سچ تو مگر کہنے دو
ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
مدھیہ پردیش کی عدالت نے اُن پانچ افراد کو باعزت بَری کردیا جو پاکستان کی حمایت میں جشن منانے کا الزام کے تحت وہ 6سال سے جیل میں سڑرہے تھے۔ عدالت نے پولیس پر فرضی الزام عائد کرنے کا ریمارک کیا ہے۔ 6برس جیل میں گزارنے کے بعد لفظ باعزت بَری کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ اِن چھ برسوں میں اِن افراد کے ساتھ اپنے اور پرائے سب کا سلوک یکساں ہوجاتا ہے۔ عمر کا ایک اہم حصہ ضائع ہونے کے بعد بھلے ہی وہ عزت و وقار کا ٹیاگ لگائے باہر نکلیں اِن کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں۔ اور یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے‘ اب بھی بے شمار نوجوان فرضی الزامات میں گرفتار ہوکر بڑھاپے میں داخل ہوچکے ہیں۔ عمرخالد، شرزیل امام کی مثال سامنے ہے۔ کس طرح انہیں ستایا جارہا ہے۔ ابھی حال ہی میں گجرات یونیورسٹی میں غیر ملکی مسلم طلبہ پر تراویح کی ادائیگی کے دوران جس طرح سے کٹر ہندوؤں نے حملہ کیا اس نے ایک طرف اندرونِ ملک مسلم طلبہ کی سلامتی کو غیر یقینی بنادیا تو دوسری طرف ہندوستان کا ساتھ کو عالمی برادری میں بُری طرح سے متاثر کردیا۔ مذہبی رواداری اور فراخ دلی کے نام پر مسلم ممالک میں ہندو مندر تعمیر کئے جارہے ہیں‘ اعلیٰ عہدوں پر انہیں تعینات کیا جارہا ہے اور ایک سیکولر ملک ہندوستان میں مسلمانوں کو کبھی سڑکوں پر نماز پڑھنے پر خاکی وردی میں چھپے درندے دولتی جھاڑتے ہیں تو کبھی کالجس، یونیورسٹیز میں انہیں نماز کی ادائیگی سے روکا جاتا ہے‘ کبھی مسجدوں کی مینار پر بھگوا پرچم لہرائے جاتے ہیں۔ اور انہیں بھگوا لیڈروں کی مکمل پشت پناہی حاصل رہتی ہے۔ گجرات یونیورسٹی میں اتنا بڑا اور افسوسناک واقعہ پیش آیا، یوں تو رسمی کاروائی کے طور پر کچھ گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔ اور سرکاری طور پر انکوائری کا حکم بھی دے دیا گیا ہے مگر آخری فیصلہ یا نتیجہ کیا ہوگا‘ سبھی کو اندازہ ہے۔ اس سے پہلے ہی اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے نہ صرف اس واقعہ کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی بلکہ باقاعدہ ہدایت جاری کردی ہے کہ مسلم طلبہ ہاسٹل میں عام مقامات پر مذہبی اجتماعات سے گریز کریں۔ یعنی نماز نہ پڑھیں۔ افسوس اس بات کا ہے یہ واقعہ گجرات میں پیش آیا جو گاندھی کا بھی پیدائشی مقام ہے اور مودی کا بھی۔ اور گجرات کے نام کے ساتھ ہی 2002ء کے مسلم فسادات کا منظر تصور میں ابھرنے لگتا ہے۔ بلقیس بانو کی آہوں اور چیخوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ مودی گجرات کو ماڈل ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ مگر ان کی لاکھ کوششوں کے باوجود اس ریاست میں انسانیت دَم توڑ رہی ہے۔ گزشتہ سال احمدآباد کے نریندر مودی اسٹیڈیم میں پاکستان کے خلاف کرکٹ میاچ جس طرح سے ہجوم کا سلوک رہا اس نے بھی عالمی سطح پر گجرات کو نہیں ہندوستان کو رسوا کیا تھا۔
اب تو اپنے ہندوتوا اور مخالف مسلم سرگرمیوں کے لئے اُترپردیش نے گجرات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یوگی کے بلڈوزر کلچر پر جس قدر عالمی برادری نے لعنت و ملامت کی وہ شاید ہی کسی اور کے حصے میں آئی ہو۔ بہرحال ایک طرف حکومت ہند مسلم ممالک کے ساتھ ا پنے تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے کوشاں ہے اور مسلم ممالک مسٹر مودی کو اپنے اپنے ملک کے سب سے باوقار اعزازات سے نواز رہے ہیں۔ دوسری طرف مودی کے دیس میں مسلم اقلیت کے ساتھ جو سلوک اختیار کیا جارہا ہے ایسا لگتا ہے کہ ایک طبقہ ہے جو اپنی اس قسم کی سرگرمیوں سے حکومت کی کاوشوں کو متاثر کرنا چاہتا ہے۔ جہاں تک سی اے اے، این آر سی کے نفاذ کا تعلق ہے‘ اس کا اثر بھی آنے والے برسوں میں یقینی طور پر ہوگا۔ ہندوستانی مسلم شہریوں پر آنے والے دنوں میں کیا کیا آفتیں آنے والی ہیں‘ اس کا کسی قدر اندازہ تو ہے مگر اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ ہر شعبہ حیات میں مسلمان پہلے ہی سے منصوبہ بند طریقے سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ حال ہی میں آل انڈیا سروے آف ہائیر ایجوکیشن AISHE نے CSR اور NOUS کے اشتراک سے ایک سروے کیا جش میں سچر رپورٹ کے دودہائیوں بعد مسلمانوں کی تعلیمی حالت کی تفصیلات پیش کی گئی۔ اس رپورٹ کے مطابق اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلباء میں 8.5فیصد کمی ہوئی ہے۔
یہی نہیں بلکہ عام تعلیمی اداروں جن میں کالج یونیورسٹیز شامل ہیں ان میں مسلم طلباء کی تعداد آنے میں نمک کے برابر ہوگی۔ خود مسلم انتظامیہ کے تحت قائم یونیورسٹیز اور کالجس میں بھی غیر مسلم طلبہ 52.7 فیصد ہیں اور مسلم طلبہ 42.1فیصد ہے۔ ملک میں 1113 یونیورسٹیز ہیں ان میں سے 23مسلم انتطامیہ کے تحت ہیں اور جبکہ لگ بھگ 43ہزار کالجس میں سے مسلم انتظامیہ کے تحت 1155کالجس قائم ہیں اور اِن سب میں نہ صرف غیر مسلم طلبہ کی تعداد زیادہ ہیں بلکہ مسلم انتظامیہ کے تحت قائم تعلیمی اداروں کے بیشتر ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹس غیر مسلم ہیں۔ اور مسلمان بے چارہ حکومت پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ مسلم وائس چانسلر کا تقرر نہیں کرتی۔ یہ سروے AISHE، AICTE، NCMEI اور NAAC کے ڈیٹا کی مدد سے کیا گیا ہے۔ جس سے یہ افسوسناک پہلو سامنے آیا ہے کہ آزادی کے بعد سے 75برس میں صرف 18یونیورسٹیز مسلم انتظامیہ کے تحت قائم کی گئیں۔ 1947ء میں مسلم کالج کی تعداد سترہ ہے جو اب 1155ہوگئی ہے۔ اقلیتی گروپس میں 73.4فیصد ہے مگر کالجس میں ان کا حصہ 16.6فیصد ہے۔ آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم ایس، این آئی ٹی میں صرف 1.92 فیصد مسلم طلبہ ملیں گے۔ پوسٹ گریجویٹ مسلم طلبہ کا تناسب 8فیصد، ایم فل اور پی ایچ ڈی اسکالرس ایک فیصد ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو ہر شعبہ حیات میں امتیاز اور تعصب کا سامنا ہے۔ تعلیم، روزگار، سیاست، حتی کہ انہیں مکانات نہ توکرایہ پر دیئے جارہے ہیں نہ ہی انہیں فروخت کیا جارہا ہے۔ یہ اپنے ہی وطن میں اجنبی بناکر رکھ دینے کے مماثل ہے۔ اتراکھنڈ جہاں یکساں سیول کوڈ نافذ کیا گیا اور مسلم دشمنی انتہا پر ہے وہاں تاجروں کی تنظیم نے مسلم تاجروں کے الحاق کو منسوخ کردیا ہے۔ یہ ایک طرف سے مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ کا آغاز ہے۔ اس کے برعکس مسلمانوں نے بدترین مسلم کش فسادات کے باوجود کبھی بھی مسلم بیو پاریوں کا بائیکاٹ نہیں کیا۔ آج بھی رمضان اگر مالی طور پر مبارک ثابت ہوتا ہے ہندو بیوپاریوں کے لئے کیوں کہ مسلمان مذہبی خطوط سے بالاتر ہوکر رمضان شاپنگ کرتے ہیں۔ چاہے وہ کپڑے جوتوں کی خریدی ہو یا زکوٰۃ و دقات کے لئے غلہ کی خریدی۔ صرف ایک مہینے میں یہ بیوپاری جتنا بزنس کرتے ہیں وہ 11مہینوں میں نہیں کرپاتے اگر مسلم شورومس سے بھی شاپنگ ہوتی ہے تو اس کا فائدہ بھی ہندو بیوپاری کو ہی ہوتا ہے کیوں کہ اصل ڈسٹری بیوٹر تو یہی ہوتا ہے۔ ملک کے اندرونی حالات پر مودی اور امیت شاہ کی خاموشی‘ اس ملک کی صحت کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔یہ ضروری نہیں کہ ان کا اقتدار مستقل ہو۔ تبدیلی اور تغیر فطرت کا حصہ ہے۔ جب یہ اقتدار سے دور ہوں گے تو انہیں اپنے کئے پر یقینی طور پر پچھتاوا ہوگا مگر اس سے جو نقصان ہندوستان اور ہندوستانی مسلمانوں کو ہوچکا ہوگا اس کی تلافی ممکن نہیں۔ اقتدار کے لئے آنکھوں پر پٹی باندھ کر ہندوتوا نظریات کو تقویت دیتے ہوئے 30کروڑ مسلمانوں کو کچلنے کی کوشش یقینی طور پر مہنگی ثابت ہوگی کیوں کہ 30کروڑ مسلمان ایک بہت بڑی طاقت ہے۔ یہ المیہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنی طاقت اور حیثیت کا ابی احساس اور اندازہ نہیں ہورہا ہے۔ جس دن یہ بیدار ہوگا یقینی طور پر تاریخ بدل جائے گی۔ اور شاید وہ وقت زیادہ دور نہیں ہے۔ مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگانے کے لئے ہسٹریائی انداز میں چیخنے چلانے مخالف مسلکی نعروں کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ ان کی صحیح رہنمائی کی ضرورت ہے۔ آج کا دور مغلیہ سلطنت کے آخری دور اور اودھ کے زوال کے عہد کی طرح ہے جب حاکم سے محکوم بنتے ہوئے بھی مسلمان خاص طور پر امراء اور شاہی خاندان کے افراد اپنے عیاشیوں، سیر وتفریح میں مشغول ہیں۔ سلطنت ہاتھ سے نکلی جارہی زمین کبھی کے قدموں سے سرک چکی اور نوابان اودھ شطرنج کی بازی میں کھوئے ہوئے تھے۔ ہم بھی خاص طور پر ہمارے امراء، تعلیم یافتہ دانشور طبقہ اب بھی احمقوں کی جنت میں ہیں۔ مڈل کلاس حالات اور مسائل کی چکی میں پیسا جارہا ہے۔ غریب طبقے کو آنے والے کل کی فکر نہیں۔ اُسے آج کی فکر ہے۔ ان حالات سے ہم کو نکلنا ہے۔ مگر کیسے؟
جب اس کا جواب مل جائے گا تو پھر ہمارے ساتھ امتیازی سلوک کرنے والے ایک بار پھر ہمارے تعاون کے محتاج ہوں گے۔ مسلمان اگر واقعی مومن بن جاتا ہے تو اُسے کبھی اپنی تعداد کی فکر نہیں ہوتی۔ کیوں کہ تعداد اور وسائل کی فکر وہ کریں جنہیں اس بات کا یقین ہو کہ انہیں ہمیشہ اس دنیا میں رہنا ہے۔ ہم تو پیدا ہوتے ہی موت کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ موت کے خوف اور زندگی سے محبت نے ہمیں بزدل نااہل، بے حس بناکر رکھ دیا ہے۔ تاریخ اوراق گواہ ہیں کہ آج کے جو حالات ہیں اس سے کہیں زیادہ بدتر حالات سے ہماری پیش رو نسلیں گزر چکی ہیں۔ ہمیں مٹانے کی کوشش ہردور میں کی گئی‘ وقتی طور پر انہیں کامیابی ملی مگر اس حقیقت کو وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمان ایک ہی قوم ہے جسے مٹانے کی جتنی کوشش کی جاتی ہے وہ اتنا ہی ابھرتی جاتی ہے۔ ترکی، روس، اسپین اس کی مثال ہیں۔ ہندوستان میں ابھی وہ نوبت نہیں آئی اس سے پہلے ہم کو اپنے آپ کو آنے والے وقت کے لئے تیارکرنا ہوگا ورنہ
ہماری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں