Sunday , November 24 2024
enhindiurdu

6دسمبر92سے 22جنوری 24تک

سچ تو مگر کہنے دو ! ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

6/دسمبر 1992ء سے 22/جنوری 2024ء تک ہندوتوا طاقتوں نے جو سفر طے کیا ہے‘ ان کے لئے اور ان کی آنے والی نسلوں کے لئے تاریخ کا سنہری دور سمجھا جائے گا۔ اور جنہوں نے 6/دسمبر اور اس کے بعد جو کچھ کھویا ہے ان کے لئے تاریکیوں کے سوا اور کیا باقی رہ گیا ہے۔ جیسے جیسے 22/جنوری قریب آتی جارہی ہے‘ ویسے ویسے نہ صرف ہندوستان میں‘ دنیا کے اُن تمام ممالک میں جہاں ہندو آباد ہیں‘ ان کے جوش اور ولولہ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کیوں کہ ان کے لئے رام پانچ سو برس بعد اپنے گھر واپس ہورہے ہیں اور ان کے استقبال کے لئے جس پیمانے پر تیاریاں کی جارہی ہیں‘ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ 22/جنوری کو رام مندر کی تقدیس کا دن منایا جارہا ہے۔ اور یہ کریڈٹ ظاہر ہے نریندر مودی کے علاوہ اور کون حاصل کرسکتاہے حالانکہ اس کی شدت سے مخالفت بھی ہورہی ہے۔ پوری کے شنکراچاریہ سوامی نشچل آنند سرسوتی اور اُترکھنڈ کے جیوتش پیتھ کے ایک ہزار آٹھویں شنکر اچاریہ سوامی اوی مکتیشور آنند نے وزیر اعظم مودی پر تنقید کی ہے کہ 22جنوری کو ادھورے رام مندر کا افتتاح محض سیاسی مفادات کے لئے کیا جارہا ہے۔ سوامی نشچل آنند نے کہا کہ وہ اس افتتاحی تقریب میں شرکت نہیں کریں گے کیوں کہ مندر کا افتتاح دھرم اچاریہ کی ذمہ داری ہے۔ اگر مودی جی مندر کی تقدیس اور افتتاح کرتے ہیں‘ تو کیا وہ (شنکراچاریہ) تالی بجانے کے لئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ کہ وزیر اعظم مودی نے خود کو ایک سیکولر لیڈر کے طور پر پیش نہیں کیا‘ اور سناتن دھرم کا احترام کررہے ہیں۔ وہ ہر کام خود کرنا چاہتے ہیں‘ یوگا بھی سکھارہے ہیں اور مندر کا افتتاح بھی۔ حالانکہ یہ کام پجاریوں کا ہے۔ اترکھنڈ کے شنکراچاریہ نے بھی ایسا ہی کچھ کہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح اور اس کی تقدیس اور اسے وقف کرنے کا کام مذہبی پیشواؤں کے بجائے سیاسی قائدین کررہے ہیں‘ جو ہندو مذہبی روایت کے خلاف ہے۔ جب تک مندر کی تعمیر مکمل نہیں ہوتی‘ نہ تو اس میں داخلہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس کی تقدیس ہوسکتی ہے۔ یہ مندر ابھی مکمل طور پر تعمیر نہیں ہوا ہے۔ ایسی صورتحال میں اس کا افتتاح ہندومت کی روایت کے خلاف ہے۔
ان دو شنکر اچاریوں کے خیالات کو کس قدر اہمیت دی جاتی ہے‘ ان کی آواز یقینا نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوگی۔ اس وقت جس طرح سے ماحول تیار کیا گیا ہے‘ وہ عام ہندوؤں میں رام مندر کی تعمیر کے لئے ہے تو وی ایچ پی اور بی جے پی کے لئے الیکشن 2024ء کی تیاری۔ جس میں بی جے پی کی غیر معمولی اکثریت کے ساتھ کامیابی یقینی ہے۔ کیوں کہ اکثریتی طبقے کے لئے مودی‘ ہندوتوا کا چہرہ بن گئے ہیں۔ان کی نظر میں انہوں نے وہ کارنامہ انجام دیا ہے جو دوسرے ہندو قائدین نے یا سیاسی جماعتوں نے انجام نہیں دیا۔ ایودھیا کو جس طرح سے ہندوستان کی سب سے بہترین اسمارٹ سٹی کے طور پر تعمیر کیا جارہا ہے‘ جس طرح سے اس کے چپے چپے کو رام نگری میں بدل دیا گیا ہے‘ اب اس کا اثر دوسری سیاسی جماعتوں پر بھی ہونے لگا ہے۔ 10جنوری کو سماج وادی پارٹی کے اجلاس کے موقع پر اس کے ہیڈ کوارٹر پر بھی رام مندر کی ہورڈنگس نظر آئے۔
افتتاحی تقریب کے لئے 7000 دعوت نامے تقسیم کئے گئے ہیں جن میں سے تین ہزار، وی آئی پیز اور ڈونرس، مختلف مندروں کے پجاریوں کو روانہ کئے گئے ہیں۔ یہ دعوت نامہ اقبال انصاری کو بھی دیا گیا جو کل تک مسجد مندر مقدمے کے ایک فریق تھے۔ ان کے والد ہاشم انصاری نے آخری سانس تک بابری مسجد کیلئے قانونی لڑائی لڑی تھی۔ ان کا 2016ء میں 95سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ اقبال انصاری کو مسٹر مودی کے دورہئ ایودھیا کے موقع پر ان پر پھول نچھاور کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ انہوں نے خوشی ظاہر کی کہ اب رام کا مجسمہ مندر میں نصب ہونے والا ہے۔ افتتاحی تقریب میں دنیا کے تقریباً تمام ممالک سے ہندو لیڈرس، بزنس مین، صنعت کار شرکت کررہے ہیں ان میں امریکہ کے ڈاکٹر بھرت بارائی بھی شامل ہیں‘ جنہوں نے مودی کو امریکی ویزا جاری کرنے کے لئے مہم چلائی تھی۔ 53ممالک کے 100 مہمانوں میں وشوا ہندو پریشد کے گلوبل چیرمین وگیانند، ورلڈ ہندو کونسل آف امریکہ کے صدر ڈاکٹر ابھے استھانہ، ناروے کے ایم پی ہیمانشو گولاٹی، ہندو کونسل نیوزی لینڈ کے جنرل سکریٹری پروفیسر گونا ماگیسن، فیجی کے اسٹیل انڈسٹریلسٹ جے دیال، ہندو سویم سیوک UK کے صدر دھیرو بھائی شا، جرمنی سے رمیش بھوجانی اور وشوا ہندو پریشد آسٹریلیا کے سبرامنیم راما مورتی، اٹلی سے وٹھل مہیشورن شامل ہیں۔
ہندوستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے 500 سوشیل میڈیا انفلونسرس، تاملناڈو کے رامیشورم سے ایودھیا تک کا ساڑھے چار ہزار کلومیٹر کا سفر 14/جنوری سے شروع کریں گے۔ پانچ ریاستوں تاملناڈو، کرناٹک، مہاراشٹرا، مدھیہ پردیش اور اُترپردیش سے ہوتے ہوئے 22/جنوری کو نندی گرام پہنچیں گے جو ایودھیا سے 20کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہاں سے وہ پیدل رام مندر تک سفر کریں گے۔ کارتک جوشی نامی ایک اتھیلیٹ اندور سے ایودھیا تک 14دن میں پیدل سفر کرے گا۔ اگرچہ کہ یہ فاصلہ 945کلو میٹر کا ہے مگر کارتک جوشی اسے 1008کلو میٹر کے حساب سے طئے کرے گا کیوں کہ رامائن میں اس فاصلہ کی اہمیت بتائی گئی ہے۔
ناگپور کے ایک مشہور شیف (Chef) رام منوہر 7000کلو گرام سوجی کا حلوہ تیار کررہے ہیں جو پرشاد کے طور پر ڈیڑھ لاکھ افراد میں تقسیم کی جائے گی۔ اُترپردیش کے چیف منسٹر آدتیہ یوگی ناتھ نے 22جنوری کو سرکاری تعطیل کا اعلان کردیا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے اس شام ہر گھر میں چراغ روشن رکھنے کے لئے کہا ہے۔ یاد ہوگا کووڈ کے دوران ایک مرتبہ تالی بجانے اور ایک مرتبہ گھروں میں روشنی کرنے کے لئے مودی جی نے کہا تھا۔ اور یہ دونوں مواقع کووڈ کو بھگانے کے لئے نہیں بلکہ بی جے پی کی چالیسویں سالگرہ کا جشن منانے کے لئے استعمال کئے گئے تھے۔
رام مندر کی کے افتتاح اور الیکشن 2024ء کو اتنا کم وقت رہے گا کہ الیکشن تک اکثریتی طبقہ رام کی پانچ سو سال بعد واپسی کے جشن کے خمار میں ڈوبا ہوگا۔ تعریف کرنی ہوگی آر ایس ایس، وی ایچ پی، بجرنگ دل اور بی جے پی کی جنہوں نے منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے ساتھ ایک ایک مرحلہ طے کیا۔ چندرائن۔3 کو کامیاب بنایا (ابھی تک سلیپنگ موڈ میں ہے)۔ سورج کا مشن بھی بقول اسرو کامیابی سے ہمکنار ہورہا ہے۔ جب چاند اور سورج پر قبضہ ہوچکا ہے تو زمین پر مشکلات کیسی! لکشادیپ کو مالدیپ کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ اور ہمسایہ ممالک کے درمیان ایک طاقتور ملک کے طور پر اپنے آپ کو ثابت کیا۔ وائبرنٹ گجرات 2024ء کو بھی اگر الیکشن 2024 کی کڑی سمجھا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ احمدآباد میں روڈ شو ایک طرح سے اندرون ملک اور بیرون ملک نریندر مودی کی امیج کو اور بہتر اور ان کی قد کو واضح کرنے کی کوشش ہے۔
اس کانفرنس میں متحدہ عرب امارات کے صدر محمدبن زید النیہان کے علاوہ موزومبیق اور تیمور کے صدور اور کئی ممالک کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سربراہوں نے شرکت کی۔ مودی اور اور النیہان نے جہاں دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعاون اور تجارت کے فروغ پر بات چیت کی وہیں دوبئی کی ملٹی نیشنل لاجسٹک کمپنی DP World کے ساتھ معاہدہ بھی کیا۔ وہیں مراقش کے ساتھ بھی مختلف شعبہ جات میں سرمایہ کاری سے متعلق معاہدے طے پائے گئے۔ اس تین روزہ کانفرنس میں 10.31لاکھ کروڑ کی سرمایہ کاری سے متعلق معاہدے طے پائے گئے ہیں۔ ہندوستان کے سرکردہ بزنس مین اور صنعت کار مکیش امبانی، اڈانی لکشمی متل نے شرکت کی اور اپنے پراجکٹس کا اعلان کیا۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سربراہوں سے بھی وزیر اعظم کی بات چیت اور ان کمپنیوں کے سربراہوں کی جانب سے مودی حکومت کی ستائش نے الیکشن 2024ء کے لئے راہیں ہموار کردی ہیں۔ کیوں کہ جس طرح سے وزیر اعظم مودی کا امیج بنایا گیا ہے وہ دنیا کے ا یک طاقتور ملک کے سربراہ کے طور پر ہے جس کی قیادت میں ہندوستان تیزی سے ترقی پذیر ہے اور اس میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے مفادات کا تحفظ ہے رام مندر کے افتتاح سے پہلے جس طرح سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر مسٹر مودی نے خود کو ناقابل تقابل لیڈر کے طور پر کامیابی کے ساتھ پیش کیا‘ اس کے بعد اپوزیشن کے پاس تنقید کے لئے بھی مناسب الفاظ نہیں رہے ہیں۔ رام مندر کے افتتاح کے بعد مسٹر مودی بیرونی ممالک بالخصوص عالم عرب کا دورہ کرسکتے ہیں۔ تاکہ ہندوستان کے ہندو راشٹرا بنانے کی جو کوششیں سینہ ٹھونک کر کی جارہی ہے اس پر عالم عرب کی تشویش کو طمانیت میں بدلا جاسکے۔ اس سلسلہ کی پہلی کڑی 13فروری کو ابوظہبی میں ”اہلاً مودی“ پروگرام ہے جہاں مسٹر مودی ہندوستانی برادری سے خطاب کریں گے۔ یادرہے کہ 2015ء میں وزیر اعظم مودی نے متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا تھا جو 34برس کے دوران کسی بھی ہندوستانی وزیر اعظم کا پہلا دورہ تھا۔ اب 2024ء میں یہ ان کا ساتواں دورہ ہوگا۔ اس سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات میں کس قدر تیزی سے فروغ ہورہا ہے۔
متحدہ عرب امارات میں تقریباً 35لاکھ ہندوستانی آباد ہیں۔ ابھی تک اہلاً مودی پروگرام کے لئے جو شیخ زید اسپورٹس سٹی اسٹیڈیم میں ہوگا‘ 20ہزار افراد نے اپنے نام رجسٹرڈکروائے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ ابوظہبی کا اہلاً مودی پروگرام امریکہ کے ”ہاؤڈی موڈی“ اور لندن کے ومبلے اسٹیڈیم میں کئے گئے پروگرامس کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑا ہوگا۔ 14فروری کو وہ ابوظہبی میں ہندو مندر کا افتتاح بھی کریں گے۔
ہندوستان اور سعودی عرب نے بھی اپنے تعلقات کو مستحکم بنایا ہے۔ اس کا اثر وزیر حج و امور سمرتی ایرانی کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر نظر آیا جب سمرتی ایرانی نے مدینہ شریف کی مقدس اور پاک سرزمین پر قدم رکھا۔ وہ پہلی غیر مسلم خاتون ہیں جنہیں مدینہ منورہ کی سیر کرائی گئی۔ جس پر کئی گوشوں سے تنقید بھی ہورہی ہے۔
بہرحال!6دسمبر 1992ء سے 22جنوری 2024ء تک ہزاروں خداؤں کو ماننے والے ایک مشترکہ مقصد کے لئے ایک ہوگئے۔ انہوں نے جوعزم کیا اس کی تکمیل کی۔ تیس برس تک خاموشی سے مندر کے لئے تعمیراتی کام ہوتے رہے۔ آج وہ فخر سے سراٹھائے ہوئے ہیں اور ان 32برس کے دوران ہم نے کیا کیا۔ بلاشبہ ہمارے سیاست دانوں نے بابری مسجد کے ملبے پر اپنی کامیابی کے پرچم لہرادیئے۔ وہ متحد ہوئے ہم منتشر ہوئے۔ 6دسمبر سے پہلے ہی ایک مشترکہ کاز کے لئے اللہ کے گھر کی حفاظت کے لئے سب متحد تھے۔ مگر انہوں نے بعض کو خریدا، آپس میں پھو ٹ ڈالی۔ بابری مسجد کے لئے جدوجہد کرنے والے قائدین، رابطہ کمیٹی اور ایکشن کمیٹی میں تقسیم ہوگئے۔ جمعےۃ العلماء چچا بھتیجے کے گروہوں میں تقسیم ہوگئی۔ خون کے رشتے ایک نہ ہوسکے تو قوم کو متحد کیسے کیا جاسکتا ہے۔ مسلم مجلس مشاورت کی ا ہمیت گھٹ گئی۔ مجلس اتحادالمسلمین میں بھی وقتی طور پر تقسیم عمل میں آئی حتیٰ کہ تبلیغی جماعت تک دو دھڑوں میں بٹ گئی۔ مسلم جماعتیں چاہے وہ سیاسی ہوں یا مذہبی‘ انہوں نے صرف نعرے لگائے کوئی ٹھوس کام نہیں کیا۔ ناانصافی کا رونا ہماری کمزوری، بے بسی کا ثبوت ہے۔ ہمیں اپنے مفادات زیادہ عزیز ہیں۔ غیروں نے اپنے مفادات کو اپنے کاز پر قربان کیا۔ اب بھی وقت ہے‘ سنبھلنے کا، ورنہ زمانہ کی ٹھوکریں ہمارا مقدر ہوں گی۔ یہ وقت ہے انتشار کو اتحاد میں بدلنے کا۔ ناراض ارکان کو قریب کرنے کا، اپنے اَنا کے خول سے باہر نکلنے کا، ورنہ ہماری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

About Gawah News Desk

Check Also

نئی نسل کی تباہی کے ذمہ دار کون؟

ماہِ مقدس رمضان المبارک سے متعلق موضوع پر کچھ لکھنے کا ارادہ تھا، مگر علماء …

عدلیہ‘ فوج‘ تعلیم اور میڈیا،بی جے پی کا سایہ

کولکتہ ہائی کورٹ کے جج ابھیجیت گنگوپادھیائے گنگولی نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دیا اور …

Leave a Reply