محمد اخلاق کا خون رائیگاں نہیں جائے گاہاشم پورہ، گجرات، وٹولی سے دادری تک

محمد اخلاق کی شہادت پر بہت کچھ کہا اور لکھا جاچکا ہے۔

سیاسی جماعتوں کو ا یک نیا موضوع مل گیا ہے… کسی نے دکھ کا اظہار کرکے مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کی۔ کسی نے واقعہ کی مذمت تو کی تاہم ایکس گریشیا کی رقم پر تنقید کرکے ہندوتوا طاقتوں کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اقوام متحدہ کے ایوان نے تک دادری سانحہ کا کرب محسوس کیا۔ ’’بیف‘‘ کو بہانہ بناکر جو کچھ کیا گیا‘ وہ ناقابل معافی ہے۔ ایک منصوبہ بند طریقہ سے محمد اخلاق کا قتل کیا گیا تاکہ ہندوستانی مسلمانوں کو دہشت زدہ کیا جاسکے۔ قاتلوں اور دوسرے سازشی عناصر کی یہ بدنصیبی ہے کہ وہ منصوبہ بند قتل کے واقعہ کو ایک اتفاقی واقعہ ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ وہ ہندوؤں کی اکثریت کی تائید حاصل کرنے میں بھی ناکام رہے۔ کیوں کہ محمد اخلاق خود وطن پرست مسلمان ثابت ہوئے۔ یہ مادر وطن کی خدمات انجام دینے وا لوں کے ارکان خاندان کو نشانہ بنانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ جیسا کہ دنیا جان چکی ہے کہ شہید محمد اخلاق کے فرزند محمد سرتاج انڈین ایرفورس کیلئے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ایک اور فرزند دانش جو یو پی ایس سی کے امتحان کی تیاری کررہے تھے اب وہ موت و حیات کی کشمکش میں ہیں۔ وہ شاید ہی مکمل طور پر صحت یاب ہوسکیں گے۔ اگر ہو بھی جائیں تو نارمل زندگی گزاریں گے یا نہیں کہنا مشکل ہے۔ اس قدر اذیتناک سلوک، درندگی اور ناتلافی نقصان کے باوجود محمد سرتاج نے وہی کہا جو ہمیشہ سے ہندوستانی مسلمان کہتا رہا ہے۔ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا

Family of Mohammed Aklaq, a farm worker, who was lynched over alleged Beef consumption
Family of Mohammed Aklaq, a farm worker, who was lynched over alleged Beef consumption

دادری واقعہ کا جائزہ لیا جائے تو خودغرض، مفادپرست، احسان فراموش، فرقہ پرستوں پر لعنت بھیجنے کو جی چاہتا ہے۔ عید کے دن محمد اخلاق کے گھر دعوت اڑانے والوں نے تھالی میں کھاکر چھید لگانے کے محاورے میں قدرے ترمیم کی اور جسکی تھال میں کھایا اسی پر پتھر برسائے۔
مندر کے پجاری کانسٹبل، بی جے پی لیڈر کے بیٹے کے کرتوت تو منظر عام پر آہی چکے ہیں۔ وقت ہی بتائے گاکہ خاطیوں کو واقعی سزا ملے گی یا وہ کسی نہ کسی طرح قانونی شکنجہ سے باہر نکل آئیں گے۔ ان دنوں مسلمانوں کی یادداشت کمزور ہوتی جارہی ہے وہ بہت جلد بہت ساری تلخیوں کو فراموش کررہے ہیں یا اس کے لئے مجبور ہیں۔

دادری کا سانحہ جیسا کہ اوپر کہا گیا اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ سینکڑوں واقعات پیش آچکے ہیں۔ مسلم گھروں پر ہجوم کے حملے، قتل، خواتین کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات سے ہماری تاریخ کے اوراق آلودہ ہیں۔ ہاں مادر وطن کے لئے خدمات انجام دینے والوں کے ارکان خاندان کے ساتھ وحشیانہ سلوک کا ایسا ہی واقعہ 2005ء میں ضلع عادل آباد کے تعلقہ بھینسہ کے موضع وٹولی میں پیش آچکا ہے جہاں انڈور تبتن فورسس کے لئے خدمات انجام دینے والے سپاہی انور خان کے خاندان کے اچھ افراد کو پہلے قتل کیا گیا پھر ثبوت مٹانے کیلئے انہیں جلادیا گیا۔ اس وقت کی حکومت نے پہلے وٹولی سانحہ کو شارٹ سرکٹ کا نتیجہ قرار دیا تھا تاہم جب پوسٹ مارٹم کی رپورٹ منظر عام پر لائی گئی تو انکشاف ہوا کہ سپاہی انور خان کے چھ ارکان خاندان کو قتل کرنے سے پہلے ان پر تشدد کیا گیا۔ ہاتھ پیر توڑ دےئے گئے۔ پھر زندہ جلادیا گیا۔ سی بی آئی نکوائری کی مانگ کی گئی۔ سیاسی جماعتوں نے اس واقعہ کا بھی فائدہ اٹھایا۔ وقت گزر گیا۔ وٹولی سانحہ فراموش کردیا گیا۔

گجرات سانحہ کے دوران احسان جعفری کے ساتھ کس قدر اذیتناک سلوک کیا گیا‘ انہیں ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا۔ گجرات میں قانون جن ہاتھوں میں تھا وہ خود خون

 Mohammed Akhlaq_Dadri_Beef
Mohammed Akhlaq

میں رنگے ہوئے تھے۔ عدلیہ نے بھی ہمارے اعتماد کو متزلزل کرکے رکھ دیا۔ ہاشم پورہ (یوپی) میں روزہ دار مسلم نوجوانوں کو گولی مارکر ٹہر میں بہادینے کے خاطی بے قصور ثابت ہوگئے۔ اور آزاد فضاؤں میں سانسیں لینے لگے۔ جن مسل نوجوانوں کو فرضی من گھڑت الزامات کے تحت گرفتار کرکے جیلوں میں سڑایا گیا‘ بے قصور ثابت ہونے کے باوجود ان میں سے بیشتر رہا نہیں کئے گئے۔ کیوں؟ سوال تو یہ ذہن میں ہے‘ مگر نہ تو کوئی پوچھتا ہے اور نہ ہی کوئی سنتا ہے۔

بہرحال‘محمد اخلاق کے سانحہ سے ایک انقلابی تبدیلی ضرور آئی۔ غیر مسلم دانشوروں نے آواز اٹھائی، میڈیا کا نیم خوابیدہ ضمیر کسی قدر بیدار ہوا… پورے ملک میں غیر انسانی حرکت، وحشیانہ اقدام کی مذمت کی جارہی ہے۔ جسٹس کاٹجو، شوبھاڈے جیسی ہستیوں نے سینہ ٹھونک کر کہا ہے کہ وہ بھی بیف کھاتے ہیں۔ ہے ہمت تو آؤ انہیں ختم کرو۔ کیرالا سے تاملناڈو تک کے ہندو بھائیوں نے باقاعدہ بیف کھاکر محمد اخلاق کے قتل (شہادت) کے واقعہ پر اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا ہے۔ بیف یا بڑے کا گوشت مسلمان کی کبھی بھی کمزوری نہیں رہا۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہی ہوگا کہ اگر بڑے جانور کا ذبیحہ نہ ہوا تو معاشی تنگدستی کا شکار ہونے والوں کی بڑی تعداد غیر مسلم حضرات کی ہوگی۔ چاہے وہ کاروباری ہوں کے ایکسپورٹرس، ان کی تعداد ہم سے کہیں زیادہ ہے۔ بڑے جانوروں کے ذبیحہ پر اگر واقعی پابندی عائد کی جائے تو ہندوستان ہی نہیں سرکردہ ایکسپورٹس کمپنیاں دیوالیہ ہوجائیں گی۔ مسلم نام سے قائم بیشتر بیف ایکسپورٹرس غیر مسلم ہی ہیں۔ ہندوستان میں تو دکھاوے کے لئے پابندی عائد ہوبھی جائے تو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے غیر مسلم این آر آئیز کیا کریں گے۔

ہوٹلس، ریسٹورانوں میں تو یہی سب کچھ استعمال ہوتا ہے۔ خیر چھورےئے! ہر سال بقرعید سے پہلے بڑے جانوروں کے ذبیحہ پر سیاست ہوتی ہے۔ بعض اشرار نے ’’گؤ رکھشا‘‘ کے نام پر تنظیمیں قائم کرکے آمدنی کے وسائل پیدا کرلئے ہیں جو مقامی راشی پولیس والوں سے ساز باز کرتے ہوئے بقرعید کے موقع پر کاروبار کرنے وا لوں کو ہراساں اور پریشاں کرتے رہتے ہیں۔ ہر سال یہ تاریخ دہرائی جاتی ہے۔ اس سال مہاراشٹرا نے جین تیوہار کے موقع پر بیف کے ذبیحہ پر امتناع عائد کرتے ہوئے ایک نیا تنازعہ پیدا کیا تھا۔ دادری میں جو کچھ ہوا اس کے محرکات سے دنیا واقف ہوچکی ہے۔ مندر کے پجاری کا رول مشکوک رہا ہے۔ اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ مظفرنگر کے دنگوں میں بھی وہ مظفرنگر میں موجود تھا۔ اور بھی کئی افراد کئی زہریلے عناصر بے نقاب ہوئے ہیں۔ فرقہ پرستوں نے جو کرنا تھا کردیا۔ مگر اس کا خمیازہ ان کے سرپرست قائدین اور ان کی جماعتوں کو بھگتنا پڑے گا کیوں کہ پہلی بار ہندوستان کے باشعور عوام نے مذہبی خطوط سے بالاتر ہوکر اس واقعہ کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ ایک ایسے وقت جب وزیر اعظم نریندر مودی بین الاقوامی سطح پر اپنی امیج کو بہتر بنانے کیلئے کوشاں ہیں‘ عالمی قائدین کے شانہ بشانہ چلنے کی جدوجہد کررہے ہیں‘ اندرون ملک اس قسم کے واقعات سے ان کی شبیہ متاثر ہوچکی ہے۔ ایک تو ہر بدبختانہ واقعہ میں ان کی پارٹی کے ارکان ملوث پائے جاتے ہیں دوسرے ان کی معنی خیز خاموشی کا غلط مفہوم لیا جاسکتا ہے۔ اپنی امیج کو بہتر بنانے کی خاطر انہیں اب ان راستوں سے ہٹ کر چلنا ہوگا جن پر ابھی تک چلتے ہوئے یہاں تک پہنچے تھے۔

محمد اخلاق کا واقعہ ’’بڑے گوشت کی آڑ میں‘‘ فرقہ پرست عناصر کی کمینگی، ذلالت، وحشت و بربریت کی انتہا تھی… اور جب کوئی شئے انتہا پر پہنچ جاتی ہے تو وہاں سے اس کی شدت میں کمی پیدا ہونے لگتی ہے۔ آنے والے برسوں میں ’’گوشت‘‘ کے نام پر ڈھائے جانے والے مظالم کا سلسلہ ختم ہوکر رہے گا اور جب ایسا ہوگا تو ہندوستانی مسلمان محمد اخلاق کو یاد کریں گے جن کے خون سے مستقبل کے ہندوستان کی نئی تاریخ لکھی جائے گی… انشاء اللہ

The article was originally published in the print issue of Gawah Urdu Weekly (accessible at epaper.gawahweekly.com)

About Gawah News Desk

Check Also

دو نابالغ بھائیوں کاقاتل ملزم واقعہ کے صرف دو گھنٹے بعد ہی انکاؤنٹر میں ہلاک

اتر پردیش کے بداویوں ضلع میں دو کمسن بھائیوں کے قتل اور پھر مبینہ پولیس …

ڈاکٹر محمد خواجہ مخدوم محی الدین

انچار ج صدر شعبہ اُردو ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اوپن یونیورسٹی ڈاکٹر محمد خواجہ مخدوم …

Leave a Reply