Sunday , December 22 2024
enhindiurdu

امین سیانی: اپنا پن کی وہ آواز یاد آتی رہے گی

محمد اعظم شاہد
آدمی مسافر ہے آتا ہے جاتا ہے/ آتے جاتے رستے میں یادیں چھوڑ جاتا ہے۔ مشہور براڈ کاسٹر منفرد آواز کے جادوگر امین سیانی اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ مگر ان کی یادیں اور انکی سحر انگیز آواز برسوں ہمیں اُن کی یاد دلاتی رہے گی۔ دینا کے کسی بھی کونے میں اُن کے مداح جب کبھی بھی اُن کی اپنائیت سے بھرپور آواز سنے گے، انسے جڑی یادیں، اُن کی شخصیت، آواز کا وہ کھنکتا ہوا بانکپن یاد آجائے گا۔ سننے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے فن میں ماہر امین صاحب آواز کے گراف یعنی الفاظ کی ادائیگی میں نشیب و فراز سے بخوبی واقف تھے۔ ’بہنو اور بھائیو‘ ہر پرگرام کے آغاز یں ان کا یہ انوکھا انداز تخاطب ان کا Signatureاسٹائل بن گیا۔ نہ جانے کتنے لوگ جو ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اشتہاری جنگلس اور فلموں کیلئے اپنی آواز دیتے ہیں وہ سب امین سیانی کی تقلید کرتے رہے۔ کہنا چاہیے کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ جہاں بھی اردو ہندی بولنے سننے والے بستے ہیں وہاں امین سیانی اور ان کی آواز ایک خاص پہچان بن گئی تھی۔ تاہم گم جائے گا/ چہرہ یہ بدل جائے گا/ میری آواز ہی پہچان ہے گریاد رہے۔ جی ہاں امین سیانی کا نام ہی نہیں اُن کا مسکراتا چہرہ اور دلوں پر دستک دینے والی ان کی سحر انگیز آواز بھی برسوں یاد رہیگی۔ ترسیل کے معاملے میں ان کی آواز کو کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا رہا ہے۔ آپ نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لئے کئی وائس آرٹسٹ یوں کہنا چاہیے کہ آواز کی دنیاکے لئے میزبانوں (Radio and TV Hosts)کا ایک کارواں تشکیل دے دیا۔ آواز کے میڈیم سے آپ نے اپنی لائف تحسین اور باعث تقلید کارکردگی کے کئی نقشِ میل (ریکارڈز) قائم کئے۔ اور آج اس میدان کے سبھی آرٹسٹ آپ کو اپنا ماڈل، آئیڈیل مانتے ہیں، اور سینکڑوں سننے والوں کی پسندیدہ آواز بنے رہے امین صاحب سنہری آواز کے لیجینڈ، کے طور پر ایک دلکش تاریخ رقم کرنے میں کامیاب گزرے ہیں۔ مجھ جیسے ان کے لاکھوں قدردانوں کو ان کی آواز مسحور کیا کرتی رہی۔ آخر کار 1995ء میں ان سے ملاقات کی وہ گھڑی آہی گئی۔ وہ آواز جسکو میرے ابّا کے ساتھ ریڈیو سیلون پر بچپن میں سنا کرتا تھا۔ اور اسی دلکش آواز میں ’بناکا گیت مالا‘ کی جھلکیاں دوستوں کی فرمائش پر سنایا کرتا تھا۔ جس آواز کے کئی انوکھے انداز اور اشتہارات مجھے یاد تھے۔ اب اُسی آواز کے جادو گر کے ساتھ میں روبرو تھا۔ اس شام بنگلور کے شیواجی نگر رسل مارکیٹ کے روبرو جناب روشن بیگ کے ایچ فاؤنڈیشن کے موبائل اسپتال کے افتتاح کی تقریب میں دلیپ کمار اور سائرہ بانو شریک تھیں۔ میں نے نظامت کے فرائض نبھائے تھے۔ رات میں شہر کے ولسیٹ اینڈ ہوٹل کے سبزہ زار پر ڈنر کے لئے امین صاحب کے ساتھ روشن بیگ، جناب عزیز اللہ بیگ آئی اے ایس اور میں شریک تھا۔ دوران گفتگو امین صاحب نے پوچھا پروگرام کس نے کنڈکٹ کیا۔ بیگ صاحبان نے میری جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ میں امین صاحب کی آواز سے بے حد متاثر ہوں۔ ارے بھئی ہم بھی تو زرا سنیں آپ کیسے بولتے ہیں؟ امین صاحب نے اپنی نقرئی آواز میں میری طرف دیکھتے پوچھ لیا۔ میں خود کو نروس محسوس کرتے ہوئے سمٹا ہوا محسوس کررہا تھا۔ پھر خود کو سمیٹتے ہوئے میں نے امین صاحب کی آواز میں میرے پسندیدہ adsکو دہرایا۔کندھا تھپتھپاتے ہوئے وہ کہنے لگے اگر بمبئی میں یہ ہوتے تو ہمارے ساتھ کام بھی کرلیا کرتے اور نکھر بھی جاتے۔ دوسرے دن صبح میری فیملی سے ملوانے میں ہوٹل گیا۔ بڑے تپاک اور محبتوں سے ملے۔ تصاویر کھینچوائیں۔ پھر دوپہر میں دلیپ صاحب کے ساتھ اُس شام ہوٹل اشوک میں منعقد ہونے والے دلیپ سائرہ جی کے ساتھ امدادی پروگرام کی ترتیب و پیش کش پر ڈسکشن میں میں ساتھ رہا۔ اور شام کو اسٹیج پر امین صاحب کا تعارف میں نے کروایا۔ حالانکہ اس کی قطعی ضرورت نہیں تھی۔ مگر اپنی دیرینہ آرزو کی تکمیل کیلئے میں نے پروگرام میں یہ شامل کروالیا تھا۔ تعارف کرواتے میں نے اس آواز کے جادوگر کے لئے گلزار صاحب کا وہ یادگار جملہ دہرایا کہ ’یہ آواز Eskimosایسکیموز (برفیلی پہاڑوں کے درمیان رہنے والے) کو ریفریجریٹر خریدنے پر مجبورکردے گی، پروگرام کے دوران پہلی بار میں دم بخود سامنے بیٹھے دیکھتا رہا، سنتا رہا کہ امین صاحب کس نفاست اور سلیقے سے بولتے ہیں اور پورا سامعین کا مجمع ان کی آواز کے سحر میں ان کے ساتھ ہولیتا ہے۔
؎ کروگے یاد تو ہر بات یاد آئے گی
گزرتے وقت کی ہر موج ٹہر جائے گا
آج جب میں امین صاحب سے جڑی بے شمار یادوں کے چراغ روشن کررہا ہوں تو ان کی آواز کانوں میں رس گھولتی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔ وہ اپنے آپ میں قدرت کی ضاعّی کا ایک کرشمہ phenomenonتھے۔ ہر بار یہی محسوس ہوا کہ وہ اپنے سننے والوں اور دیکھنے والوں کے درمیان کوئی فاصلہ ہی نہیں رکھتے تھے۔ گویا وہ راست اُن کے سامنے اپنی پوری سادگی اور خلوص کے ساتھ اُن سے ہم کلام ہیں۔اُن کی یہی خوبی انہیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز رکھتی ہے۔ ایک انگریزی ویکلی میگزین Onlooker(آن لوکر)نے امین صاحب کی آواز کی دنیا میں خدمات پر سرِورق پر انک ی مسکراتی تصویر کے ساتھ کور اسٹوری کی تھی۔ عنوان تھا کیوں اس آواز کو کروڑوں لوگ سنتے ہیں۔ فلم فیئر ایوارڈز پر ایک فیچر فلم ’سنہری یادیں‘ بنی تھی۔ پورے تین گھنٹوں پر مشتمل اس فلم کے ٹائٹلس میں Words and Voiceکے کریڈٹس میں امین سیانی کا نام دیا گیا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ امین سیانی کی آواز اور ان کی براڈ کاسٹنگ پیش کش سے دلچسپی رکھنے والوں نے یہ فلم ضرور دیکھی ہوگی۔ امین صاحب کی رحلت کے بعد اُن پر بہت کچھ کہا اور لکھا جارہا ہے۔ ان کے چاہنے والوں نے جس طرح ان کی آواز سے انکی وابستگی کی یادوں کو دہرایا ہے وہ قابل ستائش ہے، وہ اس ملک کی آواز Voice of Nationتھے۔ ہر کسی کی زندگی کا حصہ رہے امین صاحب۔ سبھی کے پاس ان کے تعلق سے ان کی یادیں جڑیں ہیں، آواز کی دنیا میں ”بہنو اور بھائیو، آپ کے دوست امین سیانی کو اب دیجئے اجازت“یہ مشفق آواز چاروں سمت پھیلی ہوئی انہیں پھر سننے کا اشتیاق دلاتی رہے گی۔
9986831777

About Gawah News Desk

Check Also

اتراکھنڈمیں تاجروں کی تنظیم نے مسلمانوں کی ملکیت والی دکانوں کا رجسٹریشن منسوخ کردیا

اتراکھنڈ کے دھرچولا قصبے میں ایک تاجر تنظیم نے 91 دکانوں کارجسٹریشن منسوخ کر دیا، …

دو نابالغ بھائیوں کاقاتل ملزم واقعہ کے صرف دو گھنٹے بعد ہی انکاؤنٹر میں ہلاک

اتر پردیش کے بداویوں ضلع میں دو کمسن بھائیوں کے قتل اور پھر مبینہ پولیس …

Leave a Reply