Monday , April 29 2024
enhindiurdu

من مانی اور مفاد پرستی کے نئے ریکارڈ

گذشتہ ہفتے جو واقعات وطنِ عزیز میں رونما ہوئے وہ مجموعی اعتبار سے ملک کے مفاد میں اہم رہے ہوں یا نہیں‘ مگر مرکز میں برسر اقتدار احباب کے لئے بالخصوص وزیر اعظم کے مفاد میں سودمند بنانے کی جتن بڑے اہتمام سے ہورہے ہیں۔ نام بدلنے کا جنون‘ گویا بھگوا کرن حکومت کی کھلی پالیسی بن کر رہ گئی ہے۔ گلیوں، بازاروں، راستوں اور شہروں اور ریاستوں کے ناموں کا ”ہندوکرن“ پچھلے آٹھ نوسال سے دلی اور دیگر بی جے پی والی ریاستوں میں چل رہا ہے۔ اب جبکہ ”بھارت جوڑو یاترا“ کامیاب گزر گئی‘ جس کا بڑا چرچہ رہا۔ کانگریس اس یاترا سے جاگ ا ٹھی۔ اور تمام اپوزیشن پارٹیوں کے سیاسی اتحاد ’انڈیا‘ کے نام سے وجود میں آیا۔ اس متحدہ اپوزیشن نے ”جڑے گا بھارت، جیتے گا انڈیا“ کا نعرہ دیا۔ بی جے پی کی حمایت والے NDA کیمپ میں بوکھلاہٹ بڑھنے لگی۔ اور اس طرح نام بدلنے کے ریکارڈ قائم کرنے والی بی جے پی نے ایک نیا پینترہ آزمانے کی ٹھان لی۔ ملک کا نام ہی بدلنے کا پانسہ پھینکا ”انڈیا“ کو ”بھارت“ بنانے کا پلان۔ ویسے بھارت ملک کا قدیم نام ہے۔ مسلمانوں کی ملک میں آمد کے ساتھ یہ ہندوستان کہلوایا جو آج بھی کہنے اور سننے میں بھلا معلوم ہوتا ہے۔ یوروپیوں اور انگریزوں نے اس کو انڈیا کا نام دیا۔ اب سرکاری طور پر بھارت اور انڈیا بیک وقت ملک کے لئے استعمال ہونے والے نام ہیں۔ اس سے کسی کو کوئی تکلیف رہی اور نہ کسی نوعیت کا اعتراض۔ مگر تکلیف تو بی جے پی کو ہورہی ہے کہ اب بکھرا اپوزیشن ایک ہوکر I.N.D.I.A بن گیا ہے۔ اب ایسی بازی کھیلنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ’انڈیا‘ والے ن ام کو ہی بے وقعت اور بے اثر کردیا جائے تو اپوزیشن بے کار ہوجائے گا۔
ظاہری طور پر ایسا نام بلدنے کا منصوبہ حماقت آمیز اور احمقانہ بھلا ہی لگتا ہے۔ مگر اس منصوبے میں آر ایس ایس کا بنیادی نظریہ کار فرما ہے۔ تبھی تو ’ایک ملک‘ ایک الیکشن‘ کی آواز بھی اب اُبھرنے لگی ہے۔
ملک کا نام بدلنے کے خیال سے بہتر تھا کہ ملک کا موجودہ نظام کو بدلنے کی تدابیر ہوتیں۔ مگر ملک کے موجودہ حالات اہل نظر کے لئے اور پھر پوری دنیا کے لئے ملک کے مفاد کے خلاف محسوس ہورہے ہوں تو بھلے ہوں۔ بی جے پی کے لئے ان کا کہنا اور کرنا سب کچھ ٹھیک ٹھاک اور ہر عیب سے پاک نظر آتا ہے۔ کیوں کہ ان (بی جے پی کو) قومی مفاد سے عزیز اپنا خفیہ ایجنڈا ہی اہم رہا ہے۔ جس کے حصول میں ہر بار ٹیڑھی لکیر سے وہ آگے بڑھنے کے نئے نئے طریقے اپناتے رہے ہیں۔ ایک طرفہ فیصلہ لینا اور اپنی من مانی کا مظاہرہ کرنا جمہوری ملک کے برخلاف ہے۔ ملک کے دستور کے اسپرٹ کے خلاف ہے۔ کثرت میں وحدت Unity in Diversity کے بنیادی نظریہ بقائے باہمی کے خلاف ہے۔ پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کے غرور میں غیر جمہوری رویہ اپناکر آمریت Dictatorial طرز کو عام کرنے کی مذموم کوشش محض بی جے پی کے لئے فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہیں۔ مگر کسی بھی طرح ملک میں بدلنے والے ہم وطنوں کے مفادات کے تحفظ کے حوالے سے تشویشناک ہیں۔ ایسا سب کچھ ہورہا ہے یا پھر ہونے کے درپے ہے ج ہاں دستور اور جمہوریت بے معنی رہ جاتے ہیں۔
اپنے ملک میں حکومت کی فوری عملی توجہ کو ترستے کئی مسائل ہیں۔ بڑھتی مہنگائی، بے روز گاری اور غریبی کی بڑھتی شرح، امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے فاصلے، قومی صنعتی اداروں کا تحفظ، نوجوانوں کے لئے فائدہ مند اسکیمیں، تعلیمی شعبہ میں سدھار، فرقہ پرستوں پر قانون کے شکنجے، روداری اور اُخوت کا فروغ، مذہبی منافرت کا خاتمہ، نفرت کی سیاست پر لگام، عدم تحفظ کا تدارک اور فہرست طویل ہوسکتی ہے‘ سراٹھائے مسائل کی۔ مگر سفارتکاری (ڈپلومیسی) اور عالمی سطح پر خیر سگالی (گڈول) کی امیج کو اُبھارنے مودی حکومت نے ابھی حال میں G20 کی میزبانی کے نام پر ملک کے کروڑوں باشندوں کی ٹیکس کی صورت میں ادا کردہ رقم کا بے جا استعمال کرکے ثابت کردیا ہے کہ ہزاروں مشکلیں ہوں مگر دنیا کے سامنے چمکتا دمکتا بھارت ہی دکھایا جائے گا۔ جہاں ملک میں بسنے والے حکومت کی غلط اور غیر منطقی پالیسیوں سے نالاں ہوں وہاں دیگر ممالک کے سامنے دکھاوا کسی بھی طرح عام شہری کے درد کا مداوا نہیں بن سکتا۔
اب تک جو حکومت کی کارکردگی جو پچھلے 9 برسوں سے رہی وہ ملک میں کسی بھی کامیابی کو اپنے نام کرنے کے پروپگنڈہ میں ملوث رہی ہے۔ اور اپنی ہر طرح کی کمزوریوں اور خامیوں کو سابقہ حکومت کی ناقص کارکردگی کے عنوان سے جوڑتی رہی ہے۔ یہ درحقیقت فسطائی نظریات کی کارفرمائی ہے جو بی جے پی کی آقا آر ایس ایس کی دین ہے۔ ایک یہی امید ہے کہ اپوزیشن متحد اور موثر ہونے کی دلیل دے اور حکومت کے ہر خودغرض اقدام پر مدلل سوال قائم کرے اور جوابدہ بنائے۔ ملک کے عوام باخبر بھی ہیں‘ مگر باخبر رہنے والوں کا تناسب کم ہی ہے۔ حالات سے بے خبری اور بے نیازی کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ مجموعی طور پر باخبر اور بے خبر دونوں طبقات کی خاموشی گویا ہر تبدیلی کو تسلیم کرنے کے مترادف ہوکر رہ جاتی ہے۔
رُلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستان مجھ کو
کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں

About Gawah News Desk

Check Also

Congress To Interact with Muslims and Christians Leaders On Socio-Economic Problems

Party to Release Minority Declaration after Dussehra Hyderabad, October 14: The Congress party will release …

دنیا بھر کے مسلمان جمعہ 13/اکتوبر کو ”یوم طوفان اقصیٰ“ کا اہتمام کریں گے۔ نماز …

Leave a Reply