الحمد للہ رب العالمین و الصلوٰۃ و السلام علیہ سید الانبیاء و المرسلین و علی آلہ و صحبہ اجمعین
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوْا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُالزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِوَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِO
وہ لوگ کہ اگر ہم ان کو زمین میں اختیار و اقتدار دیں تو نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ (سورہ حج)
زکوٰۃاسلام کا بنیادی رکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مقدس میں واضح انداز میں صاحبِ حیثیت لوگوں کواپنے مال کی زکوٰۃ دینے کا حکم فرمایا ہے۔حضرت سیدنا ابو ہریرہؓ و وسیدنا ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ”اس کی قسم جس کے قبضہئ قدرت میں میری جان ہے۔ تین بار اسے دہرایا اور سرجھکالیا۔ ہم نے بھی اپنے سر جھکالئے اور رونے لگے۔ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ کس چیز پر قسم کھائی۔ پھر آپ نے سر مبارک اٹھالیا اور چہرہئ اقدس میں خوشی نمایاں تھی، آپ ﷺ کی خوشی ہمارے لئے سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب تھی۔ آپ نے فرمایا۔ جو بندہ پنج وقتہ نمازیں پڑھتا ہے اور رمضان کے روزے رکھتا ہے اور زکوٰۃ دیتا ہے۔ اور ساتوں کبیرہ گناہوں سے بچتا ہے۔ اس کیلئے جنت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور اس سے کہا جائے کہ سلامتی کے ساتھ اس میں داخل ہوجا“۔ نسائی و ابن ماجہ و ابن خزیمہ و ابن حبان)
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے مال کی زکوٰۃ نکالو کہ وہ پاک کرنے والی ہے۔ تجھے پاک کردے گی، اور رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرو۔ اور مسکین اور پڑوسی اور سائل کا حق پہچانو‘۔(مسند امام احمد)
زکوٰۃ اسلامی معاشرہ کو فقر و افلاس، تنگدستی، بے کسی و بدحالی، ناداری و محرومی اور دست سوال پھیلانے سے پاک کرتی اور ان ناداروں و بے کسوں کے دلوں سے بغض و عناد، نفرت و حسد اور کینہ و کدورت سے دور کرکے اسے صاف کرتی ہے، انہیں طبقاتی کشمکش اور علاقائی تعصب سے نکال کر اخوتِ ایمانی کے پُر فضا مقام پر لاکھڑا کرتی ہے۔
ایک دیہاتی رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسا عمل بتادیجئے کہ جس پر عمل کرنے سے میں جنت میں داخل ہوجاؤں تو اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو، اس شخص نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہئ قدرت میں میری جان ہے میں اس میں نہ کمی کرونگا نہ زیادتی، جب وہ مڑکر جانے لگے تو اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: جسے اس بات سے خوشی ہوکہ وہ جنت کے کسی شخص کو دیکھے تو اسے اس شخص کو دیکھ لینا چاہیے(بخاری)
چونکہ زکوٰۃ سیدھے جنت کا راستہ ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اسے مسلمانوں پر ہی فرض فرمایا ہے اس کی ادائیگی کو مسلم ملک کے غیر مسلم لوگوں پر فرض نہیں کیا اور اگر کسی غیر مسلم نے زکوٰۃ دینا بھی چاہا تو رسول اللہ ﷺ نے یا خلفائے راشدین نے اسے قبول نہیں کیا۔
واضح رہے کہ اسلام میں زکوٰۃ کا نظام انسانی تاریخ کا پہلا و منفرد نظام ہے جس کا مقصد غریبوں، ناداروں اور بے کسوں کی سرپرستی کرنا، ان کے پورے سال کے معاش کا انتظام کرنا، معاشرہ کے اندر اس کے افراد کے درمیان سماجی انصاف کو یقینی بنانا اور مالدار و غریب طبقہ کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔زکوٰۃ سال میں ایک مرتبہ دینا فرض ہے چونکہ رمضان المبارک میں ہر اعمال صالحہ کا اجرو ثواب اللہ تعالیٰ بے انتہاء عطا فرماتے ہیں۔ صاحبِ حیثیت مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ خوش دلی سے اپنی زکوٰۃ ادا کریں اور ان ہی مصارف میں ادا کریں، صحابہ کرام اور سلف صالحین رمضان المبارک میں زکوٰۃ نکالنے کا اہتمام کیا کرتے تھے کیونکہ اس ماہ میں اجر و ثواب 700گنا تک زیادہ کردیا جاتا ہے۔
عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ یہ آیت کریمہ وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَ الْفِضَّۃَ (جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں) نازل ہوئی تو مسلمانوں کو یہ بات بڑی بھاری محسوس ہوئی۔ حضرت سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے کہا۔ میں تم سے یہ پریشانی دور کرتا ہوں۔ او رپھر بارگاہِ رسالت مآب ﷺ کی طرف چل پڑے۔ وہاں عرض کیا۔ یا رسول اللہ! آپ کے صحابہ کیلئے یہ گراں چیز ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ نے زکوٰۃ اسی لئے فرض کی ہیکہ تمہارے مالوں کو پاکیزہ بنادے۔ اور میراث اس لئے فرض کیا کہ تمہارے بعد والوں کیلئے ہو۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے یہ سن کر تکبیر کہی۔(ابو داؤد)
زکوٰۃ کی اہمیت حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے دورِ خلافت کے واقعہ سے مزید واضح ہوجاتی ہے
حضرت سیدنا ابوہریرہؓ نے بیان کیا رسول اللہ ﷺ کے وصال مبارک کے بعد ابو بکر صدیق ؓ جب خلیفہ بنائے گئے اس وقت (فرضیت ِ زکوٰۃ سے انکارکرکے) کچھ بددل کافر ہوگئے۔ ابوبکر صدیق ؓ نے ان کے خلاف جہاد کا حکم دیا۔حضرت سیدنا عمر فاروق ؓ نے کہاکہ آپ ان سے کیوں کرجہاد کرینگے جب کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مجھے حکم ہے کہ لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہہ دیں۔ جس نے لا الہ الا اللہ کہا اس نے اپنی جان اور مال بچالیا مگر حقِ اسلام کے تحت اور اس کا حساب اللہ کے ذمہئ کرم پر ہے۔
حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے کہا! واللہ میں اس سے جہاد کرونگا جس نے نماز و زکوٰۃ (کی فرضیت) کے درمیان فرق کیا ہے بیشک زکوٰۃ مال کا حق ہے واللہ اگر وہ رسول اللہ ﷺ کو بکری کا بچہ زکوٰۃ میں دیتے تھے اور مجھے نہیں دیں گے تو میں ان سے جہاد کرونگا۔
حضرت سیدنا عمر فاروق ؓ نے کہا واللہ! اس معاملہ میں میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر کو شرحِ صدر سے نوازا اور میں نے سمجھ لیا کہ حق وہی ہے(بخاری و مسلم)
زکوٰۃ کی فرضیت نماز کی فرضیت کی طرح واضح ہے لہٰذا زکوٰۃ کی ادائیگی میں صاحب نصاب لوگ کوتاہی نہ کریں۔نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے کب بلاوا آجائے اور پھر فرضیت زکوٰۃ کی ادائیگی سے قبل ہی موت واقع ہوجائے۔ قبل اسکے زکوٰۃ فرض ہوتے ہی ادا کردینی چاہیے۔ ان شاء اللہ زکوٰۃ کے بارے میں آئندہ مزید معلومات پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔
٭
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد مبارک کے مطابق دوسرے عشرہ میں اس دعا کا کثرت سے اہتمام کریں۔
اَسْتَغْفِرُوا اللّٰہَ رَبِّی مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَیْہِ
میں اللہ تعالیٰ سے تمام گناہوں کی بخشش مانتا ہوں گا جو میرا رب ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں