مظفر حسین غزالی
بھارت نے چاند کے جنوبی حصہ میں وکرم لینڈر کے ذریعہ چندریان 3 اتار کر تاریخ رقم کر دی ہے۔ اسی کے ساتھ وہ امریکہ، چین اور سابق سوئت یونین کی صف میں شامل ہو گیا ہے۔ اس کے لئے اسرو کے سائنسدانوں کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ چندریان3 کی لینڈنگ کے وقت وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ یہ ترقی یافتہ بھارت کا (شنکھ ناد) نعرہ ہے۔ بھارت کی یہ اڑان اس سے آگے جائے گی۔ انہوں نے اس دوران سورج کے مشن کا بھی ذکر کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اسرو ادتیہ ایل – 1 بھی لانچ کرے گا۔ جس سے سورج کا تفصیلی مطالعہ کیا جا سکے گا۔ اس کے بعد سیاروں، معاون سیاروں اور نظام شمسی کی صلاحیت کو پرکھنے کے لئے دوسری مہمات شروع کی جائیں گی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں پہلے ہیومن مشن گگن یان کی بھی جانکاری دی، بتایا کہ اس کے لئے تیاریاں تیزی سے جاری ہیں۔
روس لونا 25 پر 1650 کروڑ روپے خرچ کرکے بھی چاند کے مشن میں ناکام رہا۔ جبکہ بھارت کے سائنسدانوں نے ایک تہائی یعنی 615 کروڑ روپے خرچ کرکے یہ کمال کر دکھایا۔ یہ اس وقت ہے جب حکومت سال در سال ایجوکیشن کا بجٹ کم کر رہی ہے۔ جس کی وجہ سے تعلیم کا معیار مسلسل گر رہا ہے۔ اگر شاندار طریقہ سے تعلیم دی جائے یہاں کے لوگ ملک کے لئے کیا کچھ نہیں کر سکتے۔ المیہ یہ ہے کہ گزشتہ سال آٹھ لاکھ بچوں نے اعلیٰ تعلیم کے لئے ملک چھوڑ دیا۔ کیونکہ انہیں یہاں کا اعلیٰ تعلیم کا انفراسٹرکچر اپنے مطابق نہیں لگتا۔ آئی آئی ٹی کی پڑھائی کرکے باہر جانے والے بچوں میں سے صرف دو فیصد ہی ملک واپس لوٹ پاتے ہیں۔ ملک کے وزیراعظم جن سائنسدانوں کے بوتے اپنا پرچم اونچا کر رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا ان کے کام کرنے کے حالات صحیح چل رہے ہیں؟ 2022 کو ہی بنیاد مان لیں، تو اسرو میں 16 ہزار 786 لوگ کام کر رہے تھے۔ اس وقت اسرو کا بجٹ 13 ہزار 700 کروڑ تھا جو 23 – 2024 میں آٹھ فیصد کم کرکے 12 ہزار 542.91 کروڑ روپے کر دیا گیا۔ بجٹ کم کرنے کے پیچھے کی وزیر خزانہ نے وجوہات کی وضاحت نہیں کی۔ اب کہا یہ جا رہا ہے کہ یو پی اے کے وقت اسرو کا بجٹ محض 5615 کروڑ تھا۔ جو حکومت نے بڑھا کر 12542.9 کروڑ کر دیا ہے یعنی 122 فیصد زیادہ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسپیس سے جڑے ہوئے ساز و سامان کی قیمت میں 500 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ سیاستدانوں کا نہیں بلکہ سائنسدانوں کا کمال ہے کہ انہوں نے دنیا کا سب سے ہلکا اور سب سے سستا چندریان 3 بنایا اور پوری دنیا میں بھارت کا نام روشن کیا۔
اس بڑی کامیابی کے بعد اپنی پیٹھ ٹھونکنے والی حکومت نے گزشتہ نو سالوں کا رپورٹ کارڈ جاری کیا ہے۔ جس کا لب ولباب یہ ہے کہ نو سال کی مدت میں اسرو کے ذریعہ 389 غیر ملکی سیٹلائٹ لانچ کء
ے گئے، جس سے 3 ہزار 300 کروڑ کی آمدنی ہوئی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ 2014 سے پہلے صرف 35 غیر ملکی سیٹلائٹس خلا میں بھیجے گئے تھے۔ مودی حکومت کے رپورٹ کارڈ سے اسرو میں کام کر چکے معروف سائنسدانوں کے حوصلے پر کیا اثر پڑے گا یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اسرو کو انتخابی منچ پر لانے کی تیاری پوری ہو چکی ہے۔ جب وہاں ہر لانچ سے پہلے پوجا پاٹ کا دکھاوا شروع ہوا تبھی لگ گیا تھا کہ سائنس کے اس مرکز کی بنیادی شکل کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسرو میں جو عجیب و غریب ہوا اس میں شلیش نائک کا قصہ بھی دلچسپ ہے۔ جو صرف 11 دنوں کے لئے اس محکمہ کے چیرمین بنائے گئے۔ یکم جنوری کو وہ اسرو کے چیف بنے اور 12 جنوری کو خبر آئی کہ وہ استعفیٰ دے چکے ہیں۔
عوام کو حکومت سے یہ سوال کرنا چاہئے کہ اس نے ریسرچ پر خرچ ہونے والا بجٹ کم کیوں کر دیا۔ مرکزی یونیورسٹیوں، کالجوں اور اعلیٰ تعلیم کے اداروں کے بجٹ میں تخفیف کیوں کی گئی۔ نئی تعلیمی پالیسی نے تو اس معاملہ میں موٹی لکیر کھینچ دی ہے۔ اس کے مطابق حکومت تعلیم کے لئے کچھ بھی دینے کو تیار نہیں ہے۔ کالج یونیورسٹیاں فیس لے کر اپنا خرچ خود چلائیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جو بچے فیس دے سکتے ہیں انہیں ہی آگے بڑھنے کا موقع ملے گا۔ حالانکہ حکمراں اپنی ریسی اور اپنی حکومت کو کامیاب دکھانے کے لئے تشہیر پر ہر سال ہزاروں کروڑ روپے خرچ کر رہی ہے۔ 2014 میں 935 کروڑ روپے میڈیا کو دیئے گئے۔ اگلے سال 1170 کروڑ روپے بانٹے گئے۔ 18-2019 میں الیکشن قریب آنے کے وقت 1586 کروڑ روپے تقسیم ہوئے۔ 2014 کے بعد تین ہزار کروڑ روپے میڈیا کو دینے کی بات پارلیمنٹ میں بتائی گئی تھی۔ وزیر اعظم کی حفاظت میں لگی ایس پی جی کا بجٹ 433 کروڑ ہے۔ باقی چار پانچ دائرے کی سیکورٹی پر بھی تقریباً دو سو کروڑ کا خرچ اور مان لیجئے۔ یوجناؤں پر عمل ہو یا نہ ہو لیکن ان کی تشہیر پر بڑی رقم خرچ کی جاتی ہے۔ اسے عوام کی ضروتوں ایجوکیشن، صحت، روزگار اور لیونگ کنڈیشن کو بہتر بنانے کے لئے ڈائروٹ کیوں نہیں کیا جاتا اس کے بارے میں معلوم جانا چاہئے۔
ہم ملک کے سائنسدانوں کی کامیابی پر ضرور فخر کر سکتے ہیں لیکن ساتھ ہی ان حالات کی بھی چھان بین کرنی چاہئے جن کی وجہ سے انھیں خودکشی کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ 2014 سے پہلے اور اس کے بعد بھی اسرو سمیت ملک کے بڑے سائنسی تحقیقی اداروں میں خودکشی اور پراسرار قتل کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ اپنے ملک کے سائنسدانوں کی پراسرار حالات میں موت ہوئی ہے، ان میں ہومی جے بھابھا، لوک ناتھن مہلنگم، اوما راؤ، روی مولے، ایم آئیر، کے کے جوشی، ابھیش شیوم، امنگ سنگھ، پارتھ پرتم بگ، محمد مصطفیٰ، ٹائٹس پال، دلیا نائک جیسے بہت سے نام شامل ہیں۔ بحث اس بات پر بھی ہونی چاہئے کہ پراسرار حالات میں جان کی بازی ہارنے والے سائنسدانوں کی صحیح سمت میں جانچ کیوں نہیں کی گئی۔ ایک سائنسدان کی پراسرار موت کا معاملہ ملک کی دفاع سے بھی جڑا ہوتا ہے۔ مگر اس وقت نریندر مودی کے شیدائی یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پوری دنیا میں صرف مودی وہ اکیلے لیڈر ہیں جو نظام شمسی کے ہر سیارے اور معاون سیارے پر سائنسی تحقیق کرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
چندریان کا سیاسی استعمال ڈرانے والا ہے۔ اس کی کامیابی کے بہانے حزب اختلاف اور پڑوسی ملک کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ اس کا مذہبی اینگل بھی ڈونڈھ لیا گیا کہ چاند کو قابل احترام ماننے والو مودی جی کی سربراہی میں بھارت نے وہاں جھنڈے گاڑ دیئے۔ چاند کو نفرت پھیلانے اور ووٹ پولرائز کرنے کا ذریعہ بنانا افسوسناک ہے۔ ایسا کرکے تنگ نظری کا ثبوط دیا ہے۔ حالانکہ سائنسدانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کامیابیوں کا پرچم بلندیوں پر لہرانا چاہتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف بڑی تعداد میں ایسے لوگ بھی ہیں جو تنگ نظری سے اوپر اٹھنا ہی نہیں چاہتے۔ وہ نفرت کے کیچڑ میں گہرے دھنسے ہوئے ہی مطمئین ہیں۔ امریکہ، روس اور چین جیسی بڑی خلائی طاقتوں کے برابر آنے کے لئے بھی وہ اس کامیابی کو سائنسی کسوٹی پر کسنے کے بجائے سیاست اور مذہب کے چشمے سے دیکھ رہے ہیں۔ جبکہ سائنس کی کوئی بھی ایجاد ہو اس کا اصل مقصد انسانیت کی بھلائی ہے۔ سائنس کی دنیا میں مقابلہ ضرور ہوتا ہے لیکن ہر مہم سے ساری دنیا جڑی ہوتی ہے۔ کامیابی سے دوسرے ممالک کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔
اسرو کا لانچنگ پیڈ کبھی میری میگڈلین چرچ تھا۔ وکرم سارابھائی اور اے پی جے عبدالکلام نے بشپ سے اسے دینے کی درخواست کی۔ بشپ نے سنڈے ماس میں عیسائی طبقہ کے لوگوں سے کہا کہ ہمارا مقصد اور سائنس کا مقصد انسانیت کی بھلائی ہے۔ تو کیوں نہ ہم یہ چرچ اسرو کو دے دیں۔ اسرو نے چرچ کی عمارت کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ اس میں میوزیم بنایا گیا ہے۔ اس واقع کا اسرو کے ڈائرکٹر رہے گیتا اروامودن نے اپنی کتاب اسرو اے پرسنل ہسٹری میں تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ مگر اس وقت جس طرح کے حالات ہیں ان میں اس بات کا امکان ہے کہ آپ کوکنگ گیس، کھانے کے تیل، دال آٹے، دودھ، سبزی اور روز مرہ کے استعمال کی چیزوں کے مہنگا ہونے کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں یا 15 سے 29 سال کے 38 کروڑ نوجوانوں میں سے 31 کروڑ کے بے روزگار ہونے پر سوال کرتے ہیں، سی اے جی کی رپورٹ سے ہوئے کرپشن کے انکشاف کے متعلق معلوم کرتے ہیں، تعلیم کے گرتے معیار پر انگلی اٹھاتے ہیں، صحت کے شعبہ کی خراب صورتحال پر تنقید کرتے ہیں، سیاسی سرپرستی میں سماج کو نانٹنے، نفرت کو فروغ دینے کی کوشش، انتظامیہ اور عدلیہ کے سیاسی دباؤ میں کام کرنے پر اگر آپ زبان کھولتے ہیں۔ تو آپ کو اب چاند دکھایا جائے گا۔ یہ سلسلہ الیکشن تک یوں ہی جاری رہ سکتا ہے۔
Check Also
بی جے پی ہٹاؤ۔ دیش اور دستور بچاؤ
مولانا سجاد نعمانی کا حیدرآباد میں خطاب۔ رپورٹ محمد حسام الدین ریاضہندستان کے ممتاز ومایہ …
لوک سبھا عام انتخابات کامنظر نامہ
کرہ ارض کے سب بڑے جمہوری ملک ہندوستان میں آزادی کے بعد سے بہت اہم …