردیں گے توکیا یہ سب ختم ہوجائے گا؟ ملک کانام بدلنے سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ نفرتی سوچ کوبدلاجائے، ہندومسلم کے مابین جوزہربویاگیاہے، اس کوختم کیاجائے، اونچ نیچ کاجوفرق بنایاگیاہے، اس کومٹایاجائے، ان چیزوں میں تبدیلی پیداکریں، اس سے ملک کی ترقی ہوگی، ملک کانام بدلنے سے ملک میں ترقی نہیں آئے گی؛ بل کہ الٹا۴۱/ ہزارکروڑ کابوجھ عوام کے کندھوں پرآجائے گا؛ اس لئے سوچ کوبدلئے، سوچنے کے انداز کوبدلئے، ملک کے نام کونہیں۔

About Gawah News Desk

Check Also

Telangana Family Digital Cards Pilot Project Begins Today: All You Need to Know

The Telangana Government has launched a pilot project for issuing Family Digital Cards (FDC) to …

All India Muslim Personal Law Board President Maulana Khalid Saiffullah Rahmani, Telangana CM Revanth Reddy, Hyderabad MP Asaduddin Owaisi, Minority Affairs Advisor Mohammed Ali Shabbir and TMREIS President Faheem Qureshi at the launch of the book Prophet for the World in Hyderabad

CM Revanth Reddy Calls for Unity and Secularism at ‘Prophet for the World’ Book Launch

Hyderabad, September 14: Telangana Chief Minister A. Revanth Reddy stressed the need for unity and …

Leave a Reply