Sunday , December 22 2024
enhindiurdu

تلنگانہ میں 30/نومبر کو اسمبلی انتخابات

تلنگانہ میں 30/نومبر کو اسمبلی انتخابات کے اعلان نے سیاسی حلقوں میں ہلچل پیدا کردی ہے۔ یوں تو کسی بھی لمحہ الیکشن کے اعلان کی توقع کی جارہی تھی تاہم اتنی جلد ہونے کی امید نہیں تھی۔ ویسے کے سی آر کی بھارتیہ راشٹریہ سمیتی بی آر ا یس نہ صرف الیکشن کا سامنا کرنے کے لئے پوری طرح سے تیار ہے بلکہ تمام 119 اسمبلی حلقوں کے لئے امیدواروں کی فہرست بھی تیار بتائی جاتی ہے۔ جس رفتار سے بی آر ایس حکومت کی کارکردگی سے متعلق اخبارات میں ہر روز کروڑوں روپئے کے اشتہارات شائع کئے جارہے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ ہورہا تھا کہ بی آر ایس نے انتخابات کا بگل بجا دیا ہے۔
ادھر کانگریس میں بھی جوش و خروش دیکھنے لائق ہے۔البتہ امیدواروں کے اعلان کے سلسلہ میں کشمکش اور رسہ کشی جاری ہے۔گزشتہ دس برسوں میں پہلی مرتبہ کانگریس میں ایک نئی جان پیدا ہونے کے آثار دکھائی دے رہے ہیں اگر پارٹی اندرونی اختلافات پر قابو پالے اور قائدین ایک دوسرے کے ٹانگ کھینچنے کا سلسلہ ختم کردیں تو کانگریس حیرت انگیز ریزلٹ دے سکتی ہے۔ بعض حلقوں میں بی جے پی زبردست ٹکر دے سکتی ہے اور بی آر ایس کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
جس سے اس کے ارکان کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ مسٹرنریندر مودی اور امیت شاہ نے مسلسل تلنگانہ کو ٹارگیٹ بنایا ہے۔ الفاظ کی جنگ جاری ہے‘ الزام تراشیاں دونوں جانب سے ہورہی ہیں۔
مودی نے حال ہی میں تلنگانہ میں انتخابی جلسہ میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ کے سی آر اپنی پارٹی کو این ڈی اے میں شامل کرنا چا ہتے ہیں تاہم انہوں نے اسے قبول نہیں کیا۔ جس کے جواب میں کے ٹی آر نے کہا کہ کے سی آر فائٹر ہیں‘ وہ چیٹر کے ساتھ کام نہیں کرسکتے۔البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ کے سی آر نے کئی معاملات میں کئی متنازعہ بلس کی ایوان پارلیمنٹ میں منظوری کے لئے مودی حکومت کی حمایت کی ہے۔
30نومبر کے الیکشن میں مرکزی حکومت یا مسٹر مودی‘ امیت شاہ کی جوڑی بی آر ایس کو کس حد تک نقصان پہنچاسکتی ہے اور بی جے پی کو کیا فائدہ ہوسکتا ہے۔ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
تلنگانہ اسمبلی انتخابات کے لئے نوٹیفیکشن 3/نومبر کو جاری ہوگا۔ 10نومبر کو امیدواروں کی دستبردار ہونے کی آخری تاریخ ہے۔ 30نومبر کو پولنگ ہوگی اور 3دسمبر کو نتائج کا اعلان ہوگا۔
الیکشن کی تیاریوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ اگست میں ہی ڈائرکٹر پولیس انجنی کمار نے بتایا تھا کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کی ہدایت پر 700 پولیس عہدیداروں کے تبادلے کئے گئے۔
چھتیس گڑھ، مہاراشٹرا، کرناٹک اور اڑیسہ کے انٹراسٹیٹ بارڈرس پر 80-85 چیک پوائنٹس قائم کئے گئے ہیں۔ اس وقت تلنگانہ اسمبلی میں بی آر ایس کے 101،مجلس کے 7، کانگریس کے 5 اور بی جے پی کے 3ارکان ہیں۔
الیکشن کے اعلان سے بہت پہلے ہی سے ہر پارٹی میں داخلی بغاوت کا ماحول رہا اور کئی ارکان نے اپنی اپنی پارٹی سے وفاداری تبدیل کی ہے۔
بی آر ایس کومجلس کی حمایت حاصل رہے گی۔ تمام 7نشستوں پر مجلسی ارکان کی کامیابی یقینی لگتی ہے۔ البتہ بعض نئے امیدوار مجلس کی ٹکٹ پر مقابلہ کرسکتے ہیں۔ مجلس کے امیدواروں کا اعلان آخری دن ہوتا ہے۔ اس وقت تک عوام میں سسپنس کی کیفیت رہتی ہے۔ بی آر ایس نے تمام 119 نشستوں کے لئے امیدواروں کا اعلان ایک مہینہ پہلے ہی کردیا ہے۔ اگرچہ کہ بعد میں کے سی آر نے کہا تھا کہ امیدواروں کی فہرست میں تبدیلی ممکن ہے۔وہ خود گجویل اور کاماریڈی سے مقابلہ کررہے ہیں۔ امکان ہے کہ وہ گجویل سے مقابلہ نہ کریں اور صرف کاماریڈی سے ہی میدان میں اُترے۔ ان کے اس فیصلے پر اگرچہ کہ عوامی سطح پرپازیٹیو ریسپونس نہیں ہے تاہم گزشتہ دنوں کے سی ا ٓر نے کاماریڈی میں جلسہ خطاب کیا اور کاماریڈی کو ترقی یافتہ بنانے کا وعدہ کیا۔ حالانکہ مسلسل تین میعاد سے ٹی آر ایس کی امیدوار کاماریڈی سے متنخب ہورہا تھا جس کی ناقص کارکردگی سے کاماریڈی کے عوام ناراض تھے۔ اس مرتبہ محمد علی شبیر کی کامیابی یقینی دیکھائی دے رہی تھی اور کے سی آر کے میدان میں ا ُترنے کے باوجود محمدعلی شبیر کے جوش و خروش میں کوئی کمی نہیں آئی۔ وہ پوری شدت سے مقابلہ کی تیاری کررہے ہیں۔
اگر بی جے پی واقعی مقابلہ کرتی ہے تو محمدعلی شبیر کو کسی حد تک فائدہ ہوسکتاہے تاہم جب کسی حلقہ سے چیف منسٹر خود مقابلہ کرتے ہیں تواس کے حق میں بہت ساری باتیں ہوجاتی ہیں۔ دیکھنا ہے کہ کاریڈی کے الیکشن میں پولنگ بوتھس پر کیا صورتحال ہوتی ہے۔ سرکاری مشنری اور پولیس کا رول جانبدار ہوتا ہے یا غیر جانبدار۔ اس پر پوری ملک کے نگاہ مرکوز ہے۔

About Gawah News Desk

Check Also

انڈیا بنام بھارت کہیں نوٹ واپسی پر آخری مہر تو نہیں

ائین ہند کے ارٹیکل ایک میں تحریر یہ عبارتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ …

Leave a Reply