ڈاکٹر ناصر حسین رکن راجیہ سبھا کا گواہ کو انٹرویو
2023ء میں تلنگانہ اور 2024ء میں ان شاء اللہ دہلی میں کانگریس کی حکومت ہوگی۔ یہ دعویٰ ڈاکٹر سید ناصر حسین رکن راجیہ سبھا نے گواہ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کیا۔ ڈاکٹر ناصر حسین کانگریس کے قدآور مسلم قائدین میں شمار ہوتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں‘ انٹرنیشنل اسٹیڈیز میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی۔ ان کے بارے میں یہ با مشہور ہے کہ وہ پیدائشی لیڈر ہیں۔ کیوں کہ وہ اسکول سے لے کر جواہر لال نہرو یونیورسٹی تک الیکشن لڑتے رہے اور جیتے رہے۔ ایک بہترین مقرر ہیں جن کا مطالعہ بے حد وسیع ہے۔ قومی مسائل پر گہری نظر ہے اور ملی مسائل سے بخوبی واقف ہیں۔ راجیہ سبھا میں کانگریس کے وہپ ہیں۔ تلنگانہ میں انتخابات کے سلسلہ میں وہ ریاست کے مختلف علاقوں کے دورہ پر ہیں‘ اور عوام سے اِن کا راست رابطہ رہا۔ انہوں نے کانگریسی قائدین اور اقلیتی طبقہ کے درمیان ایک پُل کا کام انجام دیا۔ اپنے خصوصی انٹرویو میں ڈاکٹر ناصر حسین نے کہا کہ گزشتہ انتخابات اور اب کے انتخابات میں بہت فرق ہے۔ اس وقت کانگریس کے حق میں پوری ریاست میں تبدیلی کی لہر چل رہی ہے۔ ہر فرد چاہتا ہے کہ ایک ایسی تبدیلی آئے جس میں عوام کو گھٹن محسوس نہ ہو۔ صرف مسلمان ہی نہیں‘ ہر طبقہ کا فرد موجودہ حکومت سے بیزار ہے۔ کرناٹک کے حالیہ انتخابات کے نتائج کا بھی اس پر کافی اثر ہوا ہے۔ جس طرح کرناٹک میں سیکولر عوام متحد ہونے سے فرقہ پرست طاقتیں اقتدار سے بے دخل ہوئی ہیں‘ وہ تاریخ تلنگانہ میں دہرائی جائے گی۔ اس وقت پورے ملک کی نظر تلنگانہ پر ہے۔ اگر کانگریس تلنگانہ میں اقتدار حاصل کرلے تو پھر دلّی دور نہیں!
ڈاکٹر ناصر حسین نے بتایا کہ اس وقت عوام کو شدت کے ساتھ یہ احساس ہوگیا ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں نے اپنے مفادات کے لئے دیش کا بٹوارہ کردیا۔ بالکل اُسی طرح جس طرح مذہب کے نام پر آزادیئ ہند کے موقع پر بٹوارہ ہوا تھا۔ آج کے حالات اُس سے زیادہ بدترین ہیں۔ عوام کی اکثریت جو اس ملک سے محبت کرتی ہے‘ جو سیکولر ہے‘ آپس میں بھید بھاؤ نہیں ہے‘ جو صدیوں سے مل جل کر رہتی آئی ہے‘ وہ فرقہ پرست طاقتوں کے ناپاک عزائم سے پوری طرح واقف ہوچکی ہے۔ یہی احساس ایک نئی تبدیلی کا ضامن ہے۔
اِس وقت پانچ ریاستوں میں سے تلنگانہ کا انتخاب باقی رہ گیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ تمام ریاستوں میں نتائج کانگریس کے حق میں ہوں گے۔ تلنگانہ پر اس لئے توجہ ہے کہ اگر کرناٹک کے بعد تلنگانہ میں کانگریس کے اقتدار کا مطلب یہاں کے دروازے بی جے پی کے لئے ہمیشہ کے لئے بند ہوجائیں گے۔ اور یقینی طور پر ایسا ہی ہونے والا ہے۔
ڈاکٹر ناصر حسین جنہوں نے CAA اور NRC پر راجیہ سبھا میں سب سے پہلے سوال اٹھایا اور جس کا جواب امیت شاہ نے دیا جس کے بعد جامعہ ملیہ میں ہنگامہ ہوا تھا۔ کسانوں کے لئے احتجاج پر بھی معطل کئے گئے تھے۔ انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کے مسلم ارکان کو اپنے گھر پر مدعو کرکے حساس ترین مسئلہ پر متحد ہونے کی راہ ہموار کی تھی۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اس وقت ہندوستانی مسلمان خود کو محفوظ نہیں سمجھ رہا ہے۔ ایک ڈر اور خوف کا ماحول پیدا کیا گیا ہے کبھی ٹوپی، کبھی داڑھی، کبھی نام پوچھ کر، کبھی کسی کی ٹفن باکس میں مٹن کو بیف بتاکر ماب لنچنگ کی جارہی ہے۔ اس ماحول سے قوم کوباہر نکالنا سب سے زیادہ اہم ہے۔ اور کانگریس یہ کام کررہی ہے۔ اگر اقلیتیں کانگریس کا ہاتھ تھام لے تو پھر یہ مضبوط ہاتھ فرقہ پرستی کوختم کرسکتا ہے۔ اس کے لئے شروعات کرناٹک سے ہوئی۔ تلنگانہ اہم منزل ہے‘ اگر تلنگانہ میں 70سے زائد نشستو پر کانگریس کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر اس کا سفر آسان ہوگا۔ تمام مراحل طے ہوتے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی اور بی آر ایس ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہے اور ایم آئی ایم بی آر ایس کی حلیف ہے۔ بی جے پی نے اس ملک کو کنگال بناکر رکھ دیا ہے۔ اور بی آر ایس نے بھی اقلیتوں کے ساتھ کئے گئے وعدوں کی تکمیل نہیں کی۔کانگریس نے اپنے ماضی کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اور جواں سال قیادت میں کانگریس نئی توانائیوں، نئے جوش اور جذبے کے ساتھ ہندوستان کے سیکولر کردار اور دستور کے تحفظ کے لئے آگے بڑھ رہی ہے۔
راہول گاندھی کے ’بھارت جوڑو ابھیان‘ نے پورے ملک میں ایک نیا جوش پیدا کیا۔ عوام کو احساس ہوگیا ہے کہ ایک ہوکر رہنے سے ہی اس ملک کا بھلا ہوگا۔ڈاکٹر ناصر حسین نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ تلنگانہ کے کانگریس کا ہر امیدوار پارٹی کے لئے اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی کوشش یہی ہے کہ ہر امیدوار کامیاب ہو۔ اگر بعض حلقوں سے کامیاب نہ بھی ہوسکیں تو اپنے اثرات کے نقوش چھوڑ سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ کل ہند سطح پر کانگریس کا بوتھ مینجمنٹ بہت ہی موثر ہے۔ کانگریس کی قیادت اپنے ارکان سے رابطہ میں ہے‘ اور ہر ممبر چاہتا ہے کہ کانگریس واپس آئے اور سنہرا دور لوٹ آئے۔
ڈاکٹر ناصر حسین نے بتایا کہ اقلیتوں کے مسائل سے وہ پوری طرح واقف ہیں اور وہ اسے کانگریس ہائی کمان کے سامنے رکھنے میں کبھی پس و پیش نہیں کرتے۔ کانگریس کی قیادت اقلیتوں کے مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے اور اس کا اقلیتی منشور اس کا ثبوت ہے۔ بی جے پی اور بی آر ایس نے وعدے کئے‘ دعوے کئے‘ عملی میدان میں ان کا مظاہرہ صفر رہا۔ کانگریس نے کرناٹک میں اقتدار سنبھالتے ہی اپنے وعدوں پر عمل آوری شروع کردی۔ تلنگانہ میں بھی ایسا ہی ہوگا۔ صرف عوام کو خود اپنی اہمیت کا اندازہ اور احساس ہونا چاہئے۔ جذباتی تقریر اور بلند و بانگ دعوؤں سے متاثرہ مسلم اقلیت دوسری اقلیتی طبقات سے بہت پیچھے ہے۔ ہم 21ویں صدی میں انفارمیشن ٹکنالوجی، آرٹیفیشل انٹلیجنس کے دور میں جی رہے ہیں۔ یہ جذباتی تقاریر سے متاثر ہونے کا دور نہیں بلکہ فیکٹ چیکنگ کا دور ہے۔ نوجوان نسل بہت ذہین ہے‘ موجودہ اور پیشرو نسل کے مقابلے میں ان کا IQ بہت زیادہ ہے۔ وہ ہر بات کو اپنے طور پر پرکھتی ہے اور اس پر عمل کرتی ہے۔