Saturday , September 21 2024
enhindiurdu

انصاف رسانی اور طنزیہ ومزاحیہ نثر کے شہ سوار مرزا فرحت اللہ بیگ

از: پروفیسر مجیدبیدار
سابق صدرشعبہ اردوجامعہ عثمانیہ‘ حیدرآباد

دہلی کی سرزمین سے تعلیم وتدریس کے حصول کے بعدحیدرآبادمیں سکونت اختیار کرنے والے مرزا فرحت اللہ بیگ کوغیر افسانوی نثر کی کئی اصناف کی خدمات انجام دینے کا موقف حاصل ہوگیا۔ دہلی کے پروردہ اور تربیت یافتہ‘حیدرآباد منتقل ہوکر محکمہ تعلیمات میں مدرس کی حیثیت سے خدمات کامظاہرہ کیا۔ اس پیشہ سے وابستگی کے بعد عمدہ صلاحیت اورقابلیت کے ساتھ محنت کے بل بوتے پرہائیکورٹ کے مترجم مقرر ہوئے‘ بعد میں اسپیشل مجسٹریٹ کے علاوہ سیشن جج کے عہدے پر فائز ہوئے۔ آخر میں حیدرآباد کی حکومت نے انہیں انسپکٹرجنرل آف پولیس کے عہدے پر فائزکیا‘ یہ عہدہ ہائیکورٹ کے جج کے عہدے کے برابرہوتا تھا۔ غرض ادبی خدمات کے ذریعے انہوں نے انصاف پروری کے تقاضوں کے علاوہ اردو نثرمیں طنزومزاح کی روایتوں کو شگفتہ مزاجی سے وابستہ کرکے منفردمقام حاصل کیا۔ آج بھی ان کے مضامین کے مجموعے متعدد بارشائع ہوتے رہتے ہیں‘ ان مضامین کے ذریعہ طنزکے نشترکی بے ساختگی اور مزاح کے شگوفوں کے پھوٹنے کا اندازبھی نمایاں ہوتا ہے۔ بلاشبہ مرزافرحت اللہ بیگ کواردو ادب کی نثری خدمات میں اہم طنزومزاح کے مضمون نگار کی حیثیت سے شہرت حاصل ہے۔ انہوں نے عدالت کی سنجیدہ روش کواختیارکرتے ہوئے اپنی تحریری صلاحیتوں کوسنجیدگی کے ساتھ ساتھ طنزوظرافت سے مربوط کرکے مزاحیہ نثر کاوقار قائم کیا‘ خدا کی جانب سے اپنی ذات میں موجودصلاحیتوں کے برمحل استعمال کے ذریعے نثری شگفتگی میں اضافہ کیا اور اردوکے نامورطنزومزاح نگار کی حیثیت سے نثر کے روح رواں قرار پائے۔ انہیں اردوکے مایہ ناز طنزومزاح نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کے مضامین کے مجموعہ سات جلدوں میں ”مضامین فرحت“ کے نام سے شائع ہوتے رہے ہیں۔ حیدرآباد میں مرزافرحت اللہ بیگ فاونڈیشن کے قیام کی وجہ سے ان کی ہرقسم کی تحریروں کومنظرعام پرلانے کابیڑا اٹھایا گیا ہے۔ جس سے ان کی ہمہ جہت شخصیت اوراس میں شامل بے شمارخصوصیات کااندازہ ہوتا ہے۔

مرزافرحت اللہ بیگ کے خاندان کے بارے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کے آباء واجداد نے دہلی کے مغلیہ حکمران شاہ عالم ثانی کے دوراقتدار میں ترکستان سے ہندوستان کارخ کیا‘ جب ان کے اجداد دہلی پہنچے تو ترکستان کی تہذیب و ثقافت کے ساتھ زندہ رہے‘ لیکن دہلی کی تہذیب اورزبان کواس طرح اختیارکرلیا کہ وہ دہلوی تہذیب کے مثالی نمونے کی حیثیت سے یادگارقرار پائے۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کی تاریخ پیدائش 1883ء درج ہے۔ وہ دہلی میں پیدا ہوئے اوردہلی سے ہی تحتانیہ‘وسطانیہ اور فوقانیہ مدرسہ کی تعلیم مکمل کی۔ 1901ء میں ماسٹرپیارے لال کے قائم کردہ ہندوکالج میں داخل ہوئے۔ 1903ء میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان کامیاب کیا‘جس کے بعدسینٹ اسٹیفنزکالج میں داخلہ لیا۔ 1905ء میں بی اے کا امتحان کامیاب کیا اور 1907ء میں دہلی سے حیدرآباد منتقل ہوئے‘جہاں ان کے عزیزواقارب اعلیٰ عہدوں پرفائزتھے۔

اس کے باوجود مرزافرحت اللہ بیگ نے کسی کی سفارش پر توجہ نہیں دی بلکہ ابتدائی طورپرمحکمہ تعلیمات میں مدرس کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اورپھر حیدرآباد کے ہائیکورٹ میں بحیثیت مترجم خدمات کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان کی عمدہ صلاحیتوں اورقابلیتوں سے متاثرہوکرحیدرآبادکی آصف جاہی حکومت نے انہیں پہلے صیغہ دارمرافعہ اورپھرصیغہ دارانتظامی مقررکیا‘جس کے بعد انہیں نائب معتمدعدالت کے عہدے پرفائز کیاگیا۔ بلاشبہ ان کے لیے یہ پہلا گزیٹیڈعہدہ تھا۔صلاحیتوں میں بے شمار اضافہ کی وجہ سے حیدرآبادکی حکومت نے انہیں اسپیشل مجسٹریٹ کے عہدے پرفائز کیااور پھرہائیکورٹ کے معتمد اور جوڈیشیل سکریٹریٹ کے مددگار مقررکیے گئے۔ ان کی صلاحیتوں کی وجہ سے حیدرآباد کی حکومت نے انہیں دواہم کمیشنوں میں معتمد کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کاموقع فراہم کیا‘ جس میں کامیابی حاصل کرنے کے بعدپہلے سیشن جج اورپھرانسپکٹرجنرل آف کورٹس کے عہدے پرفائز ہوئے اوراسی عہدے پروظیفہ حسن خدمت پرسبکدوش ہوگئے۔ ناندیڑ کے گردوارہ اور عیدگاہ کے نزاعی مسئلہ کا منصفانہ فیصلہ کرکے شہرت حاصل کی۔ جس کے ریکارڈ کو مشہور اردو کے سکھ شاعر نانک سنگھ نشتر نے کتابی شکل میں بہ عنوان ”بابری مسجد واقعہ بمقابلہ گردوارہ‘ مال ٹیکری‘ناندیڑشائع کیا ہے۔ ایام جوانی میں ہی علم کی تحصیل اورکھلنڈراپن ان کی فطرت کا حصہ تھا۔ وہ نہ صرف اچھے تیراک اورکرکٹ کے کھلاڑی تھے‘بلکہ منجھے ہوئے اداکاراورماہرگپ بازبھی قرار دئیے جاتے تھے۔ انہوں نے شاعری بھی کی‘ لیکن ان کی شاعری محض اساتذہ کی ہجوگوئی کی حد تک محدود رہی۔ ان کی ادبی خدمات‘ باقاعدہ مضمون نگاری اورطنزومزاح کی نمائندگی کی وجہ سے شہرت کی حامل قرار دی گئی۔ اردو کے ایک مزاح نگاراورانشاء پردازہی نہیں بلکہ دہلی کی تہذیب کوزندہ رکھنے کے لیے ان کے کارنامے ہمیشہ کی یادگار کا درجہ رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ اردو کے مایہ نازطنزومزاح نگارادیبوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

مرزافرحت اللہ بیگ کوخدا نے نثر لکھنے کی صلاحیت سے مالا مال کیاتھا۔ اپنے قلم کے جوہرانہوں نے نثرکی کئی اصناف میں استعمال کیے۔ تاہم ہرصنف نثر میں مزاح کا رنگ کھل کرسامنے آجاتا ہے۔ انہوں نے سوانح عمری لکھی‘ تمثیل یعنی ڈرامے پیش کیے اورایسے کارنامے انجام دئیے کہ جن کی وجہ سے اردو تہذیب کوزندہ رکھنے والے ادیب کی حیثیت سے شہرت کے حامل قرار دئیے گئے۔ مرزافرحت اللہ بیگ نے جن اشخاص کے خاکے لکھے ان میں انعام اللہ خاں یقین‘ آغاجان عیش‘ خواجہ عمان‘خواجہ احسان‘نظیراکبرآبادی اور لالہ سری رام کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔ ان شخصیات پرمضامین لکھ کرمرزافرحت اللہ بیگ نے تحقیق کی ضرورت کوبھرپورنمائندگی دی۔ اردومیں خاکہ نگاری کی بنیادرکھنے والے نثری ادیب کی حیثیت سے مرزافرحت اللہ بیگ کی لکھی ہوئی کتاب ”ڈپٹی نذیراحمدکی کہانی‘ کچھ ان کی کچھ میری زبانی“ کے ذریعے مزاح نگاری اورانشاء پردازی کے جوہر نمایاں ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنے استادمحترم کی شان و عظمت برقراررکھنے اوران کی شخصیت میں موجودبے اعتدالی کونمائندگی دینے میں پوری طرح کامیابی حاصل کی ہے۔ اسی طرح انہوں نے اردونثرمیں طنز ومزاح کے ذریعے بیش بہااضافے کیے‘ جن میں ان کالکھا ہوااہم انشائیہ”پھول والوں کی سیر“ اور”دہلی کا آخری مشاعرہ“اس لیے اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے کہ ان تحریروں کے ذریعہ مرزافرحت اللہ بیگ نے دہلی کی تہذیب اوروہاں کی طرزمعاشرت کوہمیشہ کے لیے زندہ و جاوید بنانے کاکارنامہ انجام دیا ہے۔ بلاشبہ انہوں نے اسپیشل مجسٹریٹ بننے کے بعد باضابطہ مضمون نگاری کی طرف توجہ دی۔ ابتداء میں قلمی نام”الم نشرح“ اورپھر”آکا“کے نام سے لکھنا شروع کیا۔ غرض شاعری کا ذوق بدرجہ اتم موجود تھا‘ نثرکی سنجیدہ روایات کے ساتھ ساتھ طنزوظرافت کی صالح روایت جاری رکھتے ہوئے مرزا فرحت اللہ بیگ کی خدمات طنزیہ اور مزاحیہ ادب کا کارنامہ قرار پاتا ہے۔ مشہورتمثیلی مشاعرہ ”دلی کا آخری مشاعرہ“ کے ذریعہ انہوں نے خواجہ میردرد‘حکیم آغاجان عیش‘ سعادت یار خان رنگین‘ خواجہ بدرالدین خان امان‘مومن خاں مومن اورمرزاغالب جیسی نابغہ روزگارہستیوں کی نمائندگی کے ذریعے اردوکی ادبی دنیا میں تمثیلی مشاعرے کی بنیادکو استحکام بخشتا ہے‘ بلاشبہ ان کی جدت طبع کی اہم خصوصیت کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔

مرزافرحت اللہ بیگ کودہلی کی نامورہستی ڈپٹی نذیراحمدسے شاگردی کاشرف حاصل رہا۔ چنانچہ انہوں نے نذیراحمدکی زندگی پرشگفتہ انداز سے خاکہ لکھ کر ثابت کردیا کہ اردو میں خاکہ نگاری (Sketch Writing) اور مرقع نگاری(Portriet) فطری وصف کونمائندگی دی جائے تو اس صنف کا نکھار واضح ہوتا ہے۔سنجیدگی کے ذریعہ مزاح پیدا کرنااورطنزکے ذریعہ انسان کوذمہ داری کا احساس دلانامرزافرحت اللہ بیگ کی نثرکی امتیازی خصوصیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کےمضامین کو صرف ہنسنے ہنسانے کاوسیلہ سمجھ کرنظر انداز نہیں کیا جاسکتا‘ بلکہ باضابطہ سنجیدگی کوبرقرار رکھتے ہوئے ترغیب اور عمل کی نمائندگی کے اوصاف نمایاں ہوتے ہیں۔ مرزافرحت اللہ بیگ کی وفات کی تاریخ 27اپریل1947ء کی تاریخ درج ہے۔ وہ اپنے تحریری ورثے کے ذریعے واقعات کی نمائندگی کے ساتھ غیرمعمولی حالات کے بجائے روزمرہ کے معمولی واقعات سے ہنسنے ہنسانے کاموقع فراہم کرتے ہیں۔ مرزافرحت اللہ بیگ کے مضامین کی 7جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔ ان کی نظموں کا مجموعہ ”میری شاعری“ عنوان سے منظرعام پرآچکا ہے۔ مرزافرحت اللہ بیگ نے اپنی نثرمیں محاورات اورروزمرہ کاایسافطری استدلال پیش کیا ہے کہ جس کے ذریعے دہلی کی زبان کاچٹخارہ نمایاں ہوتا ہے۔

وہ اپنے استادمحترم ڈپٹی نذیراحمدکی طرح دہلوی محاورات کے ساتھ تحریرکوپرلطف اورپرمزاح بنانے میں بڑا کمال رکھتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں کے ذریعے محظوظ ہونے کے ساتھ ہی دہلی کی تہذیبی جھلک دیکھنے کا موقع بھی حاصل ہوجاتا ہے۔ قلمی خاکہ نگاری اورمرقع نگاری کے ذریعہ انہوں نے ہمیشہ بے ساختہ انداز اختیارکیا اور ادب کوطنزومزاح کی وادیوں سے آشنا کیا۔ ”مضامین فرحت“ میں بعض مضامین سپاٹ اوربے کیف نظر آتے ہیں‘لیکن ان میں موجود طنزکی چنگاری اورمزاح کی شگفتگی سے خودیہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی تحریروں سے شگفتہ ماحول تیار کرنے اورلوگوں کوہنسانے کے ساتھ غوروفکر کرنے پرمائل نظرآتے ہیں۔ ان کے مضامین میں مزاح کی ہلکی ہلکی موجیں اٹھتی ہیں اورقاری کوپڑھنے پرمجبورکردیتی ہیں۔ ان کے بہترین مضامین میں ”دامِ خیال“ ”میری بیوی“‘ ”کل کاگھوڑا“‘ ”مہینے کی پہلی تاریخ“ ”عشق کی گولیاں“ ”پٹنا“”کمسنی کی شادی“ ”یارباز“”فرماں برداربیٹا“اور”مردہ بدست زندہ“کے مطالعے سے خوداندازہ ہوتا ہے کہ ”زندہ دلی اورانبساط ان کے مضامین کی خصوصیت ہے۔ غرض مرزافرحت اللہ بیگ نے دہلی خاص زبان جسے ناصرنذیرفراخ دہلوی‘راشد الخیری اورآغاحیدرحسن ہی نہیں‘ بلکہ خواجہ حسن نظامی جیسے اہم ادیبوں نے امتیاز کے ساتھ پیش کیاتھا اسی کے اظہارکی طرف توجہ دی۔ بہرحال مرزافرحت اللہ بیگ کے مضامین میں تہذیبی‘ادبی اورمجلسی زندگی کی موثرعکاسی موجود ہے۔ جس کے دوران وہ نہ صرف تیزی اورطراری بلکہ بے باکی اورتلخی کوبھی حددرجہ ہلکے پھلکے اورلطیف ونرم مزاح کے اندازمیں پیش کردیتے ہیں۔ غرض ان کی نثرکی امتیازی خصوصیت سے یہی ظاہرہوتا ہے کہ انہوں نے دہلوی اندازکوپیش کرکے اس دورکی تہذیب کی بھرپورنمائندگی کا حق ادا کیا ہے۔ ان کی تحریر کے بارے میں مختلف اکابرین کے خیالات ملاحظہ ہوں۔
”فرحت اللہ بیگ طرزتحریر اور واقعات دونوں سے لطف ومزاح پیدا کرتے ہیں‘ کہیں مزاح ان کے طرز تحریر اورپیرایہ بیان میں مضمر ہوتا ہے اورکہیں وہ واقعہ کی ایسی تصویر کھینچ دیتے ہیں‘ جو پرلطف بھی ہوتی ہے اورانبساط پرور تبسم ریزبھی۔ عظمت اللہ خاں نے فرحت اللہ بیگ کے اسلوب کو”خوش مذاقی کا اسلوب“ سے تعبیر کیاتھا۔

وزیرآغاکاخیال ہے کہ فرحت اللہ بیگ نے واقعات یاموازنہ سے قہقہوں کو تحریک دینے کی کوشش نہیں کی‘ بلکہ الفاظ اورجملوں میں شگفتگی اورمزاحیہ تاثر پیدا کیا ہے۔ فرحت اللہ بیگ نے اپنے بعض مضامین میں کرداروں اورواقعات سے بھی مضحک اثرتخلیق کیا ہے۔ ”نذیراحمدکی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی“ ”صاحب بہادر“ پرانی اورنئی تہذیب کا تصادم ”غلام“ ”مردہ بدست زندہ“ ”ایک وصیت کی تکمیل“ ”دہلی کی آخری شمع“ اور”پھول والوں کی سیر‘ میں فطری رنگ اوربے ساختگی نمایاں ہے اورکہیں کہیں مزاح غائب اور سنجیدگی غالب نظرآتی ہے۔ اس دورمیں قدیم وجدید رجحانات کے تصادم اورآویزش سے عجیب تضادات اور خندہ آور واقعات ظہورپذیر ہورہے تھے۔ قدیم تہذیب کا اثر پوری طرح زائل نہیں ہواتھااور جدید رجحانات کا اثر ونفوذ روزمرہ زندگی میں بڑھتاجارہاتھا۔ کچھ انتہا پسندی کاشکارتھے۔ قدیم پرمرمٹنا چاہتے تھے اورکچھ جدید کے ہوکر ہنا پسندکرتے تھے۔فرحت اللہ بیگ قدیم وجدید کی اس آویزش اورتصادم کو محسوس کرتے ہیں لیکن وہ توازن اور اعتدال کونظر انداز نہیں کرتے۔ اپنی تحریروں میں فرحت اللہ بیگ دہلی کی تہذیب کی جھلک دکھانا چاہتے ہیں اوراس کے نقوش کواجاگر کرکے محفوظ کروانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے دلی کی ٹکسالی زبان کی جھلک پیش کی لیکن نذیر احمد کے ترجمہ قرآن مجید کے برخلاف حفظ مراتب کاپاس ولحاظ رکھا ہے۔ فرحت اللہ بیگ کی تحریروں میں کہیں بدمذاقی‘ پھکڑپن اورمسخرگی یا ابتذال کے عناصراپنا پرتونہیں دکھاتے۔“
(تاریخ ادب اردو۔ (جلد سوم)از پروفیسرسیدہ جعفر‘ ہاشم نگرلنگرحوض حیدرآباد‘2002۔ صفحہ 333)
اردوکے نثری ادب کے ذریعہ اردو داں طبقہ کوہنسانے اورغوروفکرکرنے کی دعوت دینے والاایسا شگفتہ نثرکا ادیب اردو داں طبقہ کورلاتا ہوا ایسے وقت گزرگیا‘جبکہ ہندوستان کی سرزمین میں آزادی کاسورج طلوع نہیں ہواتھا‘غرض غلامی کے دورمیں ہندوستانیوں کی زحمتوں کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھاتے ہوئے مرزافرحت اللہ بیگ نے اپنی نثرکے ذریعہ اردو داں طبقہ میں نہ صرف بیداری کاصور پھونکا‘ بلکہ شگفتہ مزاجی کا ماحول پیدا کیا‘چنانچہ مرزا فرحت اللہ بیگ کااس دنیا سے گزرجانا بلاشبہ اردو داں طبقہ کیلئے بہت بڑے خسارے کا پیش خیمہ قرار دیا جاتا ہے۔

About Gawah News Desk

Check Also

Safdariya Girls High School Celebrates 90th Anniversary

Hyderabad, September 03: Safdariya Girls High School, a landmark institution in Humayun Nagar, marked a …

Urdu Gulban Mushaira Back in Jeddah After Six Years

Urdu Gulban authorities in Jeddah won over the community by organizing Mushaira after 6 years …

Leave a Reply