انتخاب کے پہلے مرحلے کی ووٹنگ سے بی جے پی میں گھبراہٹ
عبدالعزیز
9831439068
لوک سبھا انتخاب شروع ہونے سے پہلے آر ایس ایس کے ہفتہ وار ’آرگنائزر‘ میں یہ رپورٹ شائع ہوئی تھی کہ اب صرف ’مودی میجک‘ سے الیکشن جیتا نہیں جاسکتا۔ مہاراشٹر کی ایک خاتون امیدوار نے انتخاب کے شروع ہی میں بتایا کہ صرف مودی کے چہرے سے الیکشن میں کامیابی ممکن نہیں ہے۔ ناگپور کے حلقہ سے مودی کے بعد بی جے پی کے سب سے بڑے لیڈر نیتن گڈکری کھڑے ہیں۔ ان کا جیتنا بھی محال معلوم ہورہا ہے۔ مودی تو ان کے حلقے میں تقریر کرنے نہیں گئے لیکن نتین گڈکری کو اپنی انتخابی تقریر کے لئے یوگی آدتیہ ناتھ کوبلانا پڑا تھا جبکہ نتین گڈکری کو اپنے کاموں اور اپنی شخصیت پر بڑا اعتماد ہے۔ وہ یہاں تک کہتے تھے کہ ووٹ مانگنے وہ نہیں جائیں گے۔ جو لوگ ان کے کاموں پر اعتماد کرتے ہیں وہ ان کو ووٹ دیں گے۔ مہاراشٹر کی حالت پہلے سے ہی بی جے پی کے لئے خستہ تھی۔
مہاراشٹر سے بڑی ریاست اتر پردیش ہے جہاں لوک سبھا کی 80 سیٹیں ہیں وہاں بی جے پی کو 2019ء میں 64سیٹوں پر کامیابی ملی تھی۔ اس بار اس کی سیٹیں بڑھیں گی، لیکن اترپردیش میں بی جے پی کے لئے مشکلات ایک ایک کرکے بڑھتی گئیں۔ راجپوت کمیونٹی اور جاٹ سماج دونوں بی جے پی سے ناراض ہوگئے اور ان کا غصہ اور ان کی ناراضگی کھل کر الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے دن سامنے آگئی۔ بڑی بڑی پنچایتوں میں دونوں فرقوں نے میٹنگ کرکے یہ فیصلہ کیا کہ وہ بی جے پی کو اس بار ہرانے کا کام کریں گے۔ 19 اپریل کو اتر پردیش میں 8 سیٹوں پر الیکشن ہوا۔ کئی جگہوں پر بی جے پی کے لیڈروں اور کارکنوں کی راجپوت لیڈروں اور نوجوانوں سے جھڑپیں اور لڑائیاں ہوئیں۔اتر پردیش میں الیکشن کے پہلے ہی مرحلے سے اندازہ ہورہا ہے کہ بی جے پی کا خواب اتر پردیش میں شرمندہئ تعبیر نہیں ہوگا۔ وہاں ایک یہ نعرہ یہ بھی لگ رہا ہے کہ ’یوگی کو بچانا ہے تو مودی کو ہرانا ہے‘۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ نریندر مودی نے کئی ریاستوں میں بڑے اور پرانے لیڈروں کی جگہ نئے لوگوں کو وزیر اعلیٰ بنایا اور اگر وہ تیسری بار آگئے تو یوگی کو وزیر اعلیٰ کی کرسی سے بے دخل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اتر پردیش میں مودی اور یوگی کے انتخابی جلسوں میں وہ بھیڑ دیکھنے میں نہیں آرہی ہے جو بھیڑ راہل گاندھی اور اکھلیش یادو کے جلسوں میں غیر معمولی بھیڑ نظر آرہی ہے۔ بی جے پی کے لیڈروں کا خیال تھا کہ مختلف ریاستوں میں جو اس کی سیٹیں گھٹیں گی اتر پردیش میں اس کی بھرپائی ہوسکتی ہے۔ اب یہ خیال بی جے پی میں باقی نہیں رہا۔ نریندر مودی کی گھبراہٹ کی دوسری بڑی علامت یہ نظر آرہی ہے کہ 19 اپریل کے الیکشن کے بعد نریندر مودی کی تقریروں کا انداز پہلے جیسا نہیں رہا۔ اب وہ الیکشن کو پولرائزڈ کرنے اور فرقہ وارانہ رنگ دینا چاہتے ہیں۔ آرٹیکل 370، رام مندر اور تین طلاق جیسے فرسودہ موضوعات کو چھیڑ رہے ہیں۔ ان رٹی رٹائی باتوں پر لوگ زیادہ دھیان نہیں دے رہے ہیں۔ لوگ سنتے سنتے اوب سے گئے ہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن کے لیڈران زمینی حقائق پیش کر رہے ہیں۔ بے روزگاری، مہنگائی، بدعنوانی (بھرسٹاچار) کے علاوہ نوجوانوں اور کسانوں کی خودکشی کی وارداتوں اور عورتوں پر مظالم اور ان کے ساتھ ناروا سلوک جیسے مسائل پیش کر رہے ہیں۔
CSDS نے انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ کی طرف سے الیکشن سے پہلے ایک سروے پیش کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سب سے بڑا مسئلہ اس وقت بے روزگاری کو 71% لوگوں نے بتایا ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ مہنگائی کو 65% لوگوں نے مانا ہے۔ تیسرا بڑا مسئلہ بدعنوانی یا بھرسٹاچار کو تسلیم کیا ہے۔ ہندوتو کو صرف 2فیصد لوگوں نے مسئلہ مانا ہے اور رام مندر کو 8%۔ اس کے علاوہ دیگر سروے میں بھی کم و بیش اسی قسم کے حقائق پیش کئے ہیں۔ مودی کی تقریروں سے ممکن ہے ایک دو فیصد میں اضافہ ہوجائے۔ اس کے برعکس اپوزیشن لیڈروں کی طرف سے جو مسائل پیش کئے جارہے ہیں وہ روز مرہ کے مسائل ہیں۔ امیروں کے علاوہ ملک کے سارے لوگ ان مسائل سے دوچار ہیں۔
کئی چیزوں نے الیکشن کا رخ بالکل بدل دیا ہے۔ راہل گاندھی کی پہلی یاترا ”بھارت جوڑو یاترا“ اور دوسری یاترا ”بھارت جوڑو نیائے یاترا“ سے بھی بہت فرق پڑا ہے۔ اس سے راہل گاندھی کی شخصیت کو اونچائی ملی ہے اور لوگوں سے وہ قریب ہوئے ہیں اور لوگ بھی ان کے قریب ہوئے ہیں۔ انھوں نے لوگوں کے بنیادی مسائل کو سنا ہے اور ان کے حل کے لئے بھی ان سے باتیں کی ہیں۔ کانگریس کا انتخابی منشور ”نیائے پتر“ اس قدر جامع ہے کہ ملک کے سارے مسائل کا قریب قریب اس میں حل پیش کیا گیا ہے۔ اس میں گارنٹی بھی دی گئی ہے۔ مودی اور کانگریس کی گارنٹی میں بڑا فرق ہے۔ مودی کی 2014، ء یا 2019ء کی گارنٹی یا وعدہ پورا نہیں ہوا ہے اس لئے عوام ان کی نئی گارنٹیوں کو جملہ سمجھ رہے ہیں۔ اس کے برعکس راہل گاندھی یا کانگریس کی گارنٹیوں پر بھروسہ کر رہے ہیں۔ بھروسے کی وجہ یہ ہے کہ کرناٹک، ہماچل پردیش اور تلنگانہ میں کانگریس کی حکومتیں ہیں۔ ان ریاستوں میں جو گارنٹیاں کانگریس یا راہل گاندھی کی طرف سے دی گئی تھیں وہ ایک ایک کرکے پوری کی جارہی ہیں۔ اس کے حوالے سے لوگوں میں اعتماد اور یقین بڑھا ہے۔
بدعنوانی یا بھرسٹاچار کا مدعا بھی بھاجپا کے لئے جان لیوا ثابت ہورہا ہے۔ اس مدعا کو نریندر مودی یا بی جے پی نے خود اٹھایا تھا، لیکن یہ مدعا بی جے پی کے لئے کچھ ایسا ہوگیا کہ ”امتحان جذبہئ دل کیسا نکل آیا- میں الزام اس کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا“۔ الیکٹورل بانڈ کے بارے میں مودی اور ان کی پارٹی نے لاکھ چھپانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئی۔ سپریم کورٹ نے ایس بی آئی کو مجبور کیا کہ وہ 24گھنٹے میں الیکٹورل بانڈ کو الیکشن کمیشن کے ویب سائٹ پر لوڈ کردے۔ حیلہ بہانہ کرنے کے بعد ایس بی آئی کو چوبیس گھنٹے میں حلف نامے کے ساتھ سب کچھ ظاہر کرنا پڑا جسے ہر کوئی الیکشن کمیشن کے ویب سائٹ پر دیکھ سکتا ہے۔ اس معاملہ کے باہر آنے سے بی جے پی کی ساری بدعنوانی پکڑی گئی۔ بھتہ خوری، وصولی، زور زبردستی سے چندہ لینا اس کا پرچار بھی اپوزیشن پارٹیوں نے بڑے پیمانے پر کیا۔ وزیر اعلیٰ دہلی اروند کجریوال کی گرفتاری سے بی جے پی کی بدعنوانی کی رہی سہی کسر بھی طشت ازبام ہو گئی۔
کجریوال نے عدالت میں تقریر کرکے بتایا کہ کس طرح ان کی گرفتاری ہوئی۔ ان کے گواہ سرت ریڈی کی گواہی پر جس نے دس مرتبہ بتایا کہ کجریوال کو نہ وہ جانتا ہے اور نہ اس نے کسی قسم کی رشوت دی۔ سرت ریڈی کو گرفتار کیا گیا۔ شروع میں اس میں 5 کروڑ کا الیکٹورل بانڈ بطور چندہ بی جے پی کو دیا اور پھر قسط وار 55 کروڑ چندہ دیا اور اسے سرکاری گواہ بنا لیا گیا اور اسے ضمانت بھی دے دی گئی۔ اس طرح کے حقائق کجریوال نے عدالت میں پیش کئے جس کا کافی چرچا ہوا۔ ’انڈین ایکسپریس‘ نے 25 سیاسی لیڈروں کی ایک فہرست اپنے اخبار کی 3 اپریل کی اشاعت میں شائع کی جس میں بتایا کہ غیر بی جے پی پارٹیوں سے بی جے پی نے 25 بدعنوان سیاست دانوں کو اپنی پارٹی میں شامل کیا جس میں سے 23 لیڈروں کی بدعنوانی کے مقدمات کو بند ہی نہیں کیا بلکہ اپنی حکومتوں میں وزیر، نائب وزیر، وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ تک کا عہدہ سونپ دیا گیا۔ مودی جی لاکھ صفائی دیں لیکن ان کی صفائی کوئی کام نہیں آتی۔ ’انڈیا ٹوڈے‘ کے اینکر راہل کنول نے گزشتہ روز وزیر داخلہ امیت شاہ سے انٹرویو کے دوران پوچھ ہی لیا کہ آپ لوگ جن لوگوں پر بدعنوانی یا رشوت خوری کا الزام لگاتے ہیں لیکن جب اسے اپنی پارٹی میں شامل کرلیتے ہیں تو بالکل کلین چٹ دے دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں بی جے پی کو ’واشنگ مشین‘ سے تعبیر کرتی ہیں۔ ایسے سوال کی امید گودی میڈیا کے کسی اینکر سے امیت شاہ کو نہیں تھی۔ اس سوال پر امیت شاہ تلملا اٹھے اور ان کا چہرہ تمتما گیا اور وہ جواب دینے سے قاصر رہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بدعنوانی کا مدعا بھی زور پکڑ رہا ہے۔
19 اپریل کے الیکشن میں ووٹ فیصد 2014ء اور 2019ء سے کم رہی۔ عام طور پر جب ووٹنگ فیصد کم ہوتی ہے تو وہ حکمراں پارٹی کے لئے نقصاندہ ہوتی ہے۔ ایسا پچھلے 12 انتخابات سے پتہ چلتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے انہی حلقوں میں ووٹ دینے والوں کی تعداد کم ہوئی جن حلقوں میں بی جے پی کے امیدوار 2019ء میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی کے ووٹروں میں جوش پہلے جیسا نہیں رہا۔ 102 حلقوں میں پہلے کے مقابلے میں 60 لاکھ لوگوں نے ووٹ نہیں دیئے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسے پچاس لوکھ لوگ ضرور بی جے پی کے رہے ہیں جنھوں نے نہ بی جے پی کو ووٹ دیئے اور نہ کسی دوسری پارٹی کو ووٹ دینا مناسب سمجھا۔ دس لوگ ایسے بھی رہے ہوں گے جو گرمی اور سستی و کاہلی کی وجہ سے پولنگ بوتھ تک نہیں پہنچے۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ ’مودی میجک‘ کام نہیں کر ہی ہے۔ مودی کی جو لہر تھی وہ بی جے پی کے حق میں قہر میں تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔ دوسرے، تیسرے انتخابی مرحلوں میں یہ چیز اور بھی اجاگر ہوجائے گی۔ لوگ اب بی جے پی سے اکتا گئے ہیں اور تبدیلی کے خواہاں ہیں۔