ماہِ مقدس رمضان المبارک سے متعلق موضوع پر کچھ لکھنے کا ارادہ تھا، مگر علماء کرام، اکابرین عظام اپنی تحریروں، تقریروں اور یوٹیوب کلپس کے ذریعہ ہر موضوع پر ہم سب کو فیضیاب کررہے ہیں، اس کے علاوہ ہم نہ تو کوئی عالم دین ہیں اور نہ ہی دینی یا مذہبی امور پر اسقدر عبور ہے کہ آپ کو نصیحت کرسکیں۔ البتہ ایک موضوع کوئی پندرہ دن سے احساس اور ضمیر کو کچوکے لگارہا ہے، ہوسکتا ہیکہ آپ اس سے متفق ہوں، اور نہ بھی ہوں تو ایک لمحہ کے لئے اس پر غور تو کرسکیں گے۔
گذشتہ ایک ماہ کے دوران دو مختلف اسکولس کے سالانہ جلسوں میں شرکت کا موقع ملا۔ دونوں ہی مسلم انتظامیہ کے تحت چلائے جاتے ہیں، اور ماشاء اللہ ان اسکولس میں عصری تعلیم معیاری ہے، وہیں اردو بھی پڑھائی جاتی ہے اور دینیات کا پیریڈ بھی ہوتا ہے۔ ایک اسکول میں میرا پوتا بھی کے جی میں پڑھتا ہے، کوئی ایک مہینہ سے اسے روزانہ سالانہ فنکشن میں پیش کئے جانے والے پروگرام کی پریکٹس کروائی جارہی تھی۔ بہرحال دونوں اسکولس کے فنکشن میں یکسانیت تھی۔ نرسری کے جی سے لے کر میٹرک تک لڑکے لڑکیوں نے کلچرل پروگرامس کے نام پر فلمی گیتوں پر ڈانس کئے۔ ہم جیسے نانا دادا قسم کے بزرگ اپنی نسل کو کولہے مٹکانے، تھرکتے،، ناچتے، گانے دیکھ کر اس قدر مسحور تھے کے کیا کہنے۔ رہی بات والدین کی تو یہ گویا ان کی زندگی کا سب سے یادگار لمحہ تھا، مہینوں کی پریکٹس کرکے بچوں نے شاہ رخ خان، سلمان خان، ہرتیک روشن، دیپکاپڈوکونے کو پیچھے چھوڑ دیا۔ مائیں اپنے اپنے موبائل پر اپنے بچوں کے یادگار لمحات کو ریکارڈ کررہی تھیں، اور بیشتر باپ حضرات بھی تقلید کررہے تھے ورنہ انہیں سوسائٹی میں بیک ورڈ سمجھا جاتا۔ یہ مسلم انتظامیہ کے تحت قائم کئے گئے اسکولس جو والدین بالخصوص این آر آئیز کو یہ دھوکہ دے کر ان کے بچوں کا داخلہ کرواتے ہیں کہ ان کے بچوں کو عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم دی جاتی ہے۔ این آر آئیز اور کھاتے پیتے گھرانے کے مسلم والدین جو کسی وجہ سے چاہتے ہوئے بھی مذہبی شعائر کے پابند نہ ہوسکے جس کے احساس نے انہیں مجبور کیاکہ کم از کم اپنی نئی نسل کو تو دین سے واقف کرواسکیں، مسلم مینجمنٹ اسکولس میں کم از کم ایمان تو سلامت رہے گا۔ ہوسکتا ہے کہ بعض مسلم مینجمنٹ اسکولس کے قول اور فعل میں یکسانیت ہو مگر زیادہ تر اسکولس میں تضاد ہے۔
خلیج میں روزگار کے مواقع ملنے کے بعد جب پیسہ آنے لگا تو یہ احساس بھی پیدا ہوا کہ کرسچین مشنری اسکولس میں بچے پڑھ کر قابل تو بن سکتے ہیں مگر دین کے معاملہ میں جاہل ہی رہیں گے۔ کیونکہ گھر میں مولوی صاحب یا اس کی ماں باپ پڑھاتے ہیں کہ اللہ واحد لا شریک ہے، نہ وہ کسی بیٹا ہے نہ کسی کا باپ۔ اور مشنری اسکول میں ہر روز اسمبلی میں ذہن نشین کروایا جاتا ہیکہ (نعوذ باللہ) عیسیٰ مسیح خدا کے بیٹے ہیں، مسلم مینجمنٹ اسکولس میں داخلہ دلانے کا مقصد یہی ہوتا ہیکہ تعلیم اور تربیت۔ تربیت سے مراد صرف ہائے، ہیلو، ہاؤ ڈو یو ڈو۰۰ تھینکس، سوری نہیں بلکہ اس تربیت سے ہماری اسلامی تہذیب کی عکاسی ہوسکے۔ بعض اسکولس نے اس سلسلہ میں کافی محنت بھی کی اور اچھے نتائج بھی پیش کئے مگر کروڑوں روپیے میڈیا یا پبلسٹی پر خرچ کرکے جو ادارے قائم کیے جارہے ہیں، ان اسکولس کے سالانہ فنکشن، ان کی عملی تربیت کی عکاسی کرتے ہیں۔سالانہ فنکشن پر اسکول لاکھوں روپئے خرچ کرتا ہے۔ حرام طریقے سے کماتے ہیں‘ حرام طریقہ سے خرچ کرتے ہیں۔
معصوم بچوں کو جس عمر میں اچھی باتیں سکھائی جاناچاہیں، اس عمر میں انہیں ناچ گانے کی تربیت دے کر کیا ایک نسل کو تباہ کرنا نہیں ہے۔ ایک ماہ پریکٹس یا ریہر سل کروایا جاتا ہے، اگر اتنی ہی محنت ان بچوں کو مارشل آرٹس سکھانے، تہذیب کے رموز و نکات سمجھانے، اسلامی کوئیز، اور سیرت سے واقف کروانے پر کی جاتی تو آنے والی کئی نسلوں کو سدھارا جاسکتا ہے۔ کم سن لڑکیوں کو باقاعدہ ڈانس ماسٹر سے ڈانس سکھایا جارہا ہے، تاکہ یہ لڑکیاں بڑی ہوکر اچھی ڈانسر بن سکیں، ویسے بھی آج کل شادی بیاہ اور مختلف تقاریب میں فیملی ممبرس کے ساتھ یا ان کے سامنے ڈانس کرنے کی روایت شروع ہوچکی ہے، اس کیلئے باقاعدہ لڑکیاں ٹریننگ حاصل کررہی ہیں۔ یہ ناچنے والی لڑکیاں، ماں بنیں گی تو اپنے بچوں کی کیا خاک تربیت کریں گی۔ ان لڑکیوں کو ڈانس سکھانے کی بجائے انہیں ہنر مند بنایا جاتا۔ پکوان، سلائی، کشیدکاری، کڑھائی، بڑوں کی خدمت کے آداب سکھائے جاتے اور یہ سالانہ فنکشن میں پیش کئے جاتے تو یقینا سب کو دلی مسرت ہوتی۔
اسکول مینجمنٹ تو آپ کی نسل کو برباد کرنے کی بھی فیس لیتے ہیں، کیونکہ جس پروگرام میں آپ کے بچے شریک ہوتے ہیں اس کے کاسٹیوم کے پیسے بھی لئے جاتے ہیں، آپ مسرور اور مطمئن کہ بچہ کچھ تو activeہے۔ ہماری یہ خوش فہمی ہماری نئی نسل کی تباہی اور بربادی کی ضامن ہے۔ جس عمر میں بچے کو اخلاقیات کا درس سکھایا جانا چاہیے، انٹرٹنمنٹ کے نام پر اس سے مخرب الاخلاق حرکات کروائے جارہے ہیں۔ افسوس ہے اپنے مسلم انتظامیہ کے تحت قائم تعلیمی اداروں پر اور بے حس، بے غیرت والدین پر۔
ہم آج جس دور میں جی رہے ہیں، وہ سائنس اینڈ ٹکنالوجی کی ترقی کی انتہاء اور آرٹی فیشیل انٹلی جنس کے استعمال کا دور ہے، جس میں انسان نے خود کو تخلیق کار سمجھ لیا ہے۔ یہ دور دین سے دوری کا دور ہے۔ ہمارے بچے مرتد ہورہے ہیں اور اس کے ذمہ دار والدین اور اسکولس ہیں جو سمجھانا چاہتے ہیں وہ مجرم ہیں۔ مذہبی اور شریف انسانوں کو بیک ورڈ سمجھا جاتا ہے۔ہر روز ہم واویلا کرتے ہیں کہ ہماری لڑکیاں غیروں کے ساتھ پڑھ رہی ہیں اور ان کے رسم و رواج کے مطابق شادی بیاہ کررہی ہیں تو اس کے ذمہ دار کون ہے؟ ہم ہی تو ہیں جو سماج میں اپنے اسٹیٹس یا اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے نام پر ا نہیں ہر قسم کی آزادی دے رکھی ہے۔ جس عمر میں ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے‘ اُسی عمر میں ہم ان سے متعلق لاپرواہی اختیار کرتے ہیں۔ اور اس کا خمیازہ بھگتے ہیں۔ غیر اقوام جو مسلم دشمنی میں سب سے آگے ہیں ان کا تو ایک مشن ہے کہ کس طرح سے زیادہ سے زیادہ مسلم لڑکیوں کو مرتد کرکے اپنے دھارے میں شامل کرلیا جائے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ اعلیٰ عہدوں پر فائز لڑکوں کو اپنی خوبصورت لڑکیوں کے جال میں پھنسا کر انہیں اپنی جانب راغب کرلیا جائے۔ ہم تو خوش ہوجاتا ہیں کہ ہماری قوم کے نوجوان سیول سرویسس کے لئے منتخب ہوتا ہے اور امید کرتے ہیں کہ وہ قوم و ملت کی خدمت کرے گا مگر غیر اقوام پہلے ہی سے اسے اپنے جال میں پھانس لینے کے منصوبہ بندی کرلیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بیشتر آئی اے ایس، آئی پی ایس عہدیدار صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں۔ یاتو انہوں نے بین مذاہب شادیاں کرکے خود کو اپنی قوم سے لاتعلق کرلیاہے یاپھر اپنی قوم میں رہتے ہوئے بھی وہ نہ تو لیپنے کے ہیں نہ ہی تھوپنے کے۔
اس کے لئے ہماری تربیت کی کمی ہے۔ گھر میں بھی اور تعلیم اداروں میں جہاں ہماری نئی نسل کی مستقبل کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ اگر بنیاد مضبوط ہو تو اس پر تعمیر کرنے والی عمارت بھی پائیدار ہوتی ہے۔
تعلیمی اداروں میں اب بچوں کو محض روبوٹ بنایا جارہا ہے، اخلاق، کردار، احساس، مروت سے بے نیاز یہ نسل اپنے موبائل میں گم ہے‘ دینی مدارس اور چند ایسے تعلیمی ادارے جو دینی فکر کے حامل اصحاب نے قائم کئے ہیں، انہوں نے کسی حد تک اخلاقی اقدار کو برقرار رکھا ہے۔
بچوں کو ناچ گانے کی بجائے اسپورٹس کی سرگرمیوں میں مشغول کریں تاکہ جسمانی اور صحت بہتر ہوسکے۔ لڑکیوں کو اسکول ہی میں ہر ہنر سکھایا جائے، جس کی اسے مستقبل میں ضرورت ہوسکتی ہے۔ ان ہنروں کی بدولت ان کی معاشی حالت بہتر بھی ہوسکتی ہے۔ بچوں کے لئے پانچ برس سے بارہ برس تک کی عمر بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے، اس دور میں جو وہ سیکھتا ہے، زندگی بھر اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ آج ہمارے بچوں کو فن کشتی، غلیل اندازی، مارشل آرٹس، کا ماہر بنایا جائے کیونکہ آنے والا دور خطرناک اور آزمائشی ہے۔ غیر حضرات اپنے کمسن بچوں کو لکڑی، لاٹھی، جوڈو کراٹے، پیراکی کا ماہر بنارہے ہیں، ہم اپنے بچوں سے اس طرح بے فکر ہیں گویا وہ ہمارے نہیں کسی اور کے بچے ہیں۔ غیر حضرات کے بچے راتوں میں چبوتروں پر، ہوٹلوں میں، گلی کی نکڑوں پر نظر نہیں آتے، یہ ہمارے نوجوان ہوتے ہیں جو وقت برباد کرتے ہیں، والدین میں تو اتنی ہمت سکت نہیں رہی کے وہ اپنے بچوں پر کنٹرول کرسکیں، کم از کم اسکول میں ٹیچرس تو یہ ذمہ داری پوری کرسکتے ہیں، انہیں ان کے مستقبل کے بارے میں سمجھا سکتے ہیں۔کاش ایسا ہوسکے!
Tags annual dau اسکولس سالانہ جلسوں نئی نسل
Check Also
عدلیہ‘ فوج‘ تعلیم اور میڈیا،بی جے پی کا سایہ
کولکتہ ہائی کورٹ کے جج ابھیجیت گنگوپادھیائے گنگولی نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دیا اور …
66سالہ مجلس کے اگلے 34برس
سچ تو مگر کہنے دوڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز مجلس اتحاد المسلمین اپنے احیاء کے …