متعلقہ افسران اور متاثرین سے ملے، انتظامیہ کے رویہ کی عام شکایت
جمعیۃ علماء ہند اور جماعت اسلامی ہند کا ایک مشترکہ وفد 11فروری کو ہلدوانی پہنچا اور وہاں ایس ڈی ایم پریتوش ورما،سٹی مجسٹریٹ رچا سنگھ، مقامی پولس اسٹیشن انچارج نیرج بھاکونی سے ملاقات کی اورہلدوانی کے بن بھول پورہ میں مدرسہ پر انہدامی کار روائی کے بعد پولیس انتظامیہ کی جانب دارانہ اور انتقامی کارروائی پر سخت ناراضی کا اظہار کیا۔دریں اثنا جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے وزیر داخلہ حکومت ہند کو مکتوب لکھ کر صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اس وفد میں جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی، نائب امیرجماعت اسلامی ہند ملک معتصم، سکریٹری جماعت اسلامی ہند شفیع مدنی، مولانا غیور احمد قاسمی سینئر آرگنائزر جمعیۃ علماء ہند، مولانا شفیق احمد القاسمی مالیگانوی سینئر آرگنائزر جمعیۃ علماء ہند، لئیق احمد خاں معاون سکریٹری جماعت اسلامی ہند، سید ساجد جماعت اسلامی ہند شامل تھے۔ وفد نے جائزہ کے بعد کہا کہ ہلدوانی کی موجودہ صورتحال انتظامیہ کی جلد بازی کا نتیجہ ہے۔ انتظامیہ نے بلڈوزر کی کارروائی انجام دینے میں عجلت کا مظاہرہ کیا، جبکہ معاملہ ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔ وفد نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ پروٹوکول کی رعایت کئے بغیر شوٹ اینڈ سائٹ کا آرڈرکس بنیاد پر دیا گیاجس کی وجہ سے اتنی جانیں تلف ہوئیں۔ یہ بھی افسوسناک ہے کہ پولیس آنسو گیس استعمال کرنے کے بجائے پتھر بازی میں ملوث تھی جیسا کہ مختلف ویڈیو فوٹیز میں مشاہدہ کیا گیا۔ بہرحال جو بھی صورتحال ہلدوانی میں پیدا کی گئی ہے، وہ کسی بھی مذہب سماج میں ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔
وفد نے واضح طور پر کہا کہ جو بھی افراد تشدد میں مبتلا تھے ان پر کارروائی ہو نی چاہئے لیکن سرچ آپریشن کے ذریعہ بے قصوروں کو بڑی تعداد میں گرفتار کرنا، مسلم اقلیت کے محلوں میں خواتین اور بچوں کو دھمکانا اور ا نتقامی جذبے سے لوگوں کو بند کرنا نہایت غلط قدم ہوگا۔ اس لئے پولیس افسران کو متنبہ کیا جائے کہ لوگوں کو پریشان نہ کریں، بلکہ ضلع انتظامیہ امن وامان اور اعتماد کی بحالی کے لیے موثر قدم اٹھا ئے۔ نیز جن کی جانیں تلف ہوئی ہیں، ان کے اہل خانہ کو ایک کروڑ روپے معاوضہ اور گھر کے ایک رکن کو نوکری دی جائے۔وفد نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ مذہبی مقامات کے انہدام سے پہلے متاثرہ فریق کو ہر طرح سے تشفی حاصل کرنے کا موقع دیا جانا چاہئے، ہندستان جیسے مذہبی اکثریت والے ملک میں لوگوں کے لئے مذہبی معاملہ انتہائی جذبات سے وابستہ ہوتاہے، اس کے لیے اس کو نظر انداز کرنا اور ہٹلر شاہی کی راہ اختیار کرتے ہوئے انہدام کو انتقام میں بدلنا ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ جو کچھ بھی ہلدوانی میں ہوا ہے، اسے روکا جاسکتا تھا۔ وفد نے محسوس کیا کہ اتراکھنڈمیں یہ روایت بن گئی ہے کہ مسلم اقلیتوں سے منسوب عبادت گاہوں کو منہدم کردیا جاتا ہے اور پھر کچھ افراد ویڈیو بناکر انہدام پر جشن مناتے ہیں، جس سے ایک طبقے کی شدید دل آزاری ہوتی ہے۔ ایسی صورتحال ملک کے مفاد میں نہیں ہے بلکہ اس سے ملک کی فضا کو مسموم ہوتی ہے۔ وفد نے ایس ڈی ایم سے مطالبہ کیا کہ وہ ذاتی طورسے ہمارے مطالبات پر غور کریں اور صورت حال کی بہتری کے لئے ہر ممکن قدم اٹھائیں۔ وفد نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ اس واقعہ کی عدالتی انکوائری ہائی کورٹ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ حج سے کرائی جائے۔
Check Also
”ختم جیسے ہی ہوا پہلا دہا“
فرید سحر‘ حیدرآباد۔ فون9848084306 الحمدللہ! مقدس ماہ صیام اب دوسرے دہے میں داخل ہوچکے ہیں۔ …
زکوٰۃ کے اصل مستحق کون؟
مدارس میں فیس کا نظام قائم کیجیے،نادار طلبہ کی فیس زکوٰۃ سے اداکیجیےعبدالغفار صدیقی-9897565066 زکوٰۃ …