Sunday , December 22 2024
enhindiurdu

لوک سبھا عام انتخابات کامنظر نامہ

کرہ ارض کے سب بڑے جمہوری ملک ہندوستان میں آزادی کے بعد سے بہت اہم 18 ویں پارلیمانی انتخابات کا آئندہ 40 دنوں میں 540 پارلیمانی نشستوں کے لئے ووٹنگ کا عمل تکمیل پائے گا۔سیکولر پارٹیوں اور کٹر ہندوتوا نظریات کی حامل حکمران سیاسی پارٹی بی جے پی کے درمیان سخت ترین مقابلہ ہے۔ بی جے پی کے عہد میں طلباء‘ کھلاڑیوں‘ اقلیتوں کے حقوق اور آزادی پر قدغنتے لگاتے ہوئے اُن کے مفادات پر ضرب کاری کی گئی۔ جی یس ٹی سے لے کر تعلیمی نظام ہے سیول و تعزیرات ہند CRPC کے اور دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر کو ایک کھلی جیل بنا دیا گیا۔ اپوزیشن لیڈرس کو جیلوں میں ٹھوسہ جارہا ہے۔ اس وقت دو چیف منسٹرس اروند گجروال اور سوریہ موہن جیل میں مقید ہیں۔ ED اور CBI کے دھاؤں نے کئی اہم اپوزیشن قائدین کو بی جے پی میں شامل ہونے کے لئے مجبور کر دیا ہے۔اپوزیشن جماعتوں کو ہر سطح پر کمزور کیا جارہاہے۔ اپنی کھلی سیکولر و سوشل فکر رکھنے والے کئی دانشوروں‘ پرو فیسرس‘ صحافی‘ وکلاء‘ طلباء و کسان قائدین اورا قلیتی مذہبی‘ سماجی و سیاسی قائدین کے ساتھ بد تر ین انتقامی کا روائیاں کی جاتی رہی ہیں۔لیچنگ کے بعد حکومت نے بلڈوز کی سیاست کا ظالمانہ و جابرانہ طریقہ کار استعمال کرنا شروع کیا چند کارپوریٹ ہاوئس کے مفاد میں ملک کی معیشت تباہ و برباد کر دی گئی۔
ہر وہ شدت و انتہا پسندی کا کام کیا گیا جس سے عوام میں وحشت اور دہشت پھیلے۔ پارلیمانی انتخابات 24 اسلئے بھی اتنا اہم ہو گیا کہ خود وزیر اعظم مودی اور بی جے پی کے سر کردہ قائدین بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ اب کی بار 4 سو سے پار اور دستور ہند کے پورے نظریہ اور اسٹیکچر میں بنیادی تبدیلی لانے کی بات کی جارہی ہے۔
ریاستوں اور عام انتخابات کے ایک ہی وقت الیکشن کروانے ایک ملک‘ایک الیکشن کے نظریہ کو فروغ دیا جارہا ہے۔ سیکولر سیاسی جماعتیں گو کہ اکثریت میں ہیں لیکن بکھرے ہوئے ہیں آپس میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ انڈیا الائنس بہت کمزور ہے۔ ہندوستان کی سیول سوسائٹی اس جنونی شدت پسند سیاسی سو نا می پر روک لگانے کیلئے آر پار کی لڑائی انتخابات کے ذریعہ لڑرہی ہے۔ ملک کے یہ 18ویں انتخابات مستقبل میں بہت بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں۔
18ویں پارلیمانی انتخابات 24 میں % 96.8 کروڑ ووٹرس اپنے ووٹ کا استعمال کر یں گے جس میں 49.7 کروڑ مرد اور 47.1% کروڑ عورتیں شامل ہیں۔کم عمر نوجوانوں میں صرف 38% لوگوں نے ہی ووٹر لسٹ میں اپنا نام درج کروایاہے۔ ہندوستان میں ہونے والے انتخابات کا جائزہ لیں تو حیران کن اعداد و شمار ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں جملہ دس لاکھ 50ہزار پولنگ بوتھس قائم کئے جائیں گے۔ یہ پہلی مرتبہ (/19 اپریل تا /3 جون 24) 42 دن طویل 7 مراحل میں الیکشن منعقد کئے جارہے ہیں۔ پہلے 20 دنوں میں انتخابات کا عمل پورا کر کے نتائج کا بھی اعلان کر دیا جاتا تھا۔ ماہرین و مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک میں جتنا طویل الیکشن ہوگا اتنا ہی کرپشن و بدعنوانیوں کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ ٹی وی و یو ٹیوب پر جاری مباحث میں جو بات کھل کر سامنے آرہی ہے وہ یہ حکمران سیاسی جماعت کو اس طویل مدتی انتخابات کا راست فائدہ اس طرح ہوتا ہے کہ ایک مخصوص علاقے میں الیکشن کو ڈ عائد ہو تا ہے تو دوسرے تمام علاقوں میں الیکشن کمیشن جاری رہتا ہے۔ حکومت کی مشنری اور میڈیا‘ بی جے پی کیلئے میڈیا میں اپنا پروپگنڈہ چلاتے رہیں گے اور دوسرے تیسرے چوتھے پانچویں چھٹے اور ساتویں انتخابی مراحل پر اس کے راست اثرات ووٹروں کے ذہن پر پڑینگے۔ ووٹ کا 2 تا 3 فیصد ٹرن آؤٹ نتائج پر اثر ہو کر موجودہ رولنگ پارٹی کو تیسری مرتبہ سے حکومت پر سرفراز کر سکتے ہیں۔
اس عام 18ویں انتخابات 24 میں 4 لاکھ گاڑیوں کا استعمال ہو گا۔ 55 لاکھ EVM مشینوں کا استعمال ہو گا۔یعنی اوسطً ہر پارلیمانی حلقے انتخاب میں 10185 EVM کی سہولت ووٹروں کے لئے فراہم کی جارہی ہے۔ عام انتخابات 24 پر جملہ ایک لاکھ 20 ہزار کروڑ یعنی (1.2 ٹریلین روپیہ) کے مصارف عائد ہو ں گے۔ اس میں الیکشن کمیشن 20% فیصد خرچ کر تا ہے اور ما باقی سیاسی پارٹیاں خر چ کرتیں ہیں۔
بی جے پی10 سال کے طویل دورِ حکمرانی میں عین انتخابات کے وقت چیف جسٹس آف انڈیا مسٹر ڈی وائی چندرا جوڑ کے تیور کچھ بدلے اور عدل و انصاف کے نظام کو صاف و شفاف نفاذ بنانے کے لئے سخت جد وجہد کر رہے ہیں۔ بی جے پی سرکار نے بڑے اور انفرااسٹکیچر کمپنیوں اور کارپوریٹ ہاؤس سے زبردستی عطایات کی وصولی کے لئے الیکٹورل باونڈس کا ایک سیاہ قانون 161A بنایاتھا اور لاکھوں کروڑ کے الیکشن باونڈس کی فروختگی کے نام سیاہ آمدنی اکٹھا کرلی۔ جسٹس چندر جوڑ کے بنچ پر اس طرح کے قانون کو کالعدم قرار دے دیا گیا ایک بعد ایک عوامی حرفوں (PIL) Public Interest Litigation کے مقدمات میں منصفانہ فیصلے صادر کئے جارہے ہیں۔اپوزیشن کا کہنا ہے کہ جب بھی ملک میں عام انتخابات آتے ہیں یا پھر انتخابات کے تواریخ کا اعلان کیا جاتاہے جس میں ایسے واقعات یا ہندو تہوار اور حادثات ہوتے یا کروائے جاتے ہیں۔ جس سے ہندومسلم نفرت کی آگ میں مزید تیل جھڑکا جاتا ہے اور راتوں رات ہندو جذبات و حساسیت انتہا تک پہنچ جاتی ہے مجموعی ووٹرس کے ٹرن اوٹ میں اچانک اضافہ ہو جاتا ہے۔
تعلیمی یافتہ طبقہ کو اچھی طرح یاد ہے2019 کے لوک سبھا انتخابات سے عین ایک ماہ پہلے /14 فروری19کو پھلو اما کشمیر میں دہشت گرد حملہ ہوا جس میں CRPF کے 40جوان شہید ہو گئے تھے۔ اس کے کچھ دن بعد بالا کوٹ پاکستان پر انڈین ائیر فورس نے ائیراسٹرائیک کی تھی۔ سابق گورنر جموں و کشمیر ستیہ پال ملک بار بار اپنے بیانات میں اسے جعلی دہشت گرد (Synthetic Attack)حملہ قرار دیتے ہیں۔ انکا ہمیشہ سے مطالبہ رہا ہے بی جے پی حکومت فوج اور عدالت کے ذریعہ شفاف انکوائری کیوں نہیں کرائی جاتی ہے۔ پھر جب انتخابات 19 کا آغاز ہوا تو سری لنکا میں /21اپریل 2019 کو سیریز بم بلاسٹ ہو ئیہیں اس میں تقریباً 400 شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ اس دن شام تک نریندر مودی نے یہ بیان دے دیا کہ اس میں کیر لا کے مسلم دہشت گرد نوجوان شامل ہیں۔ چند ماہ بعد سری لنکن حکومت نے یہ بات صاف کر دی کہ ایک بھی ان سیریز بم بلاسٹ میں مسلم حملہ آور شامل نہیں تھا۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکانے میں کہیں کوئی کسرباقی نہیں رکھی جاتی ہے۔ 2019 کی طرح 2024 کے انتخابات کی تواریخ بھی ان دنوں میں طئے کی گئی جب کہ ہندو تہوار یا ہندؤں کی دھارمک تقریبات ہورہے ہوتے ہیں۔ /22 جنوری24 کو بڑے زبردست پروپگنڈہ کے ساتھ بابری مسجد کی جگہ ایک عظیم رام مندر کا افتتاح کیا گیا۔ پھر چند دن بعد ابوظہبی میں تعمیر کردہ جزیرۃ العرب کی پہلی مندر کا افتتاح وزیر اعظم نے خود کیا۔ /19 اپریل کو پہلے مرحلے میں یعنی جملہ 21 ریاستوں میں 102 نشستوں پر انتخابات منعقد ہو ئے ہیں۔ٹامل ناڈو میں ایک ہی دن میں تمام 39 نشستوں پر انتخابات منعقد کئے گئے۔مابقی441 نشستوں کی ووٹنگ آئندہ 6 مراحل میں منعقد کی جارہی ہے۔ دوسرے مرحلہ میں 89‘ تیسرے مرحلہ میں 94‘چوتھے مرحلہ میں 96‘ پانچویں مرحلہ میں 49‘ چھٹے مرحلہ میں 57 اور آخری ساتویں مرحلے میں 57 نشستوں پر ووٹ ڈالے جائیں گے۔یہ /17 اپریل 2024 رام نومی تہوار کے بالکل ایک دن بعد پہلے مرحلے کے انتخابات منعقد ہوئے۔ ملک میں بی جے پی اور RSS رام نومی شوبھا یاترا نکالے زعفرانی رنگ کے پرچوں جھنڈیوں‘ سٹرکوں پر بیانرس‘ شوبھا یاترا میں سارے ملک کے ماحول کو زعفرانی بنادیا گیا تھا۔ لیکن اس مرتبہ رام نومی پھیکی پھیکی نظر آرہی تھی۔ آسام کے جلسہ عام میں رام نومی کے دن وزیر اعظم نریندر مودی جئے سری رام کا نعرہ لگائے‘ رام نومی بڑی ہی پُرامن گذرگئی۔ ایک سروے کے مطابق دو تا 8 فیصد ووٹرس رام کے نام پر ووٹ کا استعمال کرتے ہیں۔صبر سے الیکشن کے مزید مراحل کا انتظار کرنا پڑے گا امید ہے کہ وہ خیر وخوبی سے بلا کسی ہنگاموں سے گذر جائیں گے۔ لیکن /17 اپریل کو ایک خبر سامنے آگئی کہ چھتیں گڑھ میں نکسلائٹس کیساتھ پولیس کی مدبھیڑ ہوئی 29 نکسلائٹس انکاؤنٹر میں ہلاک ہو گئے اس طرح کے حادثات کا آئندہ 40 دنوں میں ہوناکوئی تعجب خیز بات نہیں ہو گی
EVM کو لے کر ملک میں سیول سوسائٹی زبردست احتجاج کر رہی ہے اور الیکشن کمشنر پر دباؤ بنائے رکھے ہوئے ہیں‘ ایک سروے اور تحقیقاتی ادارے CSDC کے سروے کے مطابق ہندوستان کے 50% ووٹرس (یعنی43 کروڑ) کو EVM پر اعتماد نہیں ہے۔
چیف الیکشن کمشنر مسٹر Rajiv Kumar راجیو کمار نے اپنے ایک پریس کانفرنس میں تمام الزامات کو ردّ کر تے ہوئے کہا کہ کوئی بھی فرد اُٹھتا اور بلا وجہہ EVM پر اعتراض کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک 40 مقدمات مختلف عدالتوں میں EVM کو لے کر دائر کئے گئے تھے سب کے سب خارج کر دیئے گئے حالانکہ حال ہی میں دائر کردہ اس طرح کی پٹیشن پر دہلی ہائی کورٹ نے 10ہزار کا جرمانہ عائد کیا اور انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک مفصل کتاب ترتیب دے کر جاری کی ہے اس میں تمام چھوٹی بڑی تفصیلات درج کردی گئی ہیں۔اس طرح کے اعتراضات پر کوئی توجہہ دینا وقت اور پیسہ کی خرابی ہے۔
2014 سے EVM کو لیکر درجنوں مقدمات سپریم کورٹ میں التواء ہیں پڑے ہوئے ہیں۔ کوئی سنوائی کرنے والا نہیں ہے۔ البتہ EVM کے ذریعہ ووٹ کے استعمال کے وقت جو پرچی پرنٹ آؤٹ ووٹر کا چھوٹے باکس میں گرتا ہے اسے لے کر ملک کے نامور وکلاء پٹیشن داخل کی تھی۔جس کا فیصلہ18اپریل 24 کو سنا دیا گیا۔
سیول سوسائٹی کے ایک سر کردہ ریٹائرڈ آئی اے ایس آفیسر M.J.Deve نے EVM پر کئی سنجیدہ سوالات اٹھائیں ہیں ایک یوٹیوب نٹ ورک 4pm نیوز پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ 60 ریٹائرڈ سینئر آئی اے ایس آفیسروں‘ دانشوروں‘ صحافیوں پر وفیسرس نے الیکشن کمیشن کو ایک بڑا کئی صفحات پر مشتمل کھلا خط لکھا جس میں EVM کی کارکردگی اور ووٹنگ فیصد میں الٹ پھیر سے واقف کروایا گیااور RTI میں EVM کے متعلق 17 سوالات مانگے گئے۔ ایک ماہ گذر گیا لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔ اس کے بعد راست چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کی بلکہ الیکشن کمشنر نے کھلا جھوٹ بولتے ہوئے انکار کر دیا کہ ایسا کوئی خط ہمیں وصول نہیں ہوا۔ چیف کمشنر Rajive Kumar سے ملاقات کی تو انہوں نے ٹال مٹول کرتے ہوئے کوئی بھی جواب دینے سے احتراز کیا۔ سیول سوسائٹی کے اُٹھائے گئے 17 سوالات میں سے 6 سوالات اس طرح سے ہیں:
1) EVM تین مختلف یونٹس کو ملا کر کام کرتا ہے۔ BEL‘ FCIL کی جانب سے تیار کردہ یونٹس کی شفافیت اور ٹھیک ٹھیک کارکردگی کا سر ٹیفکیٹ آخر کون سی اتھاریٹی جاری کرتی ہے؟
(2 گذشتہ انتخابات 2019 میں 80لاکھ ووٹوں کو ناکارہ قرار دیا گیا تھا۔ صرف 5% EVM سلپ کی گنتی کی جاتی ہے۔ تمام پارلیمانی حلقے کے EVM کی گنتی کیوں نہیں کی جاتی۔ تمام ڈالے گئے پرچیوں کی گنتی کیوں نہیں کی جاتی۔
(3 ہر حلقہ انتخاب میں ووٹنگ سے ایک دن قبل دو

انجینئرس یا نمائندے آتے ہیں وہ امید واروں کے نام اور Symbol مشین میں لوڈ کر تے ہیں۔ ان کی کیا حیثیت ہے یہ کون ہیں کس کمپنی کے پرائیوٹ ملازمین ہیں یا پھر حکومت کے نامزد کردہ ملازمین ہیں‘ان پر کس طرح بھروسہ کیا جاسکتا ہے
(4 ہر حلقے پارلیمنٹ کے جملہ ووٹنگ مشین سے 5% حاصل شدہ ووٹرس کی تمام پرچیاں صرف 4 ماہ کے درمیان جلا دی جاتی ہیں۔پہلے ڈالے گئے ووٹس سالہا سال تک محفوظ رکھے جاتے تھے۔
(5 2019 کے انتخابات میں 20 لاکھ مشینوں میں خرابی نکلی اور غائب کردی گئیں۔ ہر ریاست سے یہ شکایتیں وصول ہو تی ہیں 10‘20 ہزار EVM مشین کسی اور نجی پارٹی کے اسکول‘ یا گوڈان میں کھلے ہوئے EVM چوری سے رکھے ہوتے ہیں۔خود ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے اسٹاونگ رومس سے مشینوں کے غائب ہونے کی شکایت عام ہیں
(6 انہوں نے کہا کہ قاعدے کے مطابق 17A ہر ووٹر کا نام اور دستخط رجسٹر میں ہو نا چاہیے۔ ڈالے گئے ووٹوں کو 17C قاعدہ کے مطابق تنقیح کی جائے کہ دونوں ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں۔ EVM کی ووٹوں کی گنتی اکثر جگہ 17A کے مطابق رجسٹر میں درج ہو تے ہیں‘ ووٹروں سے کئی گناہ زائد پائے جارہے ہیں‘ شکایت کرنے پر الیکشن کمیشن کوئی کاروائی کرنے تیار نہیں ہوتا۔ گذشتہ الیکشن میں داخل کئے گئے شکایات کی پارلیمانی میعاد ختم ہو گئی لیکن کوئی سنوائی کرنے والا نہیں ہے
M.J.Deve کا کہنا ہے کہ جمہوریت میں حکومت عوام کی مرضی سے بننے چاہیے اور اس کے اصل Stake Holder عام ووٹرس ہیں۔ مشینوں کی اُلٹ پھیر کے ذریعہ ہندوستانیوں پر یہ فیک الیکشن کے نتائج کیوں تھوپے جارہے ہیں۔ عوام کے مطالبات اور خواہشات کے مطابق ووٹنگ کا صاف و شفاف عمل ہونا چاہئے۔ ورنہ فاسسٹ کریٹ سیاسی پارٹیاں اسے ایک Dictatorial Democracy بنا دیں گے اور کئی کئی دہوں تک حکومت پر زبردستی قابض ہو جائینگے جس سے ملک کی بڑے پیمانے پر تباہی ہو گی۔
اب کی مرتبہ یو پی کے 80نشستوں پر بی جے پی کا قبضہ مشکل نظر آرہا ہے۔ ٹھاکروں کی 4 ریاستوں گجرات‘ راجستھان‘ یو پی مدھیہ پردیش میں مخالف بی جے پی لہر چل رہی ہے۔ بی جے پی کو جو نقصان ہونے والا ہے حکمت عملی کے مطابق بی جے پی وہ جنوبی اور مشرقی ریاستوں سے پورا کرنا چاہتے ہے۔ گوا کے عیسائیوں کے مذہبی پیشوا کارڈینل فیر ارو کی اپیل ہے کہ وہ سیکولر اُمیدوار کو ووٹ دیں۔ مسلمان اکثریتی حلقوں میں ایک نشست کیلئے کئی کئی مسلم اُمید وار میدان میں آ گئے ہیں‘ ذاتی مفادات کی وجہ سے اکثریتی مسلم حلقوں سے بی جے پی کے اُمیدواروں کا کامیاب ہونا یقینی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس الیکشن کو بھی مسلمان آپسی اختلافات کی نذر کرکے پھر سے شدید سیاسی نقصان اُٹھانے والے ہیں۔

About Gawah News Desk

Check Also

کیا مودی لہر قہر میں تبدیل ہورہی ہے؟

انتخاب کے پہلے مرحلے کی ووٹنگ سے بی جے پی میں گھبراہٹ عبدالعزیز9831439068لوک سبھا انتخاب …

بی جے پی ہٹاؤ۔ دیش اور دستور بچاؤ

مولانا سجاد نعمانی کا حیدرآباد میں خطاب۔ رپورٹ محمد حسام الدین ریاضہندستان کے ممتاز ومایہ …

Leave a Reply